Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
اتوار ، 27 جولائی ، 2025 | Sunday , July   27, 2025
اتوار ، 27 جولائی ، 2025 | Sunday , July   27, 2025

رمضان اور قرآن،د و وفا شعار ساتھی

اس کلام پاک کی کوئی نظیر نہیں، نہ مثیل ہے نہ اس میں خلط کرنے والے کا خلط اور دجل کرنے والوں کا دجل چل سکتا ہے
* * * *ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ ۔ مکہ مکرمہ* * *
رب کریم کا حضرت انسان پر عظیم احسان ہے اور رب السماوات کی زمین والوں پر انتہائی کرم نوازی ہے کہ اس نے ہر دور میں انسانوں کی رہنمائی کے لئے ہدایت نامے اپنی طرف سے آسمانی کتب کی صورت میں بھیجے کہ جس طرح مردہ زمین کو آسمان سے پانی اتار کر وہ زندگی بخشتا ہے، اسی طرح مردہ دلوں کو بھی حیاتِ جاوداں بخشنے کے لئے اس نے آسمانی ہدایت سے ہی اپنی مہر کے جوہر دکھائے۔ یہ عجیب مناسبت ہے کہ تمام آسمانی صحائف کا نزول، اوقات میں سے سب سے معظم وقت اور زمانوں سے سب سے مکرم زمانہ، یعنی ماہ رمضان المبارک ہی میں ہوا۔ پھر آسمانی کتب کا خاتم رب تعالیٰ کا کلام مجید اور خالق کا دائمی معجزہ قرآن کریم بھی رمضان کریم ہی میں نازل ہوا۔ ارشاد ربانی ہے: ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا۔پھر یہ بھی فرمایا: بے شک ہم نے اسے مبارک رات میں اتارا۔ نیز یہ ارشاد ربانی بھی قرآن کریم میں ثبت ہے:
یقینا ہم نے اسے لیلۃ القدر میں اتارا۔ یہ حکمت ربانی ہے کہ رب تعالیٰ نے پہلے آسمانی صحیفے اور کتب کو مخصوص زمانوں اور مخصوص انسانوں کے لئے اپنے معصوم پیغمبروں پر نازل فرمایا۔ وہ باری تعالیٰ کی حکمت کے مطابق ایک زمانہ تک محفوظ ومأمون رہیں، جب ان کی وہ مدت مقررہ ختم ہوئی تو لوگوں نے ان میں تبدیل وتحریف کردی۔ ارشاد ربانی ہے:وہ کلمات کو ان کی جگہ سے تبدیل کرتے۔ پھر جب نبی خاتم حضرت محمد رسول اللہ کی عالم گیر بعثت کا زمانہ آیا تو خالق بشر اور صانع کون ومکاں نے حضرت محمد رسول اللہ کو رحمت للعالمین قرار دیا اور انہیں اپنی پوری کائنات کے انس وجن کی طرف مبعوث فرمادیا۔ ان کی بعثت، عامہ، شاملہ، کاملہ یوں فرمائی کہ حضرت محمد رسول اللہ اپنی بعثت سے قیامت تک سب کے رسول، سب کے نبی اور سب کے ہادی ٹھہرے کہ اب جسے ہدایت ملنی ہے، انہی کے ذریعہ سے، ان کی لائی ہوئی شریعت سے جوکہ تمام انس وجانّ کی شریعت ٹھہری۔اس ربانی حکم سے کسی زمان کا، کسی انسان کا، کسی جانّ کا استثناء نہیں۔ قرآن کے ذریعہ باری تعالیٰ نے یہ اعلان یوں فرمایا: آپ کہہ دیں، اے لوگو !میں تم سبھی کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔‘‘ اُن پر اترنے والی کتاب بھی تمام انسانوں کیلئے ہے، ہادی ہے کہ وہ ’’ہدی للناس‘‘ ہے، ان کا قبلہ بھی، ’’ہدی للعالمین‘‘ ہے۔ پھر یہ حکمت بالغہ ہے کہ عالمین کے لئے رحمت نبی پر نازل ہونے والی عالمین کیلئے ہادی کتاب کی رب کریم نے خود حفاظت کی بھی کفالت فرمائی اور اسکا یوں اعلان فرمایا: یقینا ہم نے ہی ذکر (یعنی قرآن) کو نازل کیا او رہم ہی اسکی حفاظت کرنے والے ہیں۔
