Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
پیر ، 09 جون ، 2025 | Monday , June   09, 2025
پیر ، 09 جون ، 2025 | Monday , June   09, 2025

’’وطن سے کھینچ کے لایاتھا آب و دانہ مجھے‘‘

23برس کی رفاقت کے بعد پردیس کو خیرباد کہہ کر وطن لوٹنے والے انور انصاری کے اعزا ز میں اردو گلبن، جدہ کا الوداعیہ
* * * *شہزاد اعظم ۔جدہ* * * *
جدہ میں بود و باش رکھنے والے اُردو کے شاعر مہتاب قدر، قابل قدر مہتاب ہیں آسمانِ ادب کے۔ انہوں نے اپنے احباب کے تعاون سے ایک انجمن’’اُردوگلبن ڈاٹ کام‘‘ قائم کی ۔ اس انجمن کی ایک خوبی یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک سے کوئی ایسی اُردو گو ہستی مملکت آجائے جو لفظوں کو اوزان کے ترازو میں تولتی اور بولتی ہوتو وہ پورے طمطراق سے اس کی مدارات کے لئے کمر بستہ ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی پردیسی جا رہا ہو یا کوئی دیسی آ رہا ہوتوبھی ’’اُردوگلبن ڈاٹ کام ‘‘بالترتیب ’’الوداعیہ‘‘ اور ’’استقبالیہ‘‘ کے زیر عنوان مؤدب تقاریب بپا کر دیتی ہے ۔
وقت، موقع اور زمینی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے کبھی فرزندانِ ریختہ کے اس اجتماع کو ’’شام ‘‘ قرار دیا جاتا ہے ، کبھی ’’نشست‘‘،کبھی ’’شبِ سخن‘‘ اور کبھی ’’صبحِ ادب‘‘۔ یہ بھی سچ ہے کہ جدہ جیسے ادب شناس شہر میں نہ تو روز کوئی ادبی شخصیت بیرون ملک سے قدم رنجہ فرماتی ہے اور نہ ہی روزانہ کوئی سخن گستر اپنی معاشی وغیر معاشی تمام مصروفیات سے ناتہ توڑ کرمستقل طور پروطن روانہ ہوتے ہیں چنانچہ جب کوئی مصروفیت نہ ہو تو شاعر ِ موصوف مہتاب قدرکی انجمن ’’کلی بن‘‘ کر رہتی ہے اپنی خوشبو اپنے وجود میں سموئے رکھتی ہے تاکہ کوئی بھنورا بھولے سے بھی قریب نہ آ سکے مگر جیسے ہی کوئی بیرونِ ملک سے مہمان بن کر آتا ہے یامہمان بن کر بیرون ملک جاتا ہے تو یہ انجمن ’’گُل بن‘‘جاتی ہے۔ ان تمام سچائیوں کو اگر نظم کیاجائے تو یہ 4مصرعوں کے حامل 2اشعار میں یوں سمٹ سکتی ہیں:
 اُردو کی بستیوں میں جدہ ہے ایک گلشن
دولہا ہے بحرِ احمر، یہ شہر اس کی دلہن
خوشبوئے ریختہ کو سب عام کر رہے ہیں
بن میں ہزار گل اور جدہ میں ایک گلبن
اردو نیوز کو روزِ اول سے اپنی خطاطی اور مصوری سے آراستہ کرنے والے قلم کار،بزمِ ادب کے نظم کی لگامیں تھام کر اسے رہِ شائستگی پر گامزن کرنے والے صداکار،اپنی قیل و قال سے، چال ڈھال سے ، لباس اور بال سے شاعر دکھائی دینے والے دانشور، وحشت، تنہائی ،سناٹے ، زنجیر، پا بہ جولاں، صحرا، پیاس اور سمندر جیسے لفظوں کوقلبی کیفیات کی روشنائی میں ڈبو کر سپردِ قرطاس کرنے والے سخنور ، منفرد لہجے اور اسلوب کے حامل سخن گستر، ان گنت مشاعروں کے شاعر، بے شمار محافلِ سخن کے ناظم اور اپنے مخصوص انداز سے لوگوں کے دلوںمیں گھر کرنے والے ’’انورانصاری‘‘جب 23برس کی رفاقت کے بعد پردیس کو خیرباد کہہ کر وطن لوٹنے لگے تومہتاب قدر نے اپنے شاعر ساتھی کو’’ الوداعیہ‘‘ دیا۔سب نے انور انصاری سے اپنی محبتوں، قربتوں اور چاہتوں کا برملا اظہار کیا۔
