دوحہ -- - - - - - دار مدارک اشاعت گھر سے شائع ہونے والی کتاب ’’ نہایہ عصر الجزیرہ ‘‘کے مصنف نے الجزیرہ چینل کے یکایک عروج اور زوال کی کہانی بیان کرکے دنیا بھر کی رائے عامہ کو ششدر و حیران کردیا۔ مصنف نے انکشاف کیا ہے کہ الجزیرہ چینل کے عروج کا باعث 11ستمبر کے طیارہ حملوں کے بعد القاعدہ کے قائدین کے بیانات بنے تھے اور یہ سارے بیانات قطر کے سابق امیر شیخ حمد بن خلیفہ ال ثانی نے ایک طرف الجزیرہ چینل اور دوسری جانب سی آئی اے کے سربراہ جارج ٹینٹ کو فراہم کئے تھے۔ اسکی تفصیلات دیتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ قطر کے سابق امیر کا بنیادی ہدف سی آئی اے کے سربراہ کی رضا کا حصول، سعودی عرب کو زک پہنچانا اور محدود رقبے معمولی حیثیت والے ملک کو اس کے حجم او رقد سے زیادہ بڑا مقام دلانا تھا۔جون کے وسط میں سی آئی اے کا انتہائی اہم اجلاس ہوا تھا۔ اس موقع پر یومیہ پروٹوکول کے برعکس سی آئی اے کے سربراہ جارج ٹینٹ نے انتہائی جوش اور جذبے کے ساتھ حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ سب لوگ جانتے ہیں کہ ہمارے امیر قطر سے اختلافات تھے لیکن آج انہوں نے ہمیں حیرت انگیز تحفہ پیش کیا ہے۔یہ کہہ کر انہوں نے سی آئی اے کے اعلیٰ عہدیداروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ گفتگو انسداد دہشتگردی سینٹر کے ڈائریکٹر سے شروع ہونی تھی لیکن آج گفتگو کا آغاز میں کررہا ہوں۔انہوں نے امیر قطر کے تحفے کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے کہا کہ یسری فودۃ سمیت الجزیرہ چینل کے اعلیٰ عہدیداروں نے خالد شیخ اور رمزی کے ساتھ ملاقات کی ہے۔اس موقع پر انہوں نے اس جگہ کی تفصیلات بیان کیں جہاں القاعدہ کے رہنما قیام پذیر تھے۔ رہنماؤں کی بابت بھی بتایا۔ خالد شیخ محمد اور رمزی بن الشیبہ سے جو معلومات حاصل ہوئی تھیں انکا بھی تذکرہ کیا تھا۔ اس ضمن میں انہوں نے امریکہ کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کے پروگرام کی منسوخی کا پروگرام بھی بتایا۔ انہوں نے کہا کہ یسری فودۃ کو کراچی میں القاعدہ کے قائدین کے فلیٹ کا پتہ معلوم ہے ۔ اس منزل کا پتہ بھی ہے جس میں وہ سکونت پذیر ہیں۔ جارج ٹینٹ نے فخریہ انداز میں کہا کہ ہمیں بڑا تحفہ ملا ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ امیر قطر نے پیش کردہ معلومات استعمال کرنے کے طریقہ کار کے حوالے سے کچھ شرائط عائد کی ہیں تاکہ الجزیرہ پر اطلاعات لیک کرنے کا الزام عائد نہ ہو۔ معلومات سن کر سی آئی اے کی میٹنگ میں جشن کا سماں پیدا ہوگیا تھا۔تقریب کے دوران بہت سارے سوالات بھی کئے گئے تھے۔ ایک سوال یہ بھی تھا کہ امیر قطر نے یہ کام اپنے سعودی ہمسایوں کو برہم کرنے کے لئے انجام دیا ہے۔ جنکی بابت امیر قطر کا گمان تھا کہ وہ چند برس قبل انہیں قتل کرانے کی کوشش کرچکے ہیں اور ان دنوں سعودی رہنما امریکہ کے کئی مطالبات پورے کرنے میں تعاون نہیں دے رہے تھے۔ آیا امیر قطر امریکہ کی دوستی کے چکر میں ایسا کررہے ہیں جبکہ امریکہ کابل میں الجزیرہ اسٹیشن تباہ کرچکا ہے۔اسی طرح کے بہت سارے سوالات کئے گئے تھے۔تقریب میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ الجزیرہ چینل کے اسٹیشنوں کے سربراہ اپنے طور پر ملنے والی معلومات قطر کی قیادت اور سی آئی اے کو وہ اطلاعات فراہم کررہے تھے۔لندن کے جریدے سنڈے ٹائمز نے 8ستمبر 2002ء کو خالد شیخ محمد اور رمزی بن الشیبہ سے ملاقات کے حوالے سے یسری فودۃ کا ایک مضمون شائع کیا تھا۔ الجزیرہ نے فودۃ کے ’’انتہائی خفیہ ‘‘ کے عنوان سے پروگرام کے اشتہارات دینا شروع کئے۔ یہ پروگرام 12ستمبر 2002ء کو پیش کیا جاناتھا۔ یہ طیارہ حملو ںکا ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر نشر کرنے کا ارادہ تھا۔ مبینہ معلومات کی بنیاد پر سی آئی اے او رپاکستانی پولیس ایک ماہ سے کراچی میں اس عمارت کی نگرانی کررہی تھی جہاں القاعدہ کے رہنما قیام پذیر تھے۔ امیر قطر اور جارج ٹینٹ کے درمیان طے شدہ پروگرام کے مطابق فلیٹ پر حملہ کیاگیا۔ یہ کام فودۃ کا پروگرام نشرہونے سے پہلے انجام دیا گیا۔ مبصرین کو اسی بناء پر یہ یقین ہوگیا کہ مذکورہ آپریشن الجزیرہ کی فراہم کردہ اطلاعات کا ثمر تھا۔11ستمبر کو پولیس نے متعدد فلیٹس کھٹکھٹائے اور ان میں سے ایک میں پولیس کو خالد شیخ محمد کی بیوی اور بچے مل گئے۔ انہیں حراست میں لے لیاگیا۔ خالد ہاتھ نہیں آیا۔ دوسرے فلیٹ سے ابن الشیبہ اور دیگر 6افراد کو گرفتار کیا گیا۔ یہاں زبردست مزاحمت ہوئی ۔ ایک نے دستی بم پولیس پر پھینکا جس سے ایک دہشتگرد مارا گیا۔ ایسے وقت میں جبکہ پولیس اہلکار 3افراد کو گرفتار کرچکے تھے ابن الشیبہ اور اسکے 2ساتھیوں نے دستی بموں اور بندوقوں سے زبردست فائرنگ کی۔ پولیس اس مزاحمت کیلئے مستعد نہیں تھی۔ سپاہی ، قیدیو ں او ر4زخمی افسران کے ہمراہ پسپائی اختیار کر گئے۔ پھر مزید فورس لیکر آپریشن کیا گیا تاہم ابن الشیبہ اور اسکے دونوں ساتھیوں نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ پولیس خوفزدہ تھی۔ تینوں دہشتگرد باورچی خانے میں گھس گئے تھے وہاں سے انہوں نے زبردست فائرنگ کی۔ پولیس نے انہیں ہتھیار ڈالنے کو کہا توایک دہشتگرد نے جواب میں انہیں گالیاں سنائیں۔ دہشتگرد باورچی خانے سے نکلنے کی کوشش کے دوران مارا گیا۔ ابن الشیبہ نے آخری سانس تک مزاحمت کی آخر میں ایک افسر سے پستول چھیننے کیلئے اس پر حملہ کیا تاہم گرفتار کرلیا گیا۔ فودۃ کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ امیر قطر اسکی فراہم کردہ رپورٹیں سی آئی اے کے حوالے کردینگے۔ فودۃ نے 2سال بعد الجزیرہ کو خیر باد کہہ دیا۔ یہ واقعہ ایسے وقت میں عمل میں آیا جب الجزیرہ چینل کے مختلف کارکن یکایک الجزیرہ چینل سے رخصت ہوئے۔ بظاہر ایسا لگا کہ مصری کارکنان نے اجتماعی شکل میں الجزیرہ کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