Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
منگل ، 17 جون ، 2025 | Tuesday , June   17, 2025
منگل ، 17 جون ، 2025 | Tuesday , June   17, 2025

الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے

سوشل میڈیا پر وائرل غیر مسلم صحافی کے تجزیئے نے پوری مسلم دنیا کا مذاق اڑانے کی انتہائی بھونڈی کوشش کی ہے،کون سے عناصر ہیں جو مسلم دنیا میں غیر یقینی بپا کئے ہوئے ہیں؟
* * * محمد مبشر انوار* * * *
امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے سرکاری دورے کے ما بعد اثرات دیر تلک افق سیاست پر چھائے رہیں گے اور تجزیہ کار اس دورے کی حرکیات پر اپنے تجزیے دیتے رہیں گے تا وقتیکہ عالمی سطح پر کو ئی خاص تبدیلی آ جائے یا ڈونلڈ ٹرمپ اپنے دفتر سے فارغ ہو جائیں خواہ بذریعہ مواخذہ ہوں یا اپنی مدت اقتدار پوری کرنے کے بعد اوول آفس سے رخصت ہوں۔ بنیادی طور پر صدرٹرمپ کے متعلق کسی قسم کی پیشگوئی نہیں کی جاسکتی اور ان کے اکثر فیصلے غیر متوقع اور غیر یقینی ہوتے ہیں۔صدر ٹرمپ نیو ورلڈ آرڈر کا تسلسل ہی ثابت ہوں گے،جس میں وہ مسائل حل کرنے کی بجائے مسلم دنیا میں معاملات کو مزید الجھا کر رخصت ہوں گے۔مسلم دنیا سے ہٹ کر یورپ یا غیر مسلم دنیا پر نظر دوڑائیں تو ایسی ہیجان خیزی یا مسائل کے انبار کہیں نظر نہیں آتے ۔ بالعموم یہ واضح نظر آتا ہے کہ غیر مسلم دنیا کا کوئی بھی مسئلہ بآسانی میز پر مذاکرات کے ذریعے حل ہو سکتا ہے اور تمام عالمی ادارے ہنگامی صورتحال میں ان مسائل کے حل کی خاطر نہ صرف اکٹھے ہوتے ہیں بلکہ ان کا تصفیہ بھی فوری ممکن ہو جاتاہے لیکن مسلم دنیا کے مسائل ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید گمبھیرہورہے ہیں، بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ جلتی پر تیل کا کام ایسے تجزیئے اور آراء ہیں جو درحقیقت مسلم دنیا میں بھڑکائی گئی آگ پر مسلم اکابرین کا منہ چڑاتے ہیں۔
ایسی ہی ایک رائے آج کل سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں ایک غیر مسلم صحافی نے پوری مسلم دنیا کا مذاق اڑانے کی انتہائی بھونڈی کوشش کی ہے۔یہ تجزیئے درحقیقت مسلم دنیا کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہ انہیں دانستہ یا نا دانستہ ان چشم کشا حقائق کو زیر بحث لانے کی زحمت نہیںہوئی کہ اس کے پیچھے کون سے عناصر ہیں جو مسلم دنیا میں اتنی غیر یقینی اور بے چینی کی کیفیت بپا کئے ہوئے ہیں؟ میری دانست میں اس قسم کا تجزیہ ماسوائے لاعلمی کے اور کچھ نہیں کہ بحیثیت عالمی قائد، یہ امریکہ کا بنیادی فرض ہے کہ وہ پوری دنیامیں غیر جانبداری سے امن عالم کے لئے کام کریں اور در حقیقت اس وقت امریکہ یہ حیثیت رکھتا ہے کہ وہ پائیدار امن عالم کی نہ صرف بنیاد رکھ سکتا ہے بلکہ بین المذاہب رواداری اور ہم آہنگی کو پروان چڑھا سکتا ہے لیکن آج کی مادہ پرست دنیا میں امریکہ کو امن عالم کی بجائے صرف اپنے مفادات عزیز ہیں جس کے لئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔
ویٹی کن سٹی سے جو مطالبات پیش کئے گئے ہیں،ممکن ہے وہ ساری دنیا کے لئے ہی ہوں لیکن یہ مطالبات حقیقت میں امریکی مفادات اور ترجیحات سے قطعی میل نہیں کھاتے لہذا ان کے حصول کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ بالفرض امریکہ یا غیر مسلم دنیا واقعتا ً امن عالم کے لئے سنجیدہ ہوتی تو پر امن مسلم دنیا (جس کی بنیاد ہی ایسے دین پر ہے ،جس کا واضح مطلب سلامتی ہے)کو باہمی نفاق اور مسالک میں تقسیم نہ کیا جاتا ،جس کی تاریخ نورالدین زنگی کے زمانے سے مستند ہے جب یہودی اور مسیحی عالمین کو اس خصوصی مقصد کے لئے تیار کیا جاتا کہ اسلام کی بنیاد پر نقب لگائی جائے۔ طریقہ کار اس کا انتہائی زود اثر رہا ہے کہ ایسے پسماندہ علاقوں میں اپنے عالمین کو مسلمان عالم بنا کر بھیجا جاتا،جو عوام الناس کو گمراہ کرتے اوراس کے ساتھ ساتھ مسجدوں کے تقدس کو اس بری طرح پامال کیا جاتا ۔ دور حاضر میں بھی غیر مسلم طاقتیں مختلف انداز میں اپنی دشمنی کا رنگ مسلسل دکھا رہی ہیں کہ جہاں کہیں بھی مسلم مشکل میں ہے، وہاں تمام عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ،مسلمانوں کے بہتے خون سے محظوظ ہو رہے ہیں۔
مہذب دنیا کے نمائندے کے طور پر بظاہر ایسی بہیمانہ کارروائیوں کی شدید مذمت تو ہوتی ہے مگر عملی طور پر کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ مسئلہ کشمیر گزشتہ کئی دہائیوں سے عالمی اداروں کے سامنے ہے مگر مجال ہے کہ کسی بھی عالمی ادارے نے کشمیریوں کی عملی مدد کا اعادہ کیا ہوبلکہ ہر اہم موقع پر عالمی اداروں نے ریاستی دہشت گردی کے مرتکب ہندوستان کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ جب،جیسے اور جہاں چاہے نہتے کشمیریوں کے خون کی ہولی کھیلے۔ حد تو یہ ہے کہ عالمی اداروں کا کشمیریوں کے حق استصواب رائے کو تسلیم کرنے کے باوجود ، ہندوستان سے کشمیریوں کا حق دلانے میں مسلسل ناکام ہیں،اگر عالمی ادارے (جو امریکی گود میں بیٹھے ہیں) چاہتے تو ہندوستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کر کے، کشمیریوں کا حق دلا کر اس خطے کو مستقل امن دے سکتے ہیں لیکن ہندوستان کی ایک ارب سے زیادہ کی مارکیٹ کو ہاتھوں سے کھونا نہیں چاہتے لہذا یہ مسئلہ ہنوز جوں کا توں ہے اور مستقبل قریب میں بھی اس کے حل کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ علاوہ ازیں جو لائحہ عمل امریکہ اور اس کے حواریوں، بالخصوص یہودیوں نے اختیار کر رکھا ہے۔
وہ مسلم ممالک کی معیشت کو زبوںحالی کا شکار کر کے انہیں سودی نظام میں داخل کرنا ہے تا کہ وہ ممالک جن کی معیشت ابھی تک مضبوط ہے ، وہ بھی امریکہ اور اس کے حواریوں کے سامنے سر نگوں ہو جائیں۔ اس حقیقت کا اظہار اکنامک ہٹ مین کتاب میں بڑی فصاحت کے ساتھ کر دیا گیا اور اکنامک ہٹ مین کا جال بڑی سرعت اور چالبازی کے ساتھ مضبوط مسلم معاشی ملکوں کے گرد بنا جا رہا ہے۔ کشمیر کے علاوہ اسرائیلی چیرہ دستیوں کی داستان کس روشن ضمیر سے چھپی ہے، جہاں نہتے فلسطینیوں پر ٹینک چڑھائے جاتے ہیں، پتھر کے جواب میں گولے، بچوں پر تشدد، ہسپتالوں، رہائشی بستیوں پر بارود کی بارشیں،فلسطینیوں کا قتل عام اوران کی املاک پر قبضے نہ جانے کیسے موصوفہ کی آنکھ سے اوجھل ہیں؟اس تجاہل عارفانہ کے بعد تو صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔

شیئر: