Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
بدھ ، 23 جولائی ، 2025 | Wednesday , July   23, 2025
بدھ ، 23 جولائی ، 2025 | Wednesday , July   23, 2025

’میانوالی کے حبیب جالب‘ کی موت پر ٹرک ڈرائیوروں نے بیٹیوں کی کفالت کا بیڑا اٹھا لیا

35 سالہ عرفان کی موت رواں سال 2 جنوری کو ہوئی تھی۔ فوٹو: اردو نیوز
میانوالی کے علاقے وادی نمل کے ایک چھوٹے سے گاؤں کلری میں رات کے وقت ٹرک اور دیگر گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ چکی تھیں۔ ایمبولینس جیسے ہی کلری کی حدود میں داخل ہوئی تو پورے علاقے سے آہ و بکا کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں۔
ایمبولینس میں میانوالی کے معروف شاعر 35 سالہ عرفان فانی کی لاش پڑی ہوئی تھی جو کراچی میں علالت کے بعد انتقال کر گئے تھے۔
ایمبولینس میں عرفان فانی کے ہمراہ ان کے دوست نشاط اقبال بھی موجود تھے۔
نشاط اقبال نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’سب کو لگ رہا تھا کہ جیسے ان کے اپنے گھر کا کوئی نوجوان مرا ہو۔ جیسے ہی ہم گھر کے قریب پہنچے تو عرفان کی پانچ بیٹیاں اس کی لاش سے لپٹ کر اپنے مستقبل کے حوالے سے سوال کر رہی تھیں۔ یہ منظر کسی سے دیکھا نہیں جا رہا تھا۔ یہ بتانے والی کیفیت نہیں ہے بلکہ صرف محسوس کی جا سکتی ہے۔‘
عرفان فانی محض ایک نام نہیں بلکہ اپنے علاقے کی ثقافتی اور ادبی روایت کا ایک درخشاں ستارہ تھے۔ وہ جہاں ایک طرف محنت کش ٹرک ڈرائیور کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے تھے، تو وہیں شاعری کے آسمان پر بھی اپنے الفاظ کے جہاں آباد کیا کرتے تھے۔
اُن کی وفات پر پورا علاقہ سوگوار تھا تو دوسری طرف مقامی افراد نے مل کر ان کے خاندان کی کفالت کے لیے ایک ٹرک خریدا تاکہ ان کی پانچ بیٹیوں، بیوہ اور دو بہنوں کو عرفان کی کمی محسوس نہ ہو۔ 
عرفان فانی میٹرک تک ہی تعلیم حاصل کر پائے تھے کہ غمِ روزگار نے انہیں ٹرک ڈرائیور بنا دیا تاہم وہ زمانۂ طالب علمی سے ہی شاعری کرتے تھے۔ عرفان فانی کی شخصیت میں محنت کی عظمت اور فن کی نزاکت کا انوکھا امتزاج تھا۔

عرفان فانی ٹرک ڈرائیور ہونے کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کرتے تھے۔ فوٹو: اردو نیوز