اس موقع پر ہندوستان سے آنے والے کہنہ مشق شاعر اسلم بدر بھی موجود تھے جن کے لئے یہ تقریب ’’استقبالیہ ‘‘ قرار پائی ۔اس لئے ہم اس تقریب کواپنی مرضی اور خواہش کے مطابق ’’الوداعی استقبالیہ ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں اور ’’استقبالی الوداعیہ ‘‘بھی ۔اُردو گلبن کی یہ شام عروسِ بحر احمر ، جدہ کے ایک ریستوران کے عریض ہال میں منائی گئی ۔جدہ کے معروف و منفرد شاعر نعیم حامد علی الحامدکی زیر صدارت منعقد ہونے والی اس شبِ سخن میں مستقلاً پاکستان جانے والے شاعر انور انصاری مہمانِ خصوصی تھے۔مہمانِ اعزازی کی نشست پر ہندوستان کے مہمان شاعر اسلن بدر براجمان تھے۔
اس ’’شبِ ریختہ ‘‘ کی نظامت کی ذمہ داریاں، ینبع سے آنے والے لہجے کے دَمدار اور آواز کے رعب دارشاعرناصر برنی ’’بلند شہری‘‘ نے نبھائیں۔اس کا ثبوت وہ اشعار تھے جو انہوںنے مشاعرے کی ابتداء کرتے ہوئے نذرِ سامعین کئے۔ملاحظہ ہوں:
بے سود ہے وہ گفتگو جس میں ترا چرچہ نہ ہو
 بے وصف ہے وہ آئینہ جس میں ترا سایہ نہ ہو
 لب بستگی اچھی نہیں ہوتی کسی صورت مگر
اس بز میں کیا بولئے جس میں کوئی سنتا نہ ہو
 وہ مجھ کو آتا دیکھ کر منہ پھیر کر چلتے بنے
میں دل کو سمجھاتا رہا، شاید مجھے دیکھا نہ ہو مشاعرے میں پیش کئے جانے والے شعراء کے کلام سے اقتباس حاضرہے:
٭٭بدرالدین کامل
دنیا کو پرکھنے کا سلیقہ نہیں آتا
 مرنا نہیں آتا، کبھی جینا نہیں آتا
٭٭شفیق نگری
 انکی چاہت میں لاکھوں ستم، مجھکوخود پہ ہی کرنا پڑا
زخم گہرا تھا دل میں مگر، سامنے پھر بھی ہنسنا پڑا
کرلو تسلیم اسے جان جاں، یہ فقط اک گلاب نہیں
اس کو پانے کی خاطر مجھے، اتنے کانٹوں پہ چلنا پڑا
کتنا کرتے وہ روشن مکاں، جگنوؤں کو پکڑ کر بھلا
بن کے شمع مجھے رات بھر، انکے آنگن میں جلنا پڑا
میرے بچوں کے چہرے پہ غم ،مجھ سے دیکھا نہیں جاسکا
انکی خوشیوں کی خاطر مجھے گھر سے باہر نکلنا پڑا
جب تھا نادان تھے شوق تب، ہر حَسیں شے میرے پاس ہو
اب جو آئی سمجھ مجھ میں تو، خواہشو ں کو کچلنا پڑا
جس گھڑی موت لیکر خبر مجھ سے یہ کہنے آئی کہ چل
دوست، احباب، بھائی، بہن، چھوڑ کر سب کو مرنا پڑا
چھوڑ کر سب مجھے چل دیئے، میں نہ اِس کا نہ اُسکا رہا
خاک تھا خاک بن کر شفیق، خاک میں پھر سے ملنا پڑا
٭٭کامران خان
یہ سوچتا ہوں کہ زندگی کانصاب لکھوں
مگر کہاں تک ستم کا ترے حساب لکھوں
بھرے جہاں میں یہی تو ہے اک مرا سہارا
تو پھر میں کیسے تمہارے غم کو عذاب لکھوں
٭٭٭
سفر جو پاؤں میں باندھا تھا آج کھولدیا
سو اب سے راستوں تم کو سلام کرتے ہیں
٭٭الطاف شہریار
وجود آئینہ بکھرا دکھائی دیتا ہے
ضمیر جب کبھی اپنی دہائی دیتا ہے
 تمہارا جسم حیا کے نفیس پردے میں
مجسمے کا سراپا دکھائی دیتا ہے
ہے پرسکون خطا کار شہر عصیاں میں
 جو بے قصور ہے درد ر صفائی دیتا ہے
امید و بیم کے رشتے بھی ٹوٹ جاتے ہیں
 فریب جب کبھی بھائی کو بھائی دیتا ہے
ادھورے خواب سنہری قبا میں ڈھلتے ہیں
جو بیٹا باپ کو پہلی کمائی دیتا ہے
٭٭٭
نہ جانے لوگ کیوں گزرے زمانے بھول جاتے ہیں
نئے ملبوس ملتے ہی پرانے بھول جاتے ہیں
 نئے ماحول میں تھوڑی سی دولت پاس آتے ہی
 پرانے وقت کے سارے ٹھکانے بھول جاتے ہیں
 میں اپنی کمسنی کے سارے رشتے یاد رکھتا ہوں
 بڑے ہوکر جنہیں اکثر دِوانے بھول جاتے ہیں
جب اسکی یاد آتی ہے توپھر الطاف ہم اکثر
 بیاضِ زندگی رکھ کر سرہانے بھول جاتے ہیں
٭٭عبدالرحیم شاد بجنوری
زندگی کی ہراک سہولت کو
  بے حسی کھا گئی اخوت کو
 جس میں محسوس ہو کمی تیری
 آگ لگ جائے ایسی فرصت کو
جب سے تو ہوگیا ہے پتھر کا
زخم آنے لگے عیادت کو
شہر سے آگئے خرابے تک
ڈھونڈتے ڈھونڈتے محبت کو
٭٭٭
چہرے سے نور ٹپکتا ہے دستار سے خوشبو آتی ہے
ایمان اگر کامل ہو تو کردار سے خوشبو آتی ہے
٭٭سجاد بخاری
  لالہ و یاسمن کے طلبگار اور بھی
 یعنی کہ شہر میں ہیں سمجھدار اور بھی
 ہم کو تری گلی سے گزرنے کاشوق تھا
ورنہ کئی تھے راستے دشوار اور بھی
انکو ہمارے قتل سے آئے گاچین کیا
پھانسی لگائے جائیں گے دو چار اور بھی
٭٭اسلم بدر
سانس سب کچھ سہار جاتی ہے
آپ اپنے سے ہار جاتی ہے
میرے آنگن میں روز اک بدلی
بھیگے کپڑے پسار جاتی ہے
پیڑ اور وہ بھی ایک بوڑھا پیڑ
دھوپ اس سے بھی ہار جاتی ہے
٭٭٭
کہانی ایسی نہیں ،واقعہ ہی ایسا ہے
سنا ہی ایسا نہیں ہے، ہوا بھی ایسا ہے
ہمیں ہی ڈھونڈے گا جب بھی لگے گی پیاس اسے
ہمارے خون کا کچھ ذائقہ ہی ایسا ہے
زمیں سے تابہ فلک روشنی کا زینہ سا
 کوئی اٹھا ہوا دست دعا ہی ایسا ہے
ندی بھی مانگتے مل جاتی، ہم نے مانگی پیاس
مزاج ہم کو خدا نے دیا ہی ایسا ہے
٭٭٭
تیری آواز تو خوشبو کی طرح پھیلتی ہے
دور چٹکی ہے کلی کوئی کہ تو بولتا ہے
 کیسے گزری تھی بہار آپ کہیں یا نہ کہیں
چاک تھا کتنا گریبان رفو بولتاہے
٭٭افسر بارہ بنکوی
کوئی رغبت ہے کیا نگینوںسے
روز ملتے ہو مہ جبینوں سے
جن کو دل میں چھپا کے رکھا تھا
 آ ج نکلے وہ آستینوں سے
بن کے دہقان جان جاؤ گے
کیا نکلتا ہے ان زمینوں سے
 اپنا لہجہ بدل لیا کرنا
گفتگو جب بھی ہو کمینوں سے
٭٭فیصل طفیل
فقط ہوا کی عداوت میں جل رہے ہو میاں
کوئی چراغ جلائو جلانے والا بھی
کہیں سے لے بھی اگر آؤ کوئی مصر عِ تر
 کہاں سے لاؤ گے مصرع اٹھانے والا بھی
٭٭عرفان بارہ بنکوی
غرور اپنے لباسوں کا بھول جائیں ہم
اگر لباس نہیں بس کفن نظر میں رہے
٭٭٭
 منصف نے اختیار سے ملزم کو دی سزا
عزت کے ساتھ قتل کا مجرم رہا ہوا
٭٭٭
اشک خوشیوں کا ہے بس قطرہ برابر
 غم کا آنسو ہے مگر دریا برابر
 کلفتوں کا درد تو بے انتہا ہے
 راحتوں کی عمر ہے لحظہ برابر
دیکھئے خورشید بننا چاہتا ہے
جس کی ہستی ہے یہاں ذرہ برابر