رب تعالیٰ نے قرآن کریم کے نزول کا زمانہ بتایا کہ وہ رمضان ہی ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔ رمضان یہ ماہ صیام بھی ہے اور ماہ قرآن بھی ہے۔ رمضان اور قرآن دونوں کا حضرت انسان کے ساتھ وفا شعاری کا باہمی تعلق بھی ہے اور وہ انسانی زندگی کے تمام مراحل میں قائم بھی رہتا ہے۔ اسی مناسبت سے ہی یہ سطور ’’رمضان اور قرآن‘‘ وفا شعار دوست کے عنوان سے ترتیب دی گئی ہیں اور یہ جاننا کہ امت قرآن ،قرآنی نص کی بموجب خیر امت ہے اور وہ قرآن جسکا نزول اسی ماہ رمضان میں ہوا ، کس طرح سے خیر امت کی اس خیر الکتب سے گہری وابستگی ہو؟ قرآن کریم کا خیر امت پر حق کیا ہے؟ قرآن عظیم کی عظمت کیا ہے؟ خیر امت کس طرح اس قرآن سے خود کی طاقت اور قوت پاسکتی ہے، کس طرح وہ اسکی برکت اور اس کی ہدایت سے فیض یاب ہوسکتی ہے؟ اور پھر کس طرح اس دنیا میں اور آخرت میں سربلند ہوسکتی ہے؟ اس بارے میں عرض ہے کہ امت مسلمہ کے ہر فرد کو یہ پختہ ایمان رکھنا ہے اور یہی قرآن کریم کا خیر امت پر اولین حق ہے کہ یہ قرآن کریم اللہ کا کلام ہے، یہ مخلوق نہیں، کلام رحمان کی عظیم صفت ہے۔ یہ بھی پختہ یقین ہو کہ قرآن کریم کا اعجاز (معجزہ ہونا) اس کے زمانہ نزول سے آج تک اور قیامت تک قائم رہے گا ، اس کا چیلنج ہے کہ تمام جن وانس ایک دوسرے کی مدد کر کے بھی اس کی ایک سورت جیسی سورت نہیں لا سکتے۔ ہر مسلمان یہ بھی پختہ اعتقاد رکھے اور یہ بھی قرآن کا کا حق ہے جسے جاننا اور ماننا خیر امت کے ہر فرد کے لئے ضروری ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ یعنی اسکی نصوص، اس کے معانی اور مطالب اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے محفوظ ہیںاور محفوظ رہیں گے۔ الفاظ کی حفاظت کا مشاہدہ تو ہمہ وقت تمام انسان کرتے ہیں کہ کتنے ننھے منے، چھوٹے بڑے ہر دور میں ان گنت، انسان ہیں جنکے سینوں میں سورت الحمد سے لیکر سورۃ الناس تک مکمل قرآن کریم محفوظ ہے، پھر غور کریں کہ یہ کتنا بڑا اللہ تعالیٰ کے کلام کا معجزہ ہے کہ قرآن کر یم عربی زبان میں ہے اور اسکا حافظ پاکستانی ہے، ہندوستانی ہے، بنگالی ہے، انڈونیشی ہے، ترکستانی ہے وغیرہ وغیرہ، جو اس زبان کو سرے سے جانتا ہی نہیں، وہ حافظ قرآن شخص کسی جنس ونسل اور زبان کا ہو، دنیا کے کسی خطے کا ہو، جو عربی کی ابجد سے بھی واقف نہ ہو، شروع سے آخر تک کتنا پختہ حافظ ہے۔
