شاعرہ ڈاکٹر نزہت عباسی کو ادارہ فکر نو کی جانب سے پروین شاکر عکس خوشبو ایوارڈ ملنے پر تقریب پذیرائی
* * * زینت شکیل ۔ جدہ* * * *
چکور چاند کی الفت میں جیسے دیوانہ
تری تلاش میں یوں بیقرار ہم بھی ہیں
یہ شعر خیال کی ندرت کامنہ بولتا ثبوت ہے۔ اس شعر کے شاعر ظفر انجمی ہیں۔ تخئیل کی یہ ندرت ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوئی تو نزہت عباسی کی شکل میں سامنے آئی۔ڈاکٹر نزہت عباسی وہ شاعرہ اور ادیبہ ہیں جو اپنے والد ظفر انجمی سے ملنے والے ورثے کو لے کر آگے بڑھی ہیں۔ ان کے شوق کو ان کی سخن فہم والدہ نے علامہ اقبال کی غزلیں اور نظمیں سناکر انکے بچپن میں پروان چڑھایا۔ ان دونوں کی کوشش اور والد کی تربیت کے ساتھ نشوونما شعرو شاعری کی محفل اس جانب راہ متعین کر گئی ۔
ڈاکٹر نزہت عباسی کا پہلا شعر ی مجموعہ " سکوت" 2005 ء میں شائع ہوا ۔ پی ایچ ڈی کا مقالہ بعنوان "اردو کے افسانوی ادب میں نسائی لب و لہجہ (تحقیقی و تنقیدی جائزہ)" جسے انجمن ترقیٔ اردو پاکستان نے 2013 ء میں شائع کیا۔ پروفیسر مجنوں گورکھ پوری جس قدیم، معروف ادبی تنظیم ’’دبستانِ غزل‘‘ ، کراچی کے اولین صدر تھے، آج ڈاکٹر نزہت عباسی اسی ادبی تنظیم کی صدر ہیں۔ ذہین شاعرہ کی نظمیں شخصی، واقعاتی اور حب الوطنی سے لبریز ہیں۔ ان کا مطالعہ قاری کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔
شعری مجموعے " وقت کی دستک" میں ڈاکٹر نزہت عباسی کے منظوم کلام پر اندرون و بیرون ملک کے 14 ممتاز اہل نقد و نظرنے اپنی آراء پیش کی ہیں جن میں پروفیسر سحر انصاری، نقاش کاظمی، ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی، ظہور الاسلام جاوید، آغانور محمد پٹھان، ممتاز شیخ ، سہیل ثاقب، خالد عرفان، تسلیم الٰہی زلفی، ڈاکٹر شاداب احسانی، شوکت علی ناز، موناشہاب اورسبین سیف شامل ہیں۔ ڈاکٹر نزہت زندگی کو ادب و ثقافت کے بغیر نامکمل سمجھتی ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ تمام فنون لطیفہ زندگی کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایک قلم کار زندگی کی ہمہ جہت کیفیات، مشاہدات اور تجربات کو خوبصورت الفاظ کا پیرہن عطا کرتا ہے۔
یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب داخلی کیفیات و باطنی احساسات باہم ایک ساز میں مدغم ہوجائیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر نزہت کی شاعری اور مقالہ دونوں باہم مربوط ہیں۔وہ جب شاعری کرتی ہیں تو اس میں انسانی جذبات کا غلبہ حاوی رہتا ہے۔ رشتے ،ناتے ،احساسات و جذبات کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کے مقالے میں جہاں تاریخی صداقت ہے وہیں اپنے تخیل سے اضافے کے ذریعے انہوں نے قاری کی دلچسپی بڑھا دی ہے۔ اس میں ایک خاص طرزِ نسوانیت کا اسلوب ہی نہیں پیش کیا گیا بلکہ نہایت اہم نکات کا اضافہ بھی کیاگیا ہے۔ تخلیقی ، تعلیمی اور ادبی مقالات سے قوموں کے تمدن اور فکر و بصیرت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
