میڈیا کو ہندوستان میں جو آزادی حاصل ہے، حکومت کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ میڈیا کو حاصل اس دستوری آزادی کا گلا گھونٹنے کی کوشش کرے
* * * *معصوم مرادآبادی* * * *
ملک کے معروف اور بزرگ صحافیوں نے نیوز چینل این ڈی ٹی وی پر چھاپوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے پریس کی آزادی پر حملہ اور جمہوریت کیلئے خطرے کی گھنٹی قرار دیا ہے۔ پریس کلب آف انڈیا میں منعقدہ ایک میٹنگ کے دوران جید صحافیوں نے کہاکہ یہ کارروائی ایمرجنسی کے دنوں کی یاددلاتی ہے، اسلئے میڈیا برادری کو اظہار رائے کی آزادی کے تحفظ کیلئے متحد ہونے کی ضرورت ہے۔
ان صحافیوں میں کلدیپ نیر، ایچ کے دوا ، ارون شوری، پرنورائے اور اوم تھانوی جیسے نامور صحافی شامل تھے جبکہ صفِ سامعین میں سرکردہ صحافیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ واضح رہے کہ گزشتہ دنوں مرکزی تحقیقاتی ایجنسی سی بی آئی نے نیوز چینل این ڈی ٹی وی کے مالک اور معروف صحافی پرنو رائے کے گھر اور دفاتر پر چھاپے مار کر یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ ایک بینک سے حاصل کئے گئے قرض میں ہیرا پھیری میں ملوث ہیں اور انہوں نے کالی دولت اِدھر سے اُدھر کی ہے جبکہ پرنورائے کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے نہ تو کوئی بینک فراڈ کیا ہے اور نہ ہی کالی دولت کے ایک پیسے کو ہاتھ لگایا ہے۔
یہاں تک کہ انہوں نے زندگی میں کبھی رشوت بھی نہیں دی۔ خیال کیاجاتا ہے کہ پرنو رائے اور ان کے ٹی وی چینل کیخلاف حکومت نے انتقامی کارروائی انجام دی ہے کیونکہ چاپلوس ٹی وی چینلوں کی بھیڑ میں یہ اکلوتا چینل ہے جو خبروں کو پوری غیرجانبداری اور صحافتی ذمہ داریوں کے ساتھ عوام تک پہنچاتا ہے جبکہ بیشتر نیوزچینلوں کا حال یہ ہے کہ وہ ہروقت حکومت کی کاسہ لیسی میں مصروف رہتے ہیں اور وزیراعظم نریندرمودی کی قصیدہ خوانی کرتے رہتے ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکومت چاپلوسوں اور حاشیہ برداروں کی بھیڑ میں اکلوتے غیر جانبدار اور ایماندار چینل کو بھی برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں اور اس کیخلاف سی بی آئی کو استعمال کررہی ہے۔
یہ وہی سی بی آئی ہے جسے سپریم کورٹ نے پنجرے میں بند ایک ایسے طوطے سے تشبیہ دی تھی جو اپنے مالک کی مرضی کے بغیر حرکت نہیں کرتا لہٰذا این ڈی ٹی وی پر مارا گیا چھاپہ مودی سرکار کی دیدہ ودانستہ کارروائی ہے جس کا مقصد آزاد اور غیرجانبدار میڈیا کو خوف زدہ کرنا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا ہی نہیں بلکہ پرنٹ میڈیا بھی اس وقت حکومت سے خوف زدہ ہے اور وہ اپنی اصل طاقت کو پس پشت ڈال کر مصلحت کا شکار ہورہا ہے۔ اس کا ایک ثبوت حال ہی میں چھتیس گڑھ ریاست سے ملا ہے جہاں کے اخباروں نے صوبے کی بی جے پی سرکار کیخلاف کانگریس پارٹی کے اشتہارات چھاپنے سے انکار کردیا ہے۔ چھتیس گڑھ کانگریس نے پریس کونسل آف انڈیا کو خط لکھ کر شکایت کی ہے کہ صوبے کے اخباروں نے پارٹی کے ان اشتہارات کو شائع نہیں کیا جن میں بی جے پی سرکار کو نشانہ بنایاگیا تھا۔ یہ شاید ملک میں پہلا واقعہ ہے کہ اخبارات نے اس قسم کے اشتہارات کی اشاعت سے انکار کیا ہے۔ ظاہر ہے یہ میڈیا اور اس کی آزادی کیلئے ایک سنگین چیلنج ہے اور اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ میڈیا حکومت وقت سے کس حد تک مرعوب اور خوف زدہ ہے۔ حکومت کی کارروائیوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پریس کی آزادی کو مکمل طورپر ختم کرنے کی روش پر گامزن ہے۔
ایک طرف جہاں سی بی آئی کا استعمال میڈیا کو ڈرانے دھمکانے اور خوف زدہ کرنے کیلئے کیا جارہا ہے تو وہیں دوسری طرف اطلاعات ونشریات کی مرکزی وزارت کے اعلیٰ افسران چھوٹے اور درمیانی درجے کے اخبارات کا وجود ختم کرنے کے درپے ہیں۔ وزارت کی طرف سے سرکاری اشتہارات حاصل کرنے کیلئے ایسی سخت اور ناقابل عمل پالیسیاں وضع کی جارہی ہیں جن کی وجہ سے لسانی اخبارات دم توڑتے چلے جارہے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران حکومت کی سخت پالیسیوں کی وجہ سے سیکڑوں چھوٹے اور درمیانی درجے کے اخبارات کی اشاعت بند ہوچکی ہے کیونکہ حکومت نے انہیں سرکاری اشتہارات کیلئے نااہل قرار دے دیا ہے۔ ان میں اردو اخبارات کی بھی ایک اچھی خاصی تعداد ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ چھوٹے اور درمیانی درجے کے اخبارات کو ان پیمانوں پر ناپا جارہا ہے جن پر بڑے اخبارات کو پرکھا جاتا ہے جبکہ محدود وسائل کے ساتھ نکلنے والے یہ اخبارات وسائل سے مالامال بڑے میڈیا گھرانوں کا کبھی مقابلہ ہی نہیں کرسکتے۔
اس ملک میں لسانی صحافت کی ایک پوری تاریخ موجود ہے اور اس کی اہمیت کو سبھی تسلیم کرتے ہیں۔ حکومت نے ہمیشہ ان چھوٹے اور درمیانہ درجے کے اخبارات کی حوصلہ افزائی کی ہے جو چھوٹے چھوٹے شہروں اور قصبوں کے عوام کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اس معاملے میں اردو اخبارات کا ایک کلیدی کردار ہے جو کمزور طبقوں اور اقلیتوں پر ہونے والے مظالم اور ناانصافیوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ موجودہ حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ غریبوں ، کمزوروں اور اقلیتوں کی آواز بند کردی جائے یا انہیں اس حد تک خوف زدہ کردیا جائے کہ وہ سراٹھا کر جینے کے بارے میں سوچ بھی نہ سکیں۔ سرکردہ صحافیوں نے کہاہے کہ این ڈی ٹی وی پر چھاپے کی کارروائی سرکار کے ذریعے میڈیا کو دھمکانے اور کنٹرول کرنے کی کوشش ہے۔ انہوں نے کہاکہ اندراگاندھی کی طرح بڑی اکثریت کیساتھ اقتدار میں آئی موجودہ حکومت بھی میڈیاکو ڈرانے دھمکانے اور کنٹرول کرنے کی کوشش کررہی ہے لیکن ہم صحافی اس سے ڈرنے والے نہیں اور ایمرجنسی کی طرح اس حکومت کیخلاف پوری طاقت سے لڑیں گے۔
صحافیوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر ہم نے متحد ہوکر اس خطرے کا مقابلہ نہیں کیا تو ہمارے ساتھ بھی یہی ہوگا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ میڈیا کو ہندوستان میں جو آزادی حاصل ہے، اس کی ضمانت ملک کے دستور میں دی گئی ہے اس لئے کسی بھی حکومت کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ میڈیا کو حاصل اس دستوری آزادی کا گلا گھونٹنے کی کوشش کرے یا اسے اپنا پابند بنانے پر مجبور کرے۔ ہندوستان میں آزاد صحافت نے جمہوریت کے چوتھے ستون کی حیثیت سے عوامی آزادی کے دفاع اور غریبوں اور کمزوروں کے حقوق کا دفاع کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ میڈیا کی حیثیت ایک واچ ڈاگ کی ہے جو حکومت کے کاموں پر گہری اور باریک نگاہ رکھتا ہے۔ موجودہ حکومت اپنی اکثریت کے غرور میں اس حد تک مبتلا ہے کہ وہ میڈیا سمیت تمام جمہوری اداروں کے حقوق اور اختیارات سلب کرلینا چاہتی ہے۔ حکومت کو شاید اس حقیقت کا علم نہیں کہ اس ملک میں جس نے بھی میڈیا کی آزادی ختم کرنے کی کوشش کی ہے وہ خود ہی ختم ہوگیا ہے۔