وہ دن بھر کی تھکا دینے والی مشقت کے بعد بھی شاعری کی محفل کبھی نہ چھوڑتے۔ پانچ بیٹیوں کے باپ ہونے کا فخر ان کے چہرے پر ہمیشہ نمایاں رہتا تھا۔ وہ اپنی پانچوں بیٹیوں کو جمع کر کے تصویر بناتے اور پھر فیس بک پر اَپ لوڈ کر دیتے تھے۔
عرفان فانی نہ صرف گاڑیوں کے پہیوں کو رواں رکھتے بلکہ الفاظ سے بھی دلوں کو حرکت دے جاتے۔ ان کی شاعری محبت، محرومی، اور امید کے رنگوں سے سجی ہوئی تھی جو ہر عمر کے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی۔
ڈاکٹر سخی خان خود بھی ایک شاعر اور لکھاری ہیں۔ عرفان گزشتہ دو برسوں سے ان سے مختلف معاملات پر مشاورت کرتے تھے۔
ڈاکٹر سخی خان بتاتے ہیں کہ ’عرفان نے بنیادی طور پر دو طرح کی شاعری کی ہے۔ وہ معاشرتی تفریق اور اپنے علاقے سمیت مذہب پر بھی لکھتے تھے۔ وہ غزل کے شاعر تھے لیکن انہوں نے گیت بھی لکھے ہیں۔ ان کی شاعری میں ہندی بحریں نمایاں طور پر ملتی ہیں۔ انہوں نے کم عمری میں شعر کہنا شروع کیا۔ وہ ٹرک ڈرائیور تھے تو اس لیے ادبی محفلوں میں جانے کا موقع کم ملا تاہم جب بھی کسی محفل میں جاتے تو اس محفل کی جان بن جاتے۔ وہ میرے ساتھ شاعری کے موضوع پر ہی بات چیت کیا کرتے تھے۔‘
ڈاکٹر سخی خان کی کوشش ہے کہ عرفان فانی کی شاعری کو ایک جگہ اکھٹا کیا جائے۔ ان کے خیال میں عرفان کی بہت سی شاعری بکھری ہوئی ہے۔
’میں اس کی شاعری کی تدوین کر رہا ہوں۔ یہ جلد کتابی صورت میں شائع ہوگی جس میں میرا مقدمہ بھی شامل ہوگا۔‘
عرفان فانی نے اپنی زندگی میں سرائیکی شاعری پر مبنی کتاب ’جھڑی‘ شائع کی ہے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کی دوسری کتاب شائع ہوگی جس کے اخراجات مقامی لوگ برداشت کریں گے تاہم منافع ان کی بیوہ کو دیا جائے گا۔

عرفان فانی کی شاعری کی کتاب بھی شائع ہو چکی ہے۔ فوٹو: اردو نیوز

صرف یہی نہیں بلکہ مقامی لوگ ہر ماہ ان کی بیوی اور پانچ بیٹیوں کی چندے کی صورت میں بھی مدد کیا کریں گے تاکہ ان کی زندگی آسانی سے گزر سکے تاہم عرفان فانی کے لواحقین کی مستقل کفالت کے لیے مقامی ٹرک ڈرائیوروں نے مل کر ایک ایسا منصوبہ بنایا جس کے چرچے پورے ضلع میں ہو رہے ہیں۔
کلری اور دیگر علاقوں کے ٹرک ڈرائیوروں سمیت ٹرانسپورٹ کمپنیوں نے مل کر ایک کمیٹی تشکیل دی۔ اس کمیٹی نے ابتدائی طور پر 13 لاکھ روپے جمع کیے لیکن یہ رقم مستقل کفالت کے لیے کم تھی جس کے باعث تمام ڈرائیوروں اور ٹرانسپورٹرز نے ایک اور منصوبہ بنایا۔
اس حوالے سے اعوان ٹرانسپورٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین ملک فضل الٰہی اعوان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ابتدائی طور پر 13 لاکھ روپے جمع کیے تھے جس کے بعد سب نے مل کر اپنی استطاعت کے مطابق چندہ دیا۔
’اب ہمارے پاس مجموعی طور پر 46 لاکھ روپے جمع ہو چکے ہیں۔ ہم نے عرفان کی بیوہ کے لیے نجی بینک میں اکاؤنٹ کھولا ہے جس میں ان کے لیے ماہانہ رقم جمع ہوا کرے گی۔‘
عرفان فانی کی چھوٹی بیٹی کی عمر صرف 4 سال ہے۔ وہ اپنی بیٹیوں سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ جب بھی گھر آتے تو ان کو بلا کر تصویر بناتے۔
ڈاکٹر سخی خان بتاتے ہیں کہ ’عرفان ہمیشہ کہتے کہ میری پانچ بیٹیاں ہی میرے لیے سب کچھ ہیں۔ وہ ان کو بلا کر تصویر بناتے اور فیس بک پر اَپ لوڈ کر دیتے۔ وہ ان کے لیے شعر بھی کہتے تھے۔‘
عرفان فانی کراچی سے پشاور اور دیگر شہروں کے درمیان ٹرک چلایا کرتے تھے۔ ان کی زندگی کا زیادہ تر عرصہ اسی کام میں گزرا۔
ٹرانسپورٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین ملک فضل الٰہی بتاتے ہیں کہ ’کئی ماہ قبل جب وہ ٹرک چلا رہے تھے تو عرفان کی طبیعت خراب ہوئی۔ لانگ روٹس پر چونکہ میڈیکل کی سہولت کم ہی ملتی ہے تو اس لیے عرفان نے ابتدائی طور پر کسی مقامی ڈاکٹر سے علاج کروایا۔ ہمیں ابھی تک وجوہات کا اندازہ نہیں ہوا لیکن ڈاکٹرز کے مطابق ان کا ابتدائی علاج ٹھیک نہیں ہوا جس کی وجہ سے ان کی صحت بگڑتی گئی۔ ٹرک مالکان نے انہیں کراچی منتقل کیا اور کئی بڑے ہسپتالوں میں ان کا علاج کروایا لیکن وہ جاں بر نہ ہو سکے۔‘