دنیا میں کسی نص اور کسی کتاب کی ایسی نظیر نہیں ملے گی کہ اسکی زبان نہ جاننے والے، پھر اسکی اس قدر طویل وعر یض نصوص کے حافظ ہوں؟ اگر حفاظت کے مادی اور انسانی اسباب میں تدبر کریں وہ عہد قدیم کے قلم وقرطاس ہوں یا آج کے دورِ جدید کے ذرائع اگر وہ سبھی ناپید بھی ہوجائیںتو باری تعالیٰ نے اپنے قرآن کریم کو کس طرح محض اپنے فضل اور توفیق سے حضرت انسان کے طاہر ومطہر صدور میں محفوظ فرما رکھا ہے اور ہر دور میں قرآن کریم کے حفاظ دنیا کے ہر خطے میں وافر تعداد میں ملتے ہیں۔ پھر اللہ کی حکمت بالغہ بھی دیکھیں کہ قرآن کے بارے میں ان تمام امور کا مشاہدہ مسلم وغیر مسلم سبھی انسان کرتے ہیں۔اب اس قرآن کریم کی یہ عظمت کہ اہل ایمان بندوں کے اعمال میں سے افضل ترین عمل ان کی نماز ہے جس میں قرآن کریم کی قرأت رکن ہے، اسکے بغیر نماز نہیں ہوتی، نماز سری ہو یا جہری نمازی کسی زبان وملک کے ہوں ،سبھی عربی متن میں ہی قرآن کریم کی اپنی نمازوں میں تلاوت کرتے ہیں اور جب رمضان المبارک کا نورانی مہینہ اس عالم کو منور کرتا ہے جس میں رحمان اپنی خصوصی برکات سے اس عالم کا احاطہ کئے ہے تو یہ کتاب اللہ ہی ہے کہ پورے عالم کے مسلمان اس رمضان کے خصوصی قیام میں کم از کم ایک بار اسے ختم کرتے ہیں اور بعض اہل عزیمت قیام والے دوباراور بعض 3 بار اسکا ختم قیام اللیل میں کرتے ہیں۔ مختلف حضراتِ قائمین کے ہاں الحمد للہ رمضان میں قرآن کریم کا یوں ختم معمول بن چکا ہے اور الحمد للہ آج بھی اور ہر دور میں جیسے نبی کریم اور حضرت جبریل علیہ السلام اس ماہ میں قرآن کا دور فرماتے تھے۔
دنیا میں کروڑوں حفاظ کا بھی یہی ثابت شدہ معمول ہے کہ وہ قرآن کریم کا باہم دور کرتے ہیں۔ یہ قرآن کریم کی حفاظت کے باب میں واقعاتی حقائق ہیں جو رمضان اور قرآن کا باہم ربط بھی بتاتے ہیں پھر ان حقائق کا تو مسلم وغیر مسلم سبھی لوگ اس عالم ِ کون ومکاں کے ہر ملک میں مشاہدہ کرتے ہیں۔ قرآن کریم کی حفاظت ربانی کہ اسکے الفاظ کی حفاظت کے لئے بہت ایسے حفاظ کرام موجود ہیں جو عربی زبان سے واقف ہیں اور بہت سے ایسے بھی جو عربی زبان سے واقف نہیں اور قرأت قرآن کے وقت سبھی ہما وقت چوکس ہوتے ہیں کہ قاری کسی کلمہ کے کسی حرف کی کسی حرکت میں غلطی کرنے لگتا ہے تو پیچھے سامعین کی کتنی آوازیں اسکی تصحیح کیلئے بلند ہوتی ہیں۔ یہ باری تعالیٰ جل شانہ کا انتظام اسکے الفاظ کی حفاظت کیلئے ہے جس کا مشاہدہ بھی ہوتا ہے۔ رہی اس کے مفاہیم ومطالب کی حفاظت تو چونکہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے اور وہ ان کے رسول خاتم پر اترا ہے تو اسکی مراد بھی وہی ہے جو اللہ اور رسول کی طرف سے بیان شدہ ہے اسی لئے زمانہ نزول سے آج تک اگر کسی نے قرآن کریم کے ان معانی ومطالب کو بدلنے کی ناپاک جسارت کی اور اسکے کسی کلمہ کو اسکی جگہ سے دیگر جگہ پر رکھنے کی مذموم سعی کی تو اس خیر امت کے اہل علم نے فوراً اسکے الحادی عمل کی نشاندہی الحمد للہ کر دی۔
سچ فرمایا ہے باری تعالیٰ جل شانہ نے کہ باطل اسکے آگے یا اسکے پیچھے سے اس کا رخ نہیں کرسکتا،یہ ’’حکیم حمید‘‘ کی تنزیل ہے۔ اللہ تعالیٰ جو حکیم ہیں، حمید ہیں ، اسکی ذات عالیہ کی حکمت بالغہ ہے کہ قرآن کریم جو خاتم الکتب ہے اور حضرت خاتم النّبیین پر نازل ہوا اور وہ، خیر امت کی خیریت کا کفیل وضامن ہے، اسکے الفاظ ومعانی محفوظ ہیںاور رہیں گے بلکہ اسکا چیلنج ہے کہ اسکی کوئی نظیر نہیں، نہ مثیل ہے نہ اس میں خلط کرنے والے کا خلط اور دجل کرنے والوں کا دجل چل سکتا ہے، نہ الحاد کرنے والوں کا الحاد اسمیں چل سکتا ہے۔ اے امت مسلمہ ،توتدبر کر رحمن کی اس عنایت پرکہ اس نے تمہیں زندہ وجاوید معجزہ قرآن کریم عطا فرمایا، اے خیر امت تمہیں ظاہری اور باطنی قوت والا قرآن باری تعالیٰ نے عطا فرمایا، ایسا طاقتور کہ ہر باطل کا مقابلہ کرنے والا ہے، ہر باطل کے باطل کو چکنا چور کر دینے والا ہے، یہ قرآن ہر حُسن اور کمال کا مصدر ہے، یہ قرآن کریم ہدایت کا سرچشمہ ہے، یہ اہل ایمان کی علمی، فکری ومعاشی، معاشرتی ہدایات کا مجموعہ ہے۔
اے امت قرآن! اسے محبوب اعظم کا کلام سمجھ کر اسکی ظاہری وباطنی طور پر تعظیم کرو، اسکے مقام ومنزلت کو مانو، ضروری ہے کہ اس کو پاک وصاف جگہ پر رکھا جائے، پاک وصاف ہاتھوں سے مس کیا جائے، یہ ملک الملوک کا قوی ترین کلام ہے، اسکی قوت وسطوت کی نظیر نہیں، نہ ملائکہ میں، نہ انسانوں میں، نہ جنات میں اس جیسا لانے والا، یہ اُس سلطان کا کلام ہے جس کی سلطنت کی حدود سے کوئی خارج نہیں، قرآن کریم کے ساتھ حسن ادب ہو، اسکی عظمت کا استحضار بھی۔ حضرت عکرمہ ؓ جلیل القدر صحابی ہیں ۔ان کے بارے میں آتا ہے کہ وہ جب قرآن کریم تلاوت کے لئے کھولا کرتے تو بے ہوش ہوکر گر جاتے اور فرماتے: یہ میرے رب کا کلام ہے۔ قرآن کریم کی عظمت کے باب میں ان تمام امور کا استحضار ہر مؤمن کے قلب وقالب میں نظر آئے۔ رمضان ہی کا یہ مبارک مہینہ ہے جس کی راتوں کے قیام میں قرآن کریم کی قرأت اور اس کے سماع کا خوب موقع ملتا ہے۔ اگر قرآن کریم کی عظمت ہمارے ملحوظ خاطر اور مقام اعتقاد میں ثابت اور راسخ ہونگی تو باری تعالیٰ ان شاء اللہ اس کے فیوض، برکات اور اپنی فتوحات ظاہری وغیبی کو ہم پر ضرور کھولیں گے، اس امر کا تجربہ کرلیں۔ قرآن کریم کی قرأت میں قاری کو ظاہر وباطن کی طہارت کا اہتمام رہے، تلاوت کرتے ہوئے قواعد تجوید اور ضوابط قرأت کا دھیان رہے، قرآنی حروف کو ان کے مخارج سے نکالا جائے ’’ح‘‘ کی جگہ ’’ہ‘‘ نہ پڑھے۔ ’’ق‘‘ کی جگہ ’’ ک‘‘ نہ پڑھے۔ ’’ع‘‘ کی جگہ ’’ہمزہ یا الف‘‘ نہ ہو ،عربی قرآن کو عربی زبان ہی میں پڑھا جائے۔ یقینا یہ قرآن کریم کا حق ہے کہ ہم اسے عربی لب ولہجے میں پڑھنا سیکھیں اور اپنے بچوں کو بھی سکھائیں۔
غور کریں کہ ہم لوگ انگریزی زبان انگلش لہجے میں بولنے اور بچوں کو سکھانے کی خاطر کتنے مہنگے اداروں میں داخلہ لیتے ہیں اور اپنے بچوں کو داخل کرواتے ہیں پھر خود ان کی نگرانی کرتے ہیں کہ ہر روز ان کی کس قدر ترقی الفاظ اور مفردات میں ہوئی کس قدر لب ولہجے میں ہوئی ،ان امور کی خوب نگرانی کرتے ہیں کہ ہمارا مال خرچ ہو رہا ہے حالانکہ وہ زبان ایسی ہے کہ بغیر اسکے معانی سمجھے نہیں آسکتی مگر اللہ کا یہ کلام عجیب ہے کہ وہ اپنے اعجاز کی وجہ سے اسقدر آسان ہے کہ جو اسکے الفاظ کے مطالب ومعانی اور اسکی زبان کو نہیں جانتا ہے، وہ بھی اسکی درست ادائیگی با آسانی کر سکتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے ہمارے اہل علم اور قرآن کریم کے معلّمین حضرات کو جنہوں نے قرآن کریم کے تلفظ اور اس کی درست ادائیگی پر اردو انگریزی اور عربی، اور دیگر علاقائی زبانوں میں بھی قاعدے اور کتب لکھ دی ہیں۔
قرآنی حروف کی درست ادائیگی اسکے مفردات اور مرکبات کی مہارت سے قرأت کے لئے ہمارے ہاں یسرنا القرآن اور نورانی قاعدہ اور دیگر بے شمار چھوٹی بڑی مؤلفات اور ان کی شروح موجود ہیں۔ الحمد للہ کہ ہر عربی وعجمی طالب علم ان قواعد کو سیکھ کر باآسانی قرآن کریم کو تجوید کے مطابق پڑھ کرسکتا ہے۔ قرآن کے الفاظ کی بغیر معانی سمجھے ،تلاوت بھی دل ودماغ کو جلا بخشتی ہے اور وہ موجب اجر وثواب ہے، یہ بے کار سوچ نہیں ہونی چاہئے کہ قرآن کریم کا بغیر سمجھے حفظ کرنا یا پڑھنا کار آمد نہیں۔ نبی کریم کا ارشاد ہے: جس نے ’’الم‘‘ پڑھا، اسے30 نیکیاں ملتی ہیں، حدیث میں ان حروف مقطعات کی ہی مثال دی گئی ہے، حالانکہ اسکے معانی ومراد سے تو اہل علم بھی واقف نہیں ، عام آدمی کی توبات ہی الگ ہے، بہر حال قرآن کریم کے بارے میں ہر مسلمان کا یہ پختہ عقیدہ ہو کہ اسکو سیکھنا عظیم عمل صالح ہے، اسکا پڑھنا بھی عظیم عمل صالح ہے، اسکے مطالب جاننا مستقل عظیم عمل صالح ہے، اس کے مضامین کو جاننا اور اپنی زندگی میں ان کے مطابق عمل، مستقل عظیم عمل صالح ہے اور یہ تمام اعمال قرآنیہ، قرآن کریم کی عظیم برکات کے موجب بنتے اور مظاہر ہیں جو دیگر دنیا کی کسی کتاب کا خاصہ نہیں ہے، یہ صرف اور صرف قرآن کریم کی ہی خصوصیت ہے۔
حضرت نبی خاتم نے قرآن کریم کے قاری، سیکھنے او ر سکھانے والے کو خیر امت کا بہترین انسان قرار دیا ہے اور فرمایا ہے: تم میں سے بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔ اے امت مسلمہ!اس کثیر الخیرات نعمت ربانی (قرآن کریم) میں اپنا مال، اپنا وقت، اپنی آل واولاد کو خوب اہتمام سے مشغول کریں، یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج قرآن کریم کے باب میں امت سے بہت غفلت ہورہی ہے جبکہ اسمیں مشغول ہونے کی عظمت کے بارے ارشادِ جناب نبی خاتم ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’جو شخص قرآن کریم میں اتنا مشغول رہا کہ اسے میرا ذکر کرنے اور مجھ سے مانگنے کی بھی فرصت نہ مل سکی کہ ہمہ وقت وہ تلاوت قرآن میں ہی مشغول رہا تو میں اسے دعائیں مانگنے والوں سے افضل عطا کروں گا۔‘‘ نیز فرمایا: اللہ تعالیٰ کے کلام کو بقیہ کلاموں پر ایسے ہی فضیلت ہے جیسی حق تعالیٰ شانہ کو اپنی مخلوق پر۔ اے امت مسلمہ!توغور کرلے کہ اس زندگی میں تیری قرآن سے وابستگی اور مشغولیت سے بہترین دیگر کوئی مشغلہ نہیں، قرآن کریم میں تیرا مشغول رہنا، اسکا سیکھنا، سکھانا، اس کا پڑھنا، پڑھانا، اسکی عظمتوں اور شہرتوں کا چرچا عام کرنا، امت کے مردوں اور عورتوں، چھوٹوں، بڑوں، جوانوں اور بوڑھوں سبھی کو قرآن کریم میں مشغول کرنے کی فکر کرنا، در اصل یہی خیر امت کی تعظیم وتوقیر کا ضامن ہے۔یہ ایسی جدوجہد مہارت ہے کہ جناب رسول اللہ نے فرمایا: ’’قرآن کریم کا ماہر ان فرشتوں کے ساتھ ہے جو نیک کار معزز اور لکھنے والے ہیں۔‘‘
پھر یہ بھی یاد رہے کہ اسکو سیکھتے ہوئے اگر کوئی قرآن کے نطق وادا میں محنت کرتا ہے اور اسکی زبان کبھی رواں نہیں ہوتی، وہ اٹکتی ہے، جس سے پڑھنے والے کو مشقت ہونے لگتی ہے تو ایسے شخص کے بارے میں نبی کریم نے فرمایا: ’’جو قرآن پڑھنے میں اٹکتا ہے، اس پر مشقت اٹھاتا ہے، اسکو دہرا اجر ملتا ہے۔‘‘ اے امت قرآن! قرآن کریم میں وقت اور جدوجہد صرف کرو، اسکی ادائیگی اور نطق میں مہارت حاصل کرو یقینا تم اللہ کے ہاں اسکے معزز ومکرم، لوح محفوظ سے قرآن شریف کے نقل کرنے والے فرشتوں جیسا مقام پاؤ گے۔ رمضان کے مبارک ایا م میں آپ خوب قرآن کریم کو حرز جان بناؤ، جس قدر ہوسکے، اسکی تلاوت کرو، اسے یاد کرنے کی بھی کوشش کرو، یہ کتاب عظیم تمہارے رب کریم کا عظیم تحفہ ہے، تمہارے نام رب کریم کا پیغام ہے، یہ اسکا آپ کے نام مکرم خط ہے، یہ اسکا والا نامہ ہے، اسکو بار بار بہ تکرار پڑھنا، اسکے نازل کرنے والے کی عظمت کو دل میں بٹھانے کا سبب ہے۔ حدیث میں ہے : ’’ بندے کو اللہ سے اس سے زیادہ قریب کرنے والی کوئی چیز نہیں بجز اس کے جو اس سے نکلی ہو۔‘‘

شیئر: