26 ویں آئینی ترمیم سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی سے بھی دو تہائی اکثریت سے منظور ہوگئی ہے۔
سپیکر قومی اسمبلی نے پیر کی صبح اعلان کیا کہ آئینی بل کے حق میں 225 اراکین نے ووٹ دیا جبکہ 12 اراکین نے ترمیمی بل کی مخالفت کی۔
قبل ازیں قومی اسمبلی کا اجلاس ساڑھے پانچ گھنٹے کی تاخیر سے اتوار اور پیر کی درمیانی رات ساڑھے گیارہ بجے شروع ہوا۔ بارہ بجنے سے قبل اسمبلی کے اجلاس کو تھوڑی دیر کے لیے ملتوی کیا گیا اور تاریخ تبدیل ہونے کے بعد اسمبلی کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا۔
اجلاس شروع ہونے کے بعد وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے آئینی ترمیمی بل پیش کرنے کے لیے معمول کی کارروائی معطل کرنے کی قرارداد پیش کی جس کو ایوان نے منظور کیا۔
تحریک کی منظوری کے بعد اعظم نذیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کر دی۔ بل پیش ہونے کے بعد اپوزیشن لیڈر اور ایوان میں موجود پارٹیوں کے پارلیمانی رہنماؤں نے خطاب کیا۔
بلاول بھٹو زرداری نے اپنے طویل خطاب میں ماضی میں عدلیہ کے فیصلوں کو نشانے پر رکھ لیا اور اس آئینی ترمیمی بل کی ضرورت پر زور دیا۔
قومی اسمبلی میں موجود سیاسی جماعتوں کی پارلیمانی لیڈروں کی جانب سے آئینی ترمیمی بل کے حوالے سے خطابات کے بعد بل کی شق وار منظوری کا عمل شروع ہوا۔
بل کی شق وار منظوری کے دورن بل کی پہلی اور دوسری شق کے حق میں 225 جبکہ مخالفت مین 12 ووٹ پڑے۔ اس کے بعد اپوزیشن کے اراکین نے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ باقی شقوں کی منظوری اپوزیشن کی غیرموجودگی میں ہوئی۔
26 ویں آئینی ترمیم پر دستخط کی تقریب آج ایوان صدر میں ہوگی
26 ویں آئینی ترمیم پر صدر مملکت آصف علی زرداری آج صبح ایوان صدر میں دستخط کریں گے۔
آئینی ترمیمی بل پر دستخط کی تقریب ایوان صدر میں ہوگی جس کے بعد ترمیمی بل باضابطہ طور پر آئین کا حصہ بن جائے گا۔
آئینی ترامیم پر دستخط کی تقریب میں اراکین پارلیمنٹ بھی شرکت کریں گے۔
سینیٹ سے آئینی ترمیمی بل منظور
قبل ازیں سینیٹ کے چیئرمین یوسف رضا گیلانی نے آئینی ترمیمی بل کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حق میں 65 ووٹ پڑے جبکہ چار سینیٹرز نے مخالفت کی۔
اتوار کی رات وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیم کا بل سینیٹ میں پیش کیا۔
سینیٹ آف پاکستان کا اجلاس چیئرمین یوسف رضا گیلانی کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس میں جاری ہے۔
اجلاس کے شروع میں وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ کی معمول کی کارروائی معطل کرنے کی قرارداد پیش کی جسے منظور کیا گیا۔
آئینی بل باضابطہ طور پر ایوان میں پیش کرنے سے پہلے وزیرقانون اور سینیٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں نے اس حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
اس کے بعد وزیرقانون نے آئینی ترمیم کا بل ایوان میں پیش کرنے کی قرارداد پیش کی جسے ایوان نے کثرت رائے سے منظور کیا۔ اس وقت بل کی شق وار منظوری کا عمل جاری ہے۔
26 ویں آئینی ترامیم بل کی مختلف شقوں کی سینیٹ سے شق وار منظوری کے حق میں 65 ووٹ جبکہ مخالفت میں 4 ووٹ پڑے۔
اس سے پہلے 26 ویں آئینی ترمیم کا مسودہ سینیٹ میں پیش کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم میں ججز کی تقرری کا طریقہ کار تبدیل کیا گیا اور اس میں پارلیمان نے بڑی محنت اور طویل غور و فکر کے بعد ایک ایسا نظام متعارف کروایا جس میں اعلیٰ عدالتوں یعنی ہائی کورٹس، سپریم کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت میں ججز کی تقرری کو شفاف بنایا جا سکے۔
