تاریخ شاہد ہے کہ ملکوں اور قوموں کی ترقی میں خود انحصاری کے ساتھ ساتھ مینو فیکچرنگ کی صلاحیت ہی بنیادی عنصر رہی ہے ،وہ قومیں جو اس بنیادی صلاحیت سے عاری اور سخت محنت کی عادی نہ ہوں ،معاشی دوڑ میںبہت پیچھے رہ جاتی ہے ۔ ایسی قوم ماسوائے ایک پیراسائٹ (جس کی زندگی دوسروں کی مرہون منت ہو)کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ گزشتہ صدی میں اقوام عالم کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ایسی قوم جو اپنی سست الوجودی کے باعث افیمی قوم کہلاتی تھی ،آج ترقی کے وہ مینار سر کر رہی ہے کہ واحد عالمی طاقت کے لئے بھی اسے مقید کرنا نہ صرف مشکل ہو رہا ہے بلکہ اس کی اپنی بقا بھی مسلسل خطرات سے دو چار ہے۔ دوسری طرف دوسری عالمی جنگ کے بعد زبوں حالی کا شکار2 قومیں آج معاشی لحاظ سے اس قدر مضبوط ہیں کہ انہیں دیکھ کر رشک آتا ہے ،بے ساختہ خواہش انگڑائی لیتی ہے کہ پاکستانی قوم بھی اسی صف میں کھڑی نظر آتی لیکن افسوس ایسی کوئی بھی صورت دور دور تک فی الوقت نظر نہیں آ رہی بلکہ وہ ہنرمندانِ قوم جن کا کلیتاً فائدہ ملک و قوم کو ہونا چاہئے تھا ،حکمرانوں کے ناروا سلوک کا شکار ہو کر غیر ممالک کواپنے ہنر سے مستفید کرتے نظر آتے ہیں۔ اس میں کس کا کتنا کردار ہے،کون قصور وار ہے ؟ بظاہر یہ حکمرانوں کا فرض ہے کہ ایسے ٹیلنٹ کی حفاظت کی جائے نہ کہ ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ ایسے عالی دماغوں کو ملک سے ہجرت کرنی پڑے۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اس وقت ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں جہاں حکمرانوں کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ایسے عالی دماغ ملک میں رکھ سکیںجو ان کی غلط کاریوں کو چیلنج کر سکیں۔بات ہو رہی تھی 2قوموں کی جنہوں نے ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنے دَلِدَّر ایسے دور کئے کہ کل تک جو تباہ حال قومیں کہلاتی تھیں ،آج اقوام عالم میں فخر سے سر بلند کر کے جی رہی ہیں۔ ایک جاپان ہے تو دوسری قوت جرمنی ہے ،جس کو ایک زمانے میں پاکستان نے ترقی کیلئے قرضہ دیا تھا،آج وہی جرمنی ہے جو ترقی کے نئے افق چھو رہا ہے تو دوسری جنگ عظیم میں تباہ حال جاپان ہے جس نے سب سے پہلے نہ صرف اپنی ترجیحات کا تعین کیا بلکہ بروقت ان کی درست سمت بھی متعین کر کے تن من دھن کی بازی لگاتے ہوئے انتہائی قلیل مدت میں صنعتی دنیا میں اپنا ایک مقام بنا لیا۔دوسری طرف پاکستان ہے جو معاشی ترقی میں بری طرح سے تنزلی کا شکار ہے اور تنزلی بھی ایسی کہ کہیں کوئی آخری کنارہ ،ٹھکانہ یا سرا نظر ہی نہیں آ رہا۔مسلسل ترقیٔ معکوس اس بد نصیب قوم کا مقدر بنی ہوئی ہے۔
اس پس منظر میں ہماری عظیم ہمسایہ قوم بھی خواب خرگوش سے ایسے اٹھی ہے کہ اس نے بڑے بڑوں کی اجارہ داری کو ببانگ دہل للکار رکھا ہے مگر مجال ہے سفید ہاتھی ماسوائے چنگھاڑنے ،اسے کوئی نقصان پہنچا سکے کہ معیشت سکہ رائج الوقت ہے جس کی لگامیں اس وقت بلاشک و شبہ چین کے ہاتھوں میں ہے اور چینی قیادت اس حیثیت کو بہت مہارت ،خوبی اور اہلیت کے ساتھ استعمال کر رہی ہے۔ چین نے اپنی جو ترجیحات اور سمت متعین کی،ان پر پوری قوم تندہی اور جانفشانی سے جت گئی ،جس کا نتیجہ آج ساری دنیا کے سامنے ہے کہ دنیا بھر کی معیشت براہ راست اور بالواسطہ چین کے کنٹرول میںآتی جارہی ہے۔چین کی ملکی صنعت اور جی ڈی پی گروتھ مسلسل بڑھ رہی ہیں اور مقامی مصنوعات کو عالمی منڈیوں تک پہنچانے کے لئے آج چین اس قابل ہو چکا ہے کہ پوری دنیا میں جہاں جہاں بھی اس کو ضرورت ہے وہ نہ صرف ذرائع آمد ورفت کی تعمیر میں مشغول ہے بلکہ ان کو یقینی بنانے کے خاطر ہر طرح کی سہولت کاری میں ممد و معاون بن رہا ہے۔ چین کی نظر مسلسل اپنے طے کردہ اہداف پر جمی ہے اور مستقل مزاجی کے ساتھ ان اہداف کے حصول میں کوشاں ہے۔سی پیک کی تعمیر بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے لیکن اس اہم ترین شاہراہ کی تعمیر اور نام کے حوالے سے دیگر ممالک کے تحفظات سامنے آنے پر چین نے بلا کسی تردد کے ،اس پر مشاورت کے ساتھ نام بدل دینے میں کوئی مزاحمت نہیں دکھائی اور اب شنیدہے کہ سی پیک کا نام بدل کر ’’وَن بیلٹ ون روڈ‘‘ رکھا جا رہا ہے۔ مراد یہ ہے کہ اعلیٰ اہداف کے حصول کی خاطر ایسے چھوٹے چھوٹے مسائل کبھی آڑے نہیں دئیے جاتے اور ہر ممکن کوشش سے اہداف کی طرف سفر جاری رہتا ہے کہ سی پیک کا نام بدل دینے سے اس سڑک کا مصرف بدل نہیں جائے گا بلکہ اس کی وسعت ،دائرہ کار مزید بڑھ جائے گا اور عین ممکن ہے کہ آنے والے کل میں وہ ممالک بھی اس کا حصہ بن جائیں جنہیں آج اس پر شدید ترین تحفظات کے ساتھ اعتراضات ہیں ۔
چین ،جاپان اور جرمنی کے لائحہ عمل میں جو فرق نظر آ رہا ہے وہ بظاہر اتنا ہی ہے کہ جاپان نے اپنی صنعتی ٹیکنالوجی (جو ضرورت سے زائد ) یا پیداوار سے زیادہ طلب پر قریبی یا متمنی ممالک میں منتقل کیا اور اس طلب کو پورا کرنے کی کوشش کی۔اس ضمن میں جن ممالک میں یہ صنعتیں منتقل ہوئیں وہاں نہ صرف صنعتی ترقی ہوئی بلکہ مقامی بیروزگاری میں بھی کمی آئی ۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے جاپان نے ایک وقت میں پاکستان کو صنعتی منتقلی کی آفر کی تھی مگر اس وقت بھی یہ آفر سرخ فیتے کا شکار ہو گئی ،جس کے باعث جاپان کی اکثر صنعت ملائیشیا منتقل ہوئی جس کا ثمر ملائیشیا بھر پور طریقے سے اٹھا رہا ہے جبکہ پاکستان اس کے کچھ حصے سے ہی بہر ہ مند ہو رہا ہے۔ دوسری طرف جرمنی نے اپنی صنعت کا ایک معیار طے کر رکھا ہے اور اس کی صنعتی اشیاء کی ایک مخصوص مارکیٹ ہے ،جس کے لئے اسے اپنی صنعت کو دیگر ممالک میں منتقل کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی ۔ ان 2ماڈلز سے ہٹ کر چین نے مختلف انداز فکر اپنا رکھا ہے کہ وہ دنیا کے ہر کونے میں اپنی پراڈیکٹ کی خود ترسیل کرنے کا عزم کئے ہوئے ۔بڑی تندہی سے اس پر عمل پیرا ہے اور ابھی نہ جانے اور کتنے ایسے پروجیکٹس چین کے پالیسی سازوں کے ذہن میں موجود ہیں ،جو وقت آنے پر آشکار ہوتے چلے جائیں گے۔
یہ وہ حقیقی ترقی کے معیار ہیں جس میں افراد کی تربیت اور ہنر کی صلاحیت کو بڑھاتے ہوئے ملکی معیشت کو مضبوط کیا جاتا ہے گو چینیوںکو افیمی قوم کہا جاتا رہا لیکن اسی قوم کے قائدین نے جب اس قوم کو جگایا تو آج یہ دنیا بھر کی معیشت اور منڈیوں پر چھائی ہوئی ہے۔ دوسری طرف پاکستانی قوم ہے جس کی اہلیت کو ساری دنیا تسلیم کرتی ہے مگر اس کا حکمران طبقہ زبردستی اسے نکو بنانے پر تلا ہے۔اس قوم کے بہترین دماغوں کو ایک طرف زچ کر کے ہجرت کروائی جاتی ہے تو دوسری طرف اسے ملک میں رہتے ہوئے بھی دولے شاہ کا چوہا بنایا جاتا ہے۔اسے وہ سہولیات ہی فراہم نہیں کی جاتی جس سے وہ مقامی صنعت میں انقلاب بپا کر سکے بلکہ اسے مجبور کیا جاتا ہے کہ ایسی کسی بھی چیز سے دستبردار ہو کر برآمد شدہ چیزوں پر ہی انحصار کرے کہ وہ لوکل مینوفیکچرنگ سے کم لاگت میں دستیاب ہو جاتی ہے۔ سی پیک جسے ایک گیم چینجر کا نام دیا جا رہا ہے، وہ یقینی طور پر گیم چینجر حقیقی معنوں میں چین کے لئے ہو سکتا ہے کہ اس کی پرڈکٹ کم قیمت پر اقوام عالم میں رسائی حاصل کر کے باقی دنیا کی رہی سہی مارکیٹ بھی ختم کریں گی کہ یہی معیشت کا اصول ہے جبکہ ہم سی پیک اور شنگھائی تعاون تنظیم کی ’’رکنیت‘‘ کے لالی پوپ کو ہی ’’معیار ترقی‘‘ گردانتے رہیں گے۔