٭بچپن میں آپ کیسی تھیں ، شرارتی یا پڑھاکو قسم کی طالبہ؟
٭٭ہمارا بچپن بھی عام بچوں کی طرح گزرا، کھیلوں میں حصہ لینا اور کبھی کبھار شرارت بھی لیکن دراصل سب سے زیادہ جستجو اس بات کی رہا کرتی تھی کہ جہاں جائیں وہاں کوئی بچوں کا رسالہ مل جائے، پھرمیں اسی میں مشغول ہوجاتی تھی۔ گھر پر تعلیمی اور ادبی ماحول ملا جس نے بتدریج درس و تدریس کے شعبے کی طرف راغب کیا۔
٭آپ کا کیا خیال ہے ،شاعری کرنا ادبی، تخلیقی صلاحیت کو بروئے کار لاکر کتابیں تصنیف کرنا آسان کا م ہے؟
٭٭ادب ہو یا مصوری یا فنون لطیفہ کی دیگر اصناف، مالک حقیقی کی طرف سے ودیعت کی گئی صلاحیت کی بناء پر ہی ممکن ہے۔ ایک بہترین تخلیق کار اپنی خارجی اور باطنی کیفیات، مشاہدات اور تجربات کو اس انداز میں لفظوں کا پیرہن عطا کرتا ہے کہ جس سے کروڑوں دلوں کی ترجمانی ہوتی ہے۔ غزل چونکہ اردو شاعری کی سب سے خوبصورت صنف ہے اس لئے کسی بھی بہترین غزل میں انسان احساسات و جذبات کا تلاطم محسوس کرسکتا ہے۔ غزل کا ہر شعر دراصل انسانی جذبے کی عکاسی کرتاہے۔ یہ بات اہم ہے کہ لفظی تصویریں خواہ کتنی ہی خوبصورت ہوں، بجائے خود شاعر کی اعلیٰ خصوصیت پر دلالت نہیں کرتیں بلکہ ان سے شاعر کی صلاحیت اسی وقت ثابت ہوتی ہے جب ان میں ایک حاوی اور طاری جذبہ اور اس جذبے سے پیدا شدہ افکار تلازمات اعتدال اور توازن پیدا کردیں۔
٭دنیا میں خوشی کی نسبت غم بہت زیادہ ہیں، ایسا کیا ہے جو اس احساس کی تلافی کرے؟
٭٭ہر انسان ظاہری طور پر مطمئن اس وقت ہوسکتا ہے جب وہ باطنی طور پر آسودہ ہو۔ حقیقت تو یہی ہے کہ دنیا بے ثبات ہے، اسکی ثروت عارضی اور اسکی کامیابیاں پانی کی سطح پر بننے ولا بلبلہ ہیں اور اس میں قیام بالکل مختصرہے لیکن بہت کم لوگ ہیں جو اپنی زندگی کو جاوداں بنا لیتے ہیں۔ ادب کا ایک کام ذہنوں کو انبساط اور تفریح فراہم کرنا بھی ہے اور خواب جزیروں تک پہنچانا بھی ہے۔ روشن اور خوشگوار پہلو بھی تو زندگی کا حصہ ہیں لیکن اس مختصر حیات میں ایسے نقش کچھ لوگ چھوڑ جاتے ہیں جو ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے باوجود ان کے نام کو زندہ رکھتے ہیں۔ علم ، تحقیق، تہذیب اور شائستگی وہ خزینے ہیں جو چراغ سے چراغ جلاتے چلے جاتے ہیں۔ ایک اچھی سوچ جو خداداد ہوتی ہے، منزل کا تعین کرتی ہے ، بہترین مثبت سوچ غموں کو ایسے سمیٹ لیتی ہے جس طرح پانی خشک زمین کی پیاس کو اور بادل سورج کی تمازت کو۔
٭ڈاکٹر نزہت عباسی آپ کے اولین شعری مجموعے " سکوت" میں ایک ایسی شخصیت کا سراغ ملتا ہے جو بیرونی ناہمواریوں سے گزرتے ہوئے کبھی اپنے خوبصورت خوابوں سے دستبردار نہیں ہوئی۔ دوسرا شعری مجموعہ " وقت کی دستک" میں قدیم و جدید شعری رویے پر ایک استاد کی حیثیت سے قابل قدر امکانات کا اضافہ کیاگیا پھر پی ایچ ڈی مقالہ " اردو کے افسانوی ادب میں نسائی لب و لہجہ " کے زیر عنوان آپ نے بہترین تحقیقی و تنقیدی جائزہ پیش کیا۔ اس عنوان کا سبب کیا بنا؟
٭٭ڈاکٹر اختر کی کتاب " بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقاء" سے استفادہ کرنے کا موقع ملا ۔ بہار میں گرچہ دفتری زبان فارسی تھی لیکن یہ شاہی زبان نہیں تھی۔ بہار کے ناظمان اور صوبہ داران مغل نہیں تھے۔ اس لئے دفتری ضرورتوں کے لئے ان کا تعلق بے شک فارسی سے تھا لیکن ان کی زندگیوں کے مشاغل میں مقامی بولی پور ے طور پر گھر کرچکی تھی اور عوام تو عام طور سے مقامی ریختہ ہی سمجھتے اور بولتے تھے۔ دہلی میں ولی کے آنے کے بعد جو لوگ اردو شاعری کی طرف متوجہ ہوئے وہ سب ریاست یا ارباب ریاست سے متعلق تھے۔ اس لئے فارسی زبان، فارسی تقریر و تحریر اور فارسی شاعری سے انہیں تعلق خاطر بھی رہا اور برخلاف اسکے بہار کے قدیم شعراء وہ ہیں جن کا تعلق عوام سے رہا، ان میں کوئی نہ صوبیدار کا ملازم نہ تعلق دار کا نوکر یا نظامت سے متعلق، نہ حکومت و سلطنت سے متو سل ۔ یہ لوگ سادہ لوح ، بوریانشیں بزرگ تھے۔ اس موضوع کے انتخاب میں میری اس وقت کی نگراں ڈاکٹر صدیقہ ارمان نے مدد کی۔ ان کی رحلت کے بعد پروفیسر ڈاکٹر یونس حسنی کی زیر نگرانی یہ مقالہ مکمل ہوا جس پر مجھے جناح یونیورسٹی برائے خواتین سے 2011 ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی۔ تقریب اجراء کے موقع پر ڈاکٹر جاوید منظر نے تعارفی کلمات میں کہا کہ ڈاکٹر نزہت عباسی نے انتہائی محنت اور کاوش کے ساتھ اس تحقیقی کام کو مکمل کیا۔ یہ مقالہ صاحبان علم و ادب کیلئے بہترین تحفہ ہے۔
٭ڈاکٹر ظفر اقبال عباسی آپ اپنی اہلیہ میں کیا خوبی دیکھتے ہیں کہ جس کی و جہ سے ان کی شخصیت میں چار چاند لگے ہیں؟
٭٭سیکڑوں پروگراموںمیں مہمانوں کی پذیرائی کے انداز دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نزہت کسی کی تعریف میں کنجوسی نہیں کرتیں۔ کسی کی تعریف کرنا، اسکی خوبیوں کا اعتراف کرنا فی زمانہ بہت نایاب ہوچکا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو دوسروں کی حوصلہ افزائی کرتے اور انہیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔چونکہ نزہت خود بھی علم کے حصول میں منہمک رہتی ہیں اور ایک استانی ہونے کی وجہ سے علم بانٹنے کا کا م بھی بڑی جانفشانی سے انجام دیتی ہیں اس طرح انکی تعلیمی، تحقیقی، مطالعاتی اور تخلیقی استعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نزہت کبھی تنقید برائے تنقید کا رویہ اختیار نہیں کرتیں۔ دوسروں کی رائے کو اہمیت دیتی ہیں۔ اپنی رائے دوسروں پر مسلط نہیں کرتیں۔ انکے نزدیک شاعری ایک کیفیت ہے جو وارد ہوتی ہے۔ یہ کیفیت حساس فرد کو تنہائی کے لمحوں میں لاشعوری کیفیت میں ایسی ان دیکھی دنیاؤں کی سیر کراتی ہے جہاں شاید شعوری طور پر نہ پہنچا جاسکے۔ شاعرہ کیلئے پر خلوص ہونا ضروری ہے۔ جس طرح مصور تصویر بنالیتا ہے اسی طرح شاعر لفظوں کے ذریعے اپنے تخیل و جذبات کو ایک شکل عطا کرتا ہے۔ اسلئے ضروری ہے کہ ظاہر و باطن میں مکمل ہم آہنگی ہو اور دل و دماغ میں وارد ہونیو الے خیالات و احساات کا فطری طور پر اظہار ہو۔ نزہت جہاں ہرلعزیز معلمہ ہیں وہی فاکہہ اور اعتزار کی بہترین ماں ہیں۔ مجھے فخر ہے کہ نزہت بچوں کی تعلیم و تربیت بہترین طرز پر جاری رکھے ہوئے ہیں جن کی ہر کوئی تعریف کرتا ہے۔ نزہت عباسی کی شاعری میں وقار اور ٹھہراؤ ہے، بردباری و سمجھداری ہے۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
نجانے کب سے آبلہ پائی سے یوں شاداب کرتی ہے
حیات گہر کے فن کو وہ تسخیر کرتی ہے
اسیر خواب کرتی ہے، ہماری روح کو مسحور کرتی ہے
نزہت عباسی کو ادارہ فکر نو کی جانب سے پروین شاکر عکس خوشبو ایوارڈ کے ملنے پر تقریب پذیرائی کا انعقاد کیا اور اس نمائندہ شاعرہ کو کئی ادبی محققین اور تخلیق کا روں نے خراج تحسین پیش کیا:
نئی دنیا کا نقشہ دیکھتی ہوں
پھر اس نقشے میں خود کو دیکھتی ہوں
٭٭٭
ساری دنیا کے خزانے ہی میسر ہوں جیسے
ہاتھ بھی اسکا کشادہ ہو ضروری تو نہیں
٭٭٭
رویے مار دیتے ہیں، یہ لہجے مار دیتے ہیں
وہی جو جان سے پیارے ہیں رشتے، مار دیتے ہیں
کہانی ختم ہوتی ہے کبھی انجام سے پہلے
ادھورے نامکمل ہوں تو قصے مار دیتے ہیں
٭٭٭
ہے محبت تو اعتبار بھی کر
ہر عمل کی وضاحتیں مت پوچھ
٭٭٭
عطر سازوں نے آگ پر رکھا
دل ہمارا گلاب تھا، کیا تھا
٭٭٭
اس نے جنت جو رکھ دی قدموں میں
مثلِ افلاک ہو گئی ہوں میں
٭٭٭
بھٹک نہ جائے کہیں کاروانِ فکر و عمل
شبِ سیاہ میں بیداریوں کی بات کرو
٭٭٭
جو منتظر ہیں زمانے سے چشمِ انساں کے
افق کے پار انہی منظروں کی بات کرو
٭٭٭
نیند نہ آئی ساری عمر
میں نے دیکھا کیسا خواب
٭٭٭
فرق کچھ نہیں پڑتا ایک جیسے ناموں سے
آدمی کو جانا ہے ہم نے اس کے کاموں سے
٭٭٭
مسلسل حادثوں میں جی رہے ہیں
کہ ہر دم وسوسوں میں جی رہے ہیں
نہیں ٹوٹا ہے اب تک وہ تسلسل
دکھوں کے سلسلوں میں جی رہے ہیں
وہیں پہنچے جہاں سے ہم چلے تھے
سفر کے واہموں میں جی رہے ہیں
ابھی بے سود ہیں منزل کی باتیں
ابھی تو راستوں میں جی رہے ہیں
٭٭٭
جہانِ عشق میں دنیا نے دلداری بہت کی
محبت کرنے والوں نے اداکاری بہت کی
ڈاکٹر نزہت عباسی اپنی نسائی خوبصورت اور منفرد شاعری کی وجہ سے نمائندہ سنجیدہ شاعرہ کہلائی جاتی ہیں ۔