’اس نظام کو میرٹ کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا تاکہ متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت ہو۔ وزیراعظم اور صدر نے اپنے اختیارات پارلیمان کو منتقل کر دیے تاکہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دو جج صاحبان، پاکستان بار کونسل کے نمائندے، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کے ساتھ بیٹھ کر امیدواروں کے کوائف پر غور و خوض کیا جائے اور ان کی نامزدگیاں فائنل کرکے پارلیمانی کمیٹی کو بھیجی جائیں، جس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی نمائندگی برابر ہو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس پارلیمانی کمیٹی کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ کسی نامزدگی کو واپس بھیج سکتی ہے یا مسترد کر سکتی ہے۔ ’تاہم، اس دوران سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی اور اس کیس کو سننے کے دوران اٹھارویں ترمیم کو چیلنج کیا گیا۔ ان کارروائیوں کے دوران یہ پیغام دیا گیا کہ اگر اختیارات کا توازن سپریم کورٹ کو نہیں دیا گیا تو یہ ترامیم منسوخ ہو جائیں گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ پارلیمان کی بالادستی اور آزادی کے خلاف یہ ایک کھلا عدم اعتماد تھا اور یہ پارلیمان پر حملے کے مترادف تھا۔‘
اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے جلدی میں انیسویں ترمیم کی گئی، جس میں کمیشن کی ساخت میں تبدیلی کی گئی اور اس کا جھکاؤ اعلیٰ عدلیہ کی طرف کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پارلیمانی کمیٹی کے اختیارات بھی محدود کر دیے گئے۔
’ہم نے دیکھا کہ 2010 سے ان 14 سالوں میں اپوائنٹمنٹ کے اس طریقہ کار کو ملک بھر کی بار ایسوسی ایشنز اور پارلیمان سمیت دیگر اداروں نے تنقید کا نشانہ بنایا اور بارہا مطالبہ کیا گیا کہ اسے دوبارہ جائزہ لے کر اٹھارویں ترمیم کی اصل روح کے مطابق بنایا جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے بھی بارہا کہا گیا کہ یہ نظام پرانے نظام سے کمزور ہے، جس میں ججز کی تقرری صدر، وزیراعظم اور چیف جسٹس کی مشاورت سے ہوتی تھی۔ اس پس منظر میں آئین کے آرٹیکل 175 اے میں مناسب ترامیم کی تجویز دی گئی اور پچھلے چھ سے آٹھ ہفتوں کے دوران مختلف مشاورت کے بعد جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی نئی ساخت بنائی گئی، جسے آج اس بل کی صورت میں آپ کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کے تحت جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں چار سینئر موسٹ ججز اور چار پارلیمانی ممبران پر مشتمل ہوگا۔
------------------------------------------------------------------------------------
ہم نے شخصیات کی جنگ نہیں لڑی، سب ججز ہمارے لیے محترم ہیں: مولانا فضل الرحمان
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پارلیمنٹ ہاؤس پہنچنے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئینی ترمیم کے عمل پر ہم خوش ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ملک کی خدمت کرنی ہے، آئین کی خدمت کرنی ہے، ملک کے نظام اور آئین اور قانون کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ترمیم میں جہاں کمیاں نظر آئیں ان کو ہم نے نکالا۔
اس سوال پر کے کیا جسٹس ک منصور علی شاہ کو مائنس کر دیا گیا ہے؟ مولانا فضل الرحمان نے جواب دیا کہ ہم نے شخصیات کی جنگ نہیں لڑی، سب ججز ہمارے لیے محترم ہیں۔
’ہم کبھی کسی کو متنازع نہیں بناتے، مائنس منصور علی شاہ کا تصور ہی نہیں۔ قاضی فائز عیسٰی اور منصور علی شاہ دونوں قابل احترام ہیں، خدا کے لیے ججز کو متنازع نا بنائیں۔‘
---------------------------------------------------------------------
’ہمارے سینیٹرز سے زبردستی ووٹ لیے جانے کا خدشہ ہے‘
سینیٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے علی ظفر نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت میں اور میرے تین چار ساتھی یہاں موجود ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اُن کی جماعت کے دیگر سینیٹر اس لیے آ سکے کیونکہ انہیں خوف تھا کہ انہیں پکڑ کر زبردستی ووٹ ڈلوایا جائے گا۔ ’شاید کچھ ساتھیوں کو آج بھی پیش کیا جائے گا اور ان سے کسی مجبوری یا دباؤ کے تحت ووٹ لیا جائے گا۔‘
-------------------------------------------------------------