ٹرک ڈرائیوروں نے عرفان فانی کی فیملی کی کفالت کا ذمہ اٹھایا ہے۔ فوٹو: اردو نیوز

ایک ماہ قبل دو جنوری کو جب عرفان فانی کے انتقال کی خبر پہنچی تو گھر والوں سمیت اہلِ علاقہ بھی زار و قطار رو رہے تھے۔
فضل الٰہی کے مطابق، ’ہم یہ جانتے تھے کہ وہ اپنے خاندان کا واحد کفیل تھا تو اس لیے ہم سب نے مل کر ان کے لیے پیسے جمع کیے۔ ایک ہیوی ٹرک 1 کروڑ 10 لاکھ روپے میں مل جاتا ہے۔ ہمارے پاس 46 لاکھ روپے جمع ہوئے تو ہم نے ایک کمپنی سے بات کی تو اب ٹرک سے آنے والا منافع دو حصوں میں تقسیم کر لیا جائے گا۔‘
’اس ٹرک سے ماہانہ اوسطاً 1 لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ روپے عرفان فانی کی بیوہ کو ملیں گے۔‘
فضل الٰہی بتاتے ہیں کہ ’ٹرک ڈرائیور کی زیادہ سے زیادہ تنخواہ 30 سے 35 ہزار روپے ہوتی ہے لیکن اب ان کی فیملی کو 1 لاکھ روپے تک ماہانہ منافع ملے گا۔ عرفان فانی میانوالی کے حبیب جالبؔ تھے، غیرت مند تھے اور خود مزدوری کرتے تھے جبکہ شاعری کا دامن کبھی نہیں چھوڑا تھا۔‘
عرفان فانی بنیادی طور پر سرائیکی اور پنجابی زبان کے شاعر تھے لیکن ڈاکٹر سخی خان کے مشورے پر انہوں نے ہندکو کے ذیلی لہجے اعوان کاری میں بھی شاعری شروع کی تھی۔
عرفان کے دوست نشاط اقبال بتاتے ہیں کہ ’ایک ٹرک ڈرائیور کی زندگی انتہائی سخت ہوتی ہے۔ عرفان کا اوڑھنا بچھونا ٹرک تھا۔ کھانے سے لے کر سونے تک سب کام ٹرک میں ہی کرنے ہوتے تھے۔ ان کے ایک بھائی کراچی میں ہوتے ہیں لیکن میانوالی میں وہ اپنے خاندان کا واحد سہارا تھا جس کے لیے وہ ٹرک ڈرائیوری جیسا اعصاب شکن کام کر رہے تھے۔‘
’عید الفطر کے بعد ان کی اعوان کاری زبان میں شاعری پر دوسری کتاب آئے گی۔ خوشی صرف اس بات کی ہے کہ ہم سب نے مل کر اس کے خاندان کی کفالت کا انتظام بخوبی کر لیا ہے۔‘
عرفان فانی کی ناگہانی موت پر ڈاکٹر سخی خان نے لکھا:
ہوائے شہر میں اک سوگ سا بلکتا ہے
غروبِ شمس کا منظر یہاں جھلکتا ہے
میں جب کبھی تری مسکان یاد کرتا ہوں
تو تیرے نام کا اک اشک سا چھلکتا ہے

 

شیئر: