Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
اتوار ، 08 جون ، 2025 | Sunday , June   08, 2025
اتوار ، 08 جون ، 2025 | Sunday , June   08, 2025

وزیراعلیٰ مریم نواز کی ’غیرمعمولی‘ اشتہاری مہم، صحافتی اصولوں کی نفی؟

پچھلے دو روز سے پاکستان میں سب سے زیادہ موضوع بحث پنجاب حکومت کا ایک سال مکمل ہونے کے بعد سرکار کی طرف سے اپنی کارکردگی کو میڈیا پر اشتہارات کے ذیل میں شائع اور نشر ہونے والا مواد ہے۔ 25 فروری کو ملک کے تمام بڑے اخبارات کے صفحہ اول پر وزیر اعلیٰ مریم نواز کی ایک سال کی کارکردگی کو اخباری سرخیوں کی طرز پر شائع کیا گیا۔
جس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بحث چل نکلی کہ حکومت نے اخباروں کے صفحات خرید کر تشہیر کی ہے۔ کچھ لوگوں کو اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ اشتہار دینا ہی تھا تو اس کو خبر کی شکل میں شائع نہیں کرنا چاہیے تھا۔ بدھ 26 فروری کو بڑے اخبارات کو 60 صفحات کا تشہیری سپلیمنٹ دیا گیا ہے جو صبح کے اخبارات کے ساتھ لوگوں کو ایک رسالے کی شکل میں دستیاب ہوا ہے۔
ان 60 صفحات میں پنجاب حکومت کے 90 سے زائد ایسے پراجیکٹس کی تفصیل فراہم کی گئی ہے جو اس نے گذشتہ ایک سال میں شروع کیے ہیں۔ اب اس بات پر بھی تنقید ہو رہی ہے کہ یہ سب صرف اخباروں میں ہے اور زمینی صورت حال مختلف ہے۔
اخباری طرز کا اشتہار
کیا اخباری سرخیوں سے ملتا جلتا اشتہار دینا صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی ہے؟ اس کے لیے یہ دیکھنا ضروری ہو گا اشتہارات کی یہ قسم کب سے پاکستان کی اخباری صنعت کا حصہ ہے۔ اس کی ابتدا لگ بھگ 24/25 سال قبل اس وقت ہوئی جب پاکستان کی نجی کمپنیوں نے تین سرخیوں کے برابر جگہ پر ایک اشتہاری سرخی دینا شروع کی۔
ایک ڈائپر بنانے والی کمپنی اور پھر ایک کھاد اور زرعی مصنوعات بیچنے والی کمپنی ایسے اشتہارات دے رہی تھی۔ یہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کا زمانہ تھا اور لوگوں کے لیے یہ انوکھا اشتہار تھا۔ لیکن تب کسی طرح کی کوئی تنقید سامنے نہیں آئی تھی۔ شاید وہ زمانہ بھی سوشل میڈیا کا نہیں تھا اس لیے بھی بات وہیں دبی رہی۔
اس کے بعد جب نجی ٹی وی چینلز عام ہوئے تو کچھ کمپنیوں نے ٹی وی رپورٹر اور ٹی وی اینکرز کی نقل پر اشتہار دینا شروع کیے۔ جو آج بھی چل رہے ہیں۔ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی رپورٹر خبر دے رہا ہے یا اینکر خبر پڑھ رہا ہے لیکن اشتہار ٹوتھ پیسٹ کا ہوتا ہے۔ کہ خبر آئی ہے کہ یہ پیسٹ سب سے اچھا ہے۔
تشہری جنگ کا آغاز
جب تک بات بڑی کمپنیوں تک محدود رہی تو کسی کی نظر نہیں پڑی، لیکن جب بات کارپوریٹ سیکٹر سے سیاسی اکھاڑے میں پہنچی تو ایک نئی طرح کی سیاسی جنگ کا آغاز ہو گیا۔ ویسے تو سیاسی جماعتیں چاہے وہ ن لیگ ہو پیپلزپارٹی یا ق لیگ حتی کہ جماعت اسلامی سب سے اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات دینے کی روایت کو زندہ رکھا ہے۔

اس نئی اشتہاری جنگ کا اگلا پڑاؤ اب وزیر اعلیٰ مریم نواز کی اشتہاری مہم ہے (فوٹو: ن لیگ فیس بک)

تاہم اب یہ اشتہاری جنگ سمٹ کر دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی طرف آگئی ہے۔ سندھ کی حد تک کبھی کبھی پیپلزپارٹی بھی اکھاڑے میں منہ دکھا جاتی ہے۔ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے بعد شہباز شریف جب پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تو ان کی تشہیری مہم غیر معمولی رہی۔ اسی طرح 2013 میں جب نواز شریف وزیراعظم بنے تو جہازی سائز اشتہاری مہم ان کی پالیسی کا حصہ رہی۔
تاہم ان کو اس مرتبہ ایک اور طرح کی اپوزیشن کا سامنا تھا جبکہ حکومت کے ان اشتہاروں کے مدمقابل میراتھون قسم کی ٹرانسمشنز تھیں۔ حتی کہ اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ایک سوؤ موٹو کیس میں حکومت پر اپنی تصویر والے اشتہار چلانے پر پابندی عائد کر دی۔
پھر حکومت آتی ہے تحریک انصاف کی جب حکومت کے سو دن پورے ہوئے تو اخبارات کے آخری صفحات خرید کر صرف یہ لکھا گیا کہ ’حکومت کے 100 دن‘ ہم کہاں تھے۔ اور اس کے بعد ایک تیر کے نشان کے ذریعے قارئین کو اندر کا صفحہ کھولنے کا اشارہ دیا گیا۔ اب یہاں پر آدھے صفحے پر اخباری سرخیوں کی طرز پر ہی عمران خان حکومت کے اس وقت کے کارنامے شائع کیے گئے تھے۔
اس اشتہاری تدبیر کو ن لیگ نے تنقید کا نشانہ بنایا۔ بات گذشتہ برس فروری تک پہنچی جب نئے انتخابات سے ایک روز قبل تمام بڑے اخبارات کے صفحہ اول پر ایک شہ سرخی کے سٹائل میں اشتہار چھاپا گیا کہ ’نواز شریف اگلے وزیر اعظم۔‘ اس پر پی ٹی آئی نے تنقید کی لیکن اگلے دن جب انتخابات کے نتائج آئے تو نواز شریف وزیراعظم نہ بن پائے
اس نئی اشتہاری جنگ کا اگلا پڑاؤ اب وزیر اعلیٰ مریم نواز کی اشتہاری مہم ہے۔ جو اس لیے بھی غیر معمولی ہے کہ اس سے پہلے جتنی بھی اشتہاری مہمات ہیں ان کو اس نے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ پہلے دن شہ سرخریوں سے مزین پہلا صفحہ اور دوسرے دن ساٹھ صفحات کے رنگین اشتہارات اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔ جبکہ مخالفین اس پر تنقید جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اخلاقیات اور قانون
تمام اخبارات اور ٹی وی اشتہارات کی مد میں پیسے کماتے ہیں اور اس سے نہ صرف اپنے اخراجات پورے کرتے ہیں بلکہ اپنے ملازمین کو تنخواہیں بھی دیتے ہیں۔ خبری طرز، یا ایڈیٹوریل یا کالم کی طرز پر کی جانے والی تشہیر اب ایک صنف کے طور پر جانی جاتی ہے۔ جس کو ایڈور ٹوریل کہا جاتا ہے۔ یعنی ایسی تشہیر جو بظاہر خبر کا تاثر دے۔
برطانیہ میں مقیم پاکستان کے سینیئر صحافی ثقلین امام کہتے ہیں کہ ’اخبارات کے رہنما اصولوں کے مطابق یہ ضروری ہے کہ اخبارات اشتہارات اور حقیقی خبروں کے درمیان فرق واضح رکھیں۔ تاکہ قارئین کا اعتماد برقرار رہ سکے۔ ایسے مواد کے ساتھ لفظ ’اشتہار‘ یا ’سپانسرڈ‘ لکھنا ضروری ہوتا ہے۔ دنیا میں جو ادارے اخبارات اور ٹی وی کو ریگولیٹ کرتے ہیں جیسے امریکہ میں فیڈرل ٹریڈ کمیشن ہے وہ ایسی اشتہار بازی پر کارروائی کر سکتا ہے جس میں قارئین کو واضح نہ کیا گیا ہو کہ خبر پڑھ رہے ہیں یا اشتہار۔‘
خیال رہے کہ پاکستان میں اس حوالے سے پریس کونسل آف پاکستان اور پیمرا جیسے ادارے موجود ہیں جو اخبارات اور ٹی وی کے مواد پر ان کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ رولز آف دی گیمز کو اب جانچا جانا چاہیے اور تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ میڈیا بھی اخلاقی قدغنوں کو ملوظ خاطر رکھے۔
اشتہاری مہم پر سوشل میڈیا کا ردعمل کیا رہا؟
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے اخبارات کے صفحہ اول پر خبر نما اشتہارات سوشل میڈیا پر بھی زیر بحث ہیں۔

جہاں پاکستان مسلم ن کے سیاسی مخالفین اس پر تنقید کرتے نظر آئے وہیں انٹرنیٹ صارفین بھی ان اشتہارات کے تکنیکی اور صحافتی پہلوؤں پر تبصرے کر رہے ہیں۔
کامران ریاض اختر لکھتے ہیں ’یہ پاکستان میں آج کے اخبار ہیں، پورا صفحہ اول حکومت پنجاب کے اشتہار پر مشتمل ہے جس میں مریم نواز حکومت کی ایک سالہ کارکردگی اجاگر کی گئی ہے۔ مارکیٹنگ کرنی ہے تو ٹارگٹڈ کریں، ایسی بے تکی بلینکٹ مارکیٹنگ مخالفین پر کیا اثر کرے گی اپنے ہی ووٹروں کو متنفر کر رہی ہے۔‘
معروف اینکر پرسن، ہوسٹ اور کامیڈین شفاعت علی نے لکھا ’کیا اشتہار کو خبروں کی طرح چھاپنا جعلی خبریں پھیلانے کے مترادف نہیں؟ آج جن اخبارات نے فرنٹ پیج پر اس اشتہار کو چھاپا ہے ان پہ پیکا نہیں لگتا؟‘

عمیر جعفری نے لکھا کہ ’پاکستان کے اخبارات کا فرنٹ پیج تو اب مریم نواز کا پروموشنل پوسٹر بن گیا ہے، خبر کہاں ہے؟ تعریفوں، بیانات، اور اعلانات کا سامنا کر کے کیا ہم اخبار پڑھ رہے ہیں یا کوئی اشتہار؟ یہ صحافت کا زوال ہے یا صرف نئی مارکیٹنگ سٹریٹجی؟‘

صحافی نجم والی خان نے لکھا کہ ’اگر آپ کو یہ لگے کہ کراچی، پشاور، کوئٹہ اور اسلام آباد کے قارئین کو صرف یہ خبریں پڑھانا صحافت نہیں تو آپ کو بتانا ہے کہ یہ حکومت پنجاب کا وزیراعلیٰ مریم نواز کی ایک برس کی کارکردگی پر خبروں کی صورت اشتہار ہے۔ نیچے جاری کرنے والوں کا نام، لوگو، نعرہ اور ریلیز آرڈر نمبر بھی موجود ہے۔‘

نجم ولی نے اپنی پوسٹ میں مزید کہا کہ ’ویسے دلچسپ آئیڈیا ہے کہ آج پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کے حامی بھی ملک بھر میں جو بھی اخبار اٹھائیں گے، وزیراعلیٰ مریم نواز کے ہی کارنامے پڑھیں گے مگر اس سے بھی زیادہ تو کل 26 فروری کو کچھ خاص ہونے والا ہے کہ آپ پڑھتے پڑھتے تھک جائیں گے۔‘

حالی ہی میں کی گئی ایک اور پوسٹ میں نجم ولی نے لکھا کہ ’آج کے اخبارات میں مریم نواز کی صرف ایک برس کی خدمات اور کارکردگی پر ساٹھ، ساٹھ صفحات شامل ہیں۔ یہ تمام صفحات اخبارات کے ایڈیٹوریل اور بزنس سیکشن نے خود تیار کیے ہیں۔ یہ محنت اور کام کو ظاہر کرتا ہے جبکہ پی ٹی آئی کا وسیم اکرم پلس تیسرے برس بھی ٹرین ہو رہا تھا۔‘

یاسر انیس نے اپنی پوسٹ میں کہا کہ ’پی ٹی آئی کو آج مریم نواز شریف کی کارکردگی سے بہت تکلیف ہے۔ پی ٹی آئی نے پنجاب پر ساڑھے چار سال حکومت کی اور جب عوام نے سوال کیا آپ کی کارکردگی کیا ہے تو ان کے پاس ایک بھی جواب نہیں تھا اور اخبار میں اشتہار یہ دیا کے ہم مصروف تھے۔‘

ایک اور صارف نے اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے لکھا کہ ’اخبارات کو بلا تفریق اشتہارات ملنے چاہییں کیونکہ بہت سے لوگوں کا ان سے رزق وابستہ ہے۔‘

پاکستان میں آجکل چیمپئنز ٹرافی بھی جاری ہے اور عوام پاکستان کرکٹ ٹیم کی کاردگی سے خاصے مایوس ہوئے ہیں، اسی دوران کچھ صارفین کرکٹ میں بھی مریم نواز کا ذکر کرتے رہے۔

ایک صارف نے کسی مایوس کرکٹ فین کو جواب میں لکھا کہ ’شاید آپ نے وہ اشتہار نہیں دیکھا جس میں مریم نواز ایک بال پر چھ چھکے لگاتی ہیں۔‘

 

شیئر: