عجب صورتحال درپیش ہے۔ مقتدرہ نے پہلی بار سابق ڈی جی آئی ایس آئی پر ہاتھ ڈالا ہے۔ بات یہاں ختم ہو گی یا یہاں سے شروع ہو گی۔ اطلاع ہے کہ یہ ہاتھ سنجیدہ اور گہرا ہے۔
یہاں سے کچھ سیاسی عناصر کچھ غیر سیاسی اور چند ایک عدالتی نکتے بھی جڑیں گے اور پھر ایک ایسی تصویر سامنے آ سکتی ہے جس سے سازش، بغاوت اور عدم استحکام برپا کرنے والوں کی نشاندہی کرتے ہوئے نظام اپنی ساکھ اور اپنی حیثیت بحال کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کرے گا۔
مگر کیا یہ سب ہو پائے گا؟ رد عمل کی گنجائش کتنی باقی ہے؟ اور پھر اس سب کے بعد کیا ہو گا؟ کیا سیاسی استحکام کی ضمانت مل پائے گی؟ کیا اکانومی پٹری پر چڑھ دوڑے گی؟ معلوم ہوتا ہے کہ ان سوالوں کے جواب اب مہینوں نہیں شاید چند ہفتوں کے اندر اندر مل جائیں گے۔
مزید پڑھیں
-
مولانا اور کپتان ملتے ملتے رہ گئے۔۔؟ اجمل جامی کا کالمNode ID: 871041
-
آگے کنواں پیچھے کھائی مگر کس کے لیے؟ اجمل جامی کا کالمNode ID: 872736
-
کوئی بے بسی سی بے بسی ہے، اجمل جامی کا کالمNode ID: 875526
جنرل فیض کا کورٹ مارشل تین سے پانچ ہفتوں کی کہانی ہے کیونکہ آرمی ایکٹ کی شق 31 اس مدت کا تعین کرتی ہے۔ عمر قید یا سزائے موت یا پھر 14 برس کی سزا یا اور کچھ۔ ان سے جڑے سیاسی اور عدالتی پہلوؤں کو سازش یا بغاوت سے جوڑنے کے ثبوت البتہ ان کی اپنی گرفتاری سے بھی بڑی پیش رفت ہو گی۔
جنرل فیض کی گرفتاری اور ان سے جڑے دیگر عناصر کی کہانیاں سن کر اچانک راولپنڈی سازش کیس کی روداد ایک عجب موازنہ پیدا کرتی دکھائی دیتی ہے۔
کریگ روڈ جو اب شاید سر سید روڈ کے نام سے جانی جاتی ہے، سنہ 1951 کے دوسرے مہینے میں غالباً جنرل اکبر خان کی سرکاری رہائش گاہ پر درجن بھر کے قریب فوجی افسران، ایک جنرل کی بیوی اور کمیونسٹ پارٹی کے تین دانشور عشائیے پر جمع ہوئے تھے۔ اجلاس میں مبینہ طور پر تجویز زیر بحث آئی تھی کہ اس وقت کی سرکار کا تختہ الٹا جائے۔ آٹھ یا نو گھنٹوں کا طویل اجلاس مگر بے نتیجہ نکلا، سازش ہوئی یا نہیں ہوئی، شرکا واپس گھروں کو لوٹ گئے۔

دو ہفتوں بعد وزیراعظم لیاقت علی خان نے حکومت کا تختہ الٹنے کی مبینہ سازش کا انکشاف کیا اور کہا کہ کچھ دن پہلے پاکستان دشمنوں کی سازش پکڑی گئی ہے۔ اس کا مقصد تشدد کے ذریعے ملک میں انتشار اور افراتفری پھیلانا تھا۔
اس مقصد کے حصول کے لیے افواج پاکستان کی وفاداری کو بھی ملیا میٹ کرنے کا پلان تھا۔ حکومت کو بروقت علم ہوا، چنانچہ چیف آف سٹاف میجر جنرل اکبر خان، بریگیڈیئر ایم اے لطیف، پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر فیض احمد فیض، سمیت درجن بھر افراد گرفتار کر لیے گئے۔
ان افراد کا ملٹری ٹرائل کرنے کے بجائے خصوصی ٹریبونل قائم کرنے کے لیے نیا قانون بنایا گیا جو راولپنڈی کانسپیریسی ایکٹ کہلاتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ اس واقعے کے بعد ملک بھر کے اخبارات نے بھی اس سازش کے خلاف بھر پور ایکشن لیا اور یک زبان ہو کر اداریے لکھے۔ جنرل اکبر 12 برس قید پانے کے بعد 1955 میں قانون کالعدم ہونے کی وجہ سے رہا ہوئے، لیکن پھر دوبارہ گرفتار ہوئے۔ 1966 میں پی پی پی میں شامل ہوئے اور بھٹو کی پہلی حکومت کے سلامتی امور کے مشیر بنے۔
جنرل اکبر کی آپ بیتی میں وہ اس سازش کیس کو البتہ کارٹون کہانی قرار دیتے ہیں۔ فیض البتہ تب بھی فیض تھے اور رہتی دنیا تک فیض ہی کہلائیں گے۔ مورخین کو کبھی اس کہانی کے پیچھے ایوب خان نظر آئے تو کبھی سامراجی قوتیں، کبھی طاقتوروں کے مذموم مقاصد دکھے تو کبھی واقعی سازش کی حقیقت دکھلائی دی۔ تاریخ البتہ بے رحم ہوتی ہے، ہمیشہ ایک سے زائد پہلو کھولنے کی صلاحیت رکھتی ہے جو اس سازش کیس کے بعد کھلتے رہے۔