حسن مہمل کی طرح ہے مختصر سا
عشق کی وسعت مگر صحرا برابر
 ڈوبنے والے کو دریا میں ذرا سا
اک سہارا ہے بہت تنکا برابر
٭٭٭
کچھ اپنے اور کچھ ہم آپ کے حالات لکھتے ہیں
 جو دل محسوس کرتا ہے وہی ہم بات لکھتے ہیں
ہمارے دین میں تو کفر ہے احساسِ مایوسی
 سو ہم مایوسیوں کو عین امکانات لکھتے ہیں
ہمیشہ آدمی کو آدمی لکھتے رہے ہیں ہم
نسب ہم اسکا لکھتے ہیں، نہ اسکی ذات لکھتے ہیں
٭٭ناصر برنی
 اک ربط جاں گداز ہے ایسا غزل کے ساتھ
جینا غزل کے ساتھ ہے مرنا غزل کے ساتھ ہے
اسلوب دلنشیں نہ مضامین دلفریب
 اب بند کیجئے یہ تماشا غزل کے ساتھ
٭٭مہتاب قدر
 حسین و دلکش و معصوم جذبے ٹوٹ جاتے ہیں
 گھروں میں روزچشمک ہو تو بچے ٹوٹ جاتے ہیں
بلندی پر پہنچتے ہیں تو قابو میں نہیں رہتے
زمیں والوں سے جن لوگوںکے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں
٭٭٭
 دل کے ہاتھوں سے زمام حکمرانی لے گیا
 عشق کا جادو تو ساری راجدھانی لے گیا
 نسل نو پر جب نئی تہذیب کی آندھی چلی
ایک جھونکا ساری قدریں خاندانی لے گیا
٭٭انور انصاری
وہ لمحہ آج بھی لگتا ہے کہ تازیانہ مجھے
سنا گیا تھا میری زیست کا فسانہ مجھے
 مری طلب میں کہاں تھا یہ نجد کا صحرا
وطن سے کھینچ کے لایا تھا آب و دانہ مجھے
٭٭اقبال بیلن
پاگل کہا گیا کبھی ہولا کہا گیا
بیلن کو بردکھاوے میں کیا کیا کہاگیا
 پیسے کا زور تو اسی نوشے سے پوچھئے
ستر برس میں بھی جسے دولہا کہا گیا
٭٭٭
باکمالوں کی یاد آتی ہے
  ہم کو سالو ں کی یاد آتی ہے
ہائے سسرال کے وہ بیتے دن
 ترنوالوں کی یاد آتی ہے
بی جمالن کو دیکھ کر اکثر
خوش جمالوں کی یاد آتی ہے
جب بھی چندا وصول کرنا ہو
توند والوں کی یاد آتی ہے
جب بھی پڑھتے ہو تم غزل بیلن
کچھ قوالوں کی یاد آتی ہے
٭٭مجاہد سید
 اس بھیڑ میں اک شکل میں رہنا تو ہے مشکل
رہنا ہے یہاں تو کئی اشکال میں رہنا
دھرتی پہ جو رہنے میں ہے اب جاں کا خسارہ
کم حوصلہ جاکرکسی پاتال میں رہنا
جنجال کے ماروں کو ہے کیا خوب گوارا
 جنجال سے بچ کر کسی جنجال میں رہنا
٭٭٭
ہر گھڑی صدمۂ پیکار اٹھانے والے
ہوئے رخصت جو تھے تلوار اٹھانے والے
 اٹھ گئی بزمِ سخن ، اٹھ گئے مضموں سارے
ہیں کہاں مصرعِ تہ دار اٹھانے والے
ذرے ذرے میں چھپے حرف کو سن لیتے ہیں
ہم خموشی سے بھی اظہار اٹھانے والے
٭٭نعیم حامد علی الحامد
جو طوفاں میرے دل میں ہے ،سمندر میں نہیں ہوگا
جو سودامیرے سر میں ہے، کسی سر میں نہیں ہوگا
 ترے ہتھیار ہیں مہلک یقینا میرے پتھر سے
کوئی جانبار مجھ سا تیرے لشکر میں نہیں ہوگا
قبول عام کی اسکو سند مل ہی نہیں سکتی
 اگر حق گوئی کا جذبہ سخنور میں نہیں ہوگا
٭٭٭
کبھی صر صر ہے کبھی باد صبا ہے ساقی
زندگی سلسلۂ بیم و رجا ہے ساقی
 اپنے ماحول میں شامل ہوں میں اوروں کی طرح
میرے جینے کا مگر طور جدا ہے ساقی
واقف راز ہے مے خانۂ ہستی کانعیم
اس کے ہونٹوں پہ مگر قفل وفا ہے ساقی

شیئر: