قومی اسمبلی: مخصوص نشستوں کے ارکان کا حلف، اپوزیشن کا احتجاج
سنی اتحاد کونسل کے رکن عمر ایوب نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ جن ارکان نے حلف لیا وہ توہین عدالت ہے۔ فوٹو: اے پی پی
قومی اسمبلی میں چار ارکان کے حلف اٹھانے پر سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے احتجاج کیا۔ حلف اٹھانے والوں میں تین خواتین ارکان جبکہ ایک اقلیتی رکن تھے۔
سنی اتحاد کونسل کے رکن عمر ایوب نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ جن ارکان نے حلف لیا وہ توہین عدالت ہے، پشاور ہائیکورٹ نے اس پر حکم امتناع جاری کر رکھا ہے۔
عامر ڈوگر نے سخت الفاظ میں اس دوران احتجاج کیا تاہم سپیکر اور ان کے اپنی پارٹی کے ارکان نے اُن کو خاموش رہنے کے لیے کہا۔
عمر ایوب نے اڈیالہ جیل راولپنڈی کے سپرنٹنڈنٹ کا نام لے کر کہا کہ وہ عدالتی احکامات نہیں مانتے اور اُن کو عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہیں دیتے۔
اُن کا کہنا تھا کہ جب تک اُن کی پارٹی کے 180 ارکان ایوان میں نہیں آتے وہ احتجاج اور مزاحمت کرتے رہیں گے۔ ’ہماری خواتین کی مخصوص نشستوں پر ہمارا حق نہیں دیا جاتا تب تک تسلیم نہیں کریں گے۔‘
بیرسٹر گوہر علی خان نے قومی اسمبلی میں خطاب میں کہا کہ اُن کی جماعت کے قومی اسمبلی میں اس وقت 80 ارکان ہیں، 60 مخصوص نشستوں جبکہ دس اقلیتی نشستیں ہیں۔
’قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ہماری خواتین اور اقلیتوں کی نشستیں ہونی ہیں۔‘
بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ ’ہمارے لیے الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ حتمی فیصلے تک مخصوص نشستوں پر نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے چار مارچ کو فیصلہ جاری کیا اور اُسی دن نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا تھا۔ اس کے خلاف ہم نے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا جس نے حلف سے روکنے کا حکمِ امتناع جاری کیا۔‘
قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے کہا کہ ’ہمیں الیکشن کمیشن کی جانب سے اس طرح کی کوئی اطلاع آئی اور نہ ہی پشاور ہائیکورٹ نے اس حوالے سے کوئی حکم ہمیں بھیجا، اس لیے اس پر اٹارنی جنرل کو سُن لیتے ہیں۔‘
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ یہ معاملہ تین ہائیکورٹس میں زیرِسماعت ہے، سندھ اور لاہور ہائیکورٹس میں آج اس پر سماعت کی گئی۔ پشاور ہائیکورٹ میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر حکمِ امتناع آیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پشاور ہائیکورٹ کا حکمِ امتناع صرف اپنے صوبے کی حد تک ہو سکتا ہے، صوبے سے آٹھ مخصوص نشستوں پر کوئی حلف نہیں لیا گیا اس لیے توہین عدالت نہیں کی گئی۔
’جن ارکان نے حلف اٹھایا وہ پنجاب سے ہیں اور وہاں پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کا دائرہ نہیں۔ آئین کے مطابق دیگر صوبوں کی مخصوص نشستوں پر کسی دوسرے صوبے کی عدالت کے فیصلے کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کی موجودگی میں وہاں کی آٹھ مخصوص نشستوں پر حلف نہیں لیا جا سکتا۔
بیرسٹر گوہر نے اس کے جواب میں کہا کہ اٹارنی جنرل نے اُن کی پشاور ہائیکورٹ میں دائر کردہ پٹیشن نہیں پڑھی۔ ’ہماری درخواست پر ہائیکورٹ نے آئینی سوالات اٹھائے اور لارجر بینچ بنانے کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ آئینی معاملے ہے اور اس کی تشریح ہونا ہے تو اس لیے کسی بھی صوبے کے رکن سے حلف نہیں لیا جا سکتا۔