السلام علیکم عمران خان صاحب! امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ میں جانتا ہوں آپ قید تنہائی میں ہیں، لیکن ویسی نہیں جو میں بھگت چکا ہوں۔
آپ وہاں ہیں جہاں کبھی میں تھا، میں وہاں ہوں جس کی خواہش لے کر میری واپسی نہیں ہوئی تھی۔ لندن تھا تو خواب کچھ اور تھے، واپس آیا تو قدرے مختلف حقیقت سے واسطہ پڑا۔ اب جب کہ وزیراعظم میں ہوں نہ آپ، تو سوچا کیوں نہ حالیہ چند دنوں کے دوران تنہائی کے ہنگام آنے والے چند خیالات آپ کو لکھ بھیجوں۔
وزارت اعلیٰ سے لے کر وزارت عظمی تک ، جیل سے محل تک، محل سے دوبارہ جیل تک، کیا غم نہیں جو مجھے نہیں جھیلنا پڑے۔ والدین چل بسے، وطن سے دوری ہوئی، میری واحد غم گسار کلثوم کا ساتھ بھی نہ رہا۔ آپ کا دو ر تھا تو میرے ساتھ میری بیٹی مریم بھی جیل میں تھی۔ ماضی میں جھانکتا ہوں تو غم مجھے جھنجوڑتا ہے۔ کیا اقتدار کی سزا یہ سب ہے؟ سیاسی انتقام آخر کب تک؟
ابھی آپ بھی کیا یہی سب نہیں بھگت رہے؟ اہلیہ قید میں ہیں، بہنیں سڑکوں پر ہیں، اہل خانہ کرب میں ہیں، ورکرز مشتعل ہیں، سینکڑوں مقدمات آپ کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہیں۔ سیاست کے نام پر یہ سب آخر کب تک چلے گا؟
مزید پڑھیں
-
قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا احتجاج، حکومتی بینچوں پر واضح تقسیمNode ID: 841586
-
سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی درخواست مستردNode ID: 841626
کیا مجھے جیل بھیج کر، وطن سے دور کر کے، اہل خانہ کو جیلوں میں ڈال کر، ملکی مسائل حل ہوئے؟ اور کیا آپ کو حوالہ زندان کر کے اب ملکی مسائل حل ہو جائیں گے؟ ہم نے یہ سب پیپلزپارٹی کے ساتھ کر دیکھا، بدلے میں بھگت بھی لیا۔
پھر بی بی زندہ تھیں تو ہمیں ادراک ہوا کہ یہ مشق کار لاحاصل ہے۔ مل بیٹھ کر میثاقِ جمہوریت کی داغ بیل ڈالی۔ کون کہاں غلط تھا کہاں صحیح تھا، اب یہ سوال بھی بے سود ہے۔ ہم کہاں آن پہنچے ہیں اس کا ادراک ماضی میں جھانکنے کے بجائے زیادہ لازم ہوا چاہتا ہے۔
ملک ڈیفالٹ کے قریب ہے، غریب کے لیے دو وقت کی روٹی پورا کرنا محال ہو چکا، بجلی گیس اور اشیائے ضروریہ پہنچ سے باہر ہو چکیں۔ سیاسی اور سماجی دھاگے ٹوٹ چکے، معاشرہ جو کبھی مذہب کے نام پر تقسیم تھا اب سیاست کے نام پر شدید تقسیم کا شکار ہے۔ لوگوں کی رشتہ داریاں، پریم کہانیاں، سانجھے داریاں سیاست کے نام پر اُجڑ رہی ہیں۔
معاشرتی روایات عجب تضادات کا شکار ہوچکیں۔ راہ چلتا عام شہری سیاسی سیاہی کے نام پر سیاسی سپاہی بن چکا ہے۔ نوجوان بالخصوص عجب بے چینی اور بے اعتمادی کا شکار ہو چکا ہے۔
ایسے میں سوچتا ہوں کہ ہم سب سیاستدانوں نے اقتدار کی رسہ کشی کے ہنگام آخر کیا کمایا ہے؟ ایک دوسرے کو جیلوں میں ڈالنا؟ عزیز و اقارب اور اہل خانہ کو مسلسل کرب میں مبتلا رکھنا؟ ایک دوسرے کو چور ٹھہرانا؟ ان نعروں کے نام پر اپنے اپنے ووٹر سپورٹر کو گمراہ کرنا؟ سیاست خدمت تھی، عبادت تھی اور اب؟
اسی عبادت کے نام پر ہم اپنے چاہنے والوں کے ساتھ کیا کھلواڑ کر رہے ہیں؟ کیا ہمارے نعرے بھوکے پیاسے اور سکون کے لیے ترستے عوام کو واقعی تشفی دے سکتے ہیں؟ جواب ہے، نہیں!
تو پھر ایسے میں آپ اور میں کیا کرسکتے ہیں؟ جو ہوتا رہا اسی کا حصہ بنے رہیں یا پھر اب کسی نئے عہد کا آغاز کریں؟
آپ سے مجھے لاکھ شکوے ہیں، لاکھ گلے ہیں، لاکھ سیاسی اختلافات ہیں اور آپ کو مجھ سے۔ لیکن آج جہاں ہم پہنچ چکے ہیں کیا وہاں ذاتی گلوں شکووں کے نام پر سیاست جاری رکھنے کی گنجائش باقی بچی ہے؟ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچو عمران! کیا اس سب کی گنجائش اب بھی باقی ہے؟
انتخابات کے نتائج آئے تو میں نے اگلی رات تنہائی میں گزاری، بستر سے اٹھا، کھڑکی جو باہر لان میں کھلتی ہے اس کے پاس رکھی کرسی پر رات گئے بیٹھا رہا، یہی سوال جو آپ کے سامنے رکھے، پہلے اپنے آپ سے پوچھے۔
ایک طرف میرا ذاتی غم تھا اور ایک طرف عوام۔ کبھی میرا غم حاوی ہوا تو کبھی عوام کا۔ یہاں رائیونڈ کے گرد و نواح میں دیہات ہیں، پچھلے پہر خاموشی گہری ہوتی ہے، اذان کی آواز شہر کی نسبت یہاں زیادہ بااثر محسوس ہوتی ہے۔
جیسے ہی پہلی اذان ہوئی تو میں اٹھا، وضو کیا، رب کے حضور پیش ہوا۔ پھر واپس اسی کرسی پر آن بیٹھا، نماز رقت میں ادا ہوئی تو جذبات سُچے ہو چکے تھے، دوبارہ یہی سوال اپنے سامنے رکھا۔ اس بار جواب ذاتی غم کے بجائے عوامی غم کی پاسداری پر مبنی ہے۔ بس یہ وہ لمحہ تھا جب میں ٹھان لی کہ آپ کے نام خط لکھوں گا۔












