پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے سرحدی علاقے گھوٹکی میں کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف بلوچستان ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں مسلح افراد ضلع گھوٹکی پہنچے، شہر سے کچے کی طرف جانے والے علاقوں میں بگٹی قبیلے کے افراد جمع ہوئے اور ڈاکوؤں سے ان کا آمنا سامنا ہوا۔
غیر سرکاری ذرائع سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اس واقعہ میں کم سے کم 6 ڈاکو ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوئے ہیں۔
سندھ اور پنجاب کے سرحدی علاقے میں کئی ماہ سے کچے کے ڈاکوؤں کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ آئے روز ملک کے کسی نہ کسی حصے سے تعلق رکھنے والے فرد کو کچے کے ڈاکو نشانہ بنا رہے ہیں۔ رواں ماہ کے آغاز پر بلوچستان کے علاقے ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھنے والے چیف آف کلپر ( بگٹی قبیلے کی شاخ) جلال خان کے جوان سال بیٹے عبدالرحمنٰ کو قتل کیا گیا تھا۔ بیٹے کے قتل پر بگٹی قبیلے کے رہنما نے پولیس سمیت دیگر اداروں سے انصاف کا مطالبہ کیا تھا۔
مزید پڑھیں
-
کچے کے ڈاکوؤں کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں، سندھ پولیس ناکام کیوں؟Node ID: 846316
-
’ڈاکوؤں کی سہولت کاری‘، پولیس اہلکاروں کو کراچی بھیجنے پر تحفظاتNode ID: 854931
سندھ کے ضلع گھوٹکی سے تعلق رکھنے والے ایک پولیس افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ جمعہ اور ہفتے کے درمیان بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد سندھ اور پنجاب کے کچے کے علاقے میں قافلوں کی صورت میں پہنچے ہیں۔ سینکڑوں نوجوان کچے کے علاقوں میں مختلف راستوں سے داخل ہوئے اور کئی گاؤں کا محاصرہ کرنے کی کوشش کی اس دوران ان کی کچے کے ڈاکوؤں سے لڑائی ہوئی ہے۔ دوطرفہ فائرنگ کے تبادلہ میں متعدد افراد کے ہلاک اور زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کے نوجوان کے کچے کے علاقے میں قتل ہونے پر بلوچستان کے قبیلے اور کچے کے ڈاکوؤں کے درمیان کافی عرصے سے کشیدگی ہے۔ متعدد ذرائع سے بلوچستان کے بگٹی قبیلے کے چیف آف کلپر کو بیٹے کے قاتلوں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی لیکن خاطر خواہ نتائج نہ نکلنے پر بگٹی قبیلے کے لوگ خود بدلہ لینے گھوٹکی پہنچے ہیں۔
چیف آف کلپر جلال خان کا موقف
چیف آف کلپر جلال خان نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں میں بیشتر اطلاعات سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کی جارہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سندھ اور بلوچستان کے کچے کے علاقے میں اپنے بیٹے کے قتل کا بدلہ لینے نہیں گئے ہیں۔
’میری سوشل میڈیا پر وائرل تصویر پرانی ہے، اس میں میرے بال بڑے نظر آرہے ہیں، میں ابھی عمرہ ادا کرکے لوٹا ہوں ان دنوں میرے بال چھوٹے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہاں البتہ پنجاب پولیس کے معمول کے ایک آپریشن میں کچھ بگٹی نوجوانوں نے پولیس کے ساتھ مل کر رضاکارانہ طور پر کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن میں حصہ لیا ہے۔‘
اپنے بیٹے کے قتل کے بدلے کے بارے میں سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’سندھ پولیس نے ان کے بیٹے کے قتل کے کچھ روز بعد ایک ڈاکو کو مارنے کا دعویٰ کیا ہے لیکن ہم ان کے بیان سے مطمئن نہیں ہیں۔ ہمیں سندھ پولیس سے شکایت ہے، سندھ پولیس کے افسران ہمارے ساتھ تعاون نہیں کررہے ہیں۔‘

’اگر ریاست کارروائی نہیں کرے گی تو لوگ خود بدلہ لیں گے‘
دفاعی تجزیہ کار اور سابق صوبائی وزیر داخلہ حارث نواز نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی کے لیے نگراں حکومت نے اپنے دور میں ایک جامع منصوبہ تشکیل دیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت کچے کے علاقے میں اب بھی کارروائی کی جارہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف کام کرنے والے ادارے متحرک ہیں۔ لیکن ان کوششوں کو نقصان پہنچانے کے لیے کچھ عناصر موجود ہیں۔ اب ان کے خلاف بھی کارروائی ہوتی نظر آرہی ہے۔ امید ہے جلد ہی حالات بہتر ہوں گے۔
’ ڈاکوؤں کو سیاسی پشت پنائی حاصل ہے‘
جامعہ کراچی شعبہ جرمیات کی پروفیسر ڈاکٹر نائمہ شہریار کا کہنا تھا کہ سندھ اور پنجاب میں کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف سندھ اور پنجاب دونوں صوبوں کے پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے کارروائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’کچے کے علاقے میں منظم ہونے والے ان ڈاکوؤں کی سیاسی پست پنائی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اب اداروں کو سوچنا ہوگا کہ وہ لوگوں کو انصاف فراہم کریں گے یا پھر مسلح جھتے اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا خود حساب کریں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی کے لیے سندھ اور پنجاب دونوں صوبوں کی حکومت کو مل بیٹھنا ہوگا، ایک موثر حکمت عملی ترتیب دے کر ان جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کا جڑ سے خاتمہ کیا جاسکے۔
واضح رہے کہ آئی جی سندھ پولیس غلام نبی میمن نے شکار پور کے علاقے میں تعینات 79 پولیس اہلکاروں کو ڈاکوؤں کی سہولت کاری کے الزام میں معطل کرکے بی کمپنی کر دیا ہے۔