Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
پیر ، 30 جون ، 2025 | Monday , June   30, 2025
پیر ، 30 جون ، 2025 | Monday , June   30, 2025
تازہ ترین

’’کہاں وہ ، کہاں یہ‘‘

کہاں وہ لڑکیاں کہ سائیکل چلانے کے محض خواب دیکھا کرتی تھیں، عملی تجربہ ان کی قسمت میں نہیں ہوتا تھا
* * *شہزاد اعظم۔جدہ* * *
ہمیں یاد ہے ،بچپن میںجب ہم چھوٹے تھے،اس وقت لڑکیاں انتہائی ڈرپوک ہوتی تھیں۔کہاں وہ لڑکیاں کہ چھپکلی دیکھ کر چیخیں مار دیتی تھیں۔کہاں وہ لڑکیاں کہ سچ مُچ کا کُتا شُتا تو بہت دور کی بات ، کوئی اپنے منہ سے ’’بھاؤ‘‘ کی آواز نکال دیتا تو اتنی زور سے ’’امی‘‘ کہہ کر چلاتیں کہ اپنی تو اپنی، آس پڑوس کی مائوںکی سوئی ممتابھی جاگ اٹھتی اور وہ ’’جہاں ہیں، جیسی ہیں‘‘ کی بنیاد پر ’’بچی بچائو مہم‘‘کے لئے نکل کھڑی ہوتی تھیں۔کہاں وہ لڑکیاں کہ جب کوئی دولہا میاں انہیں بیاہ کر لے جاتے توان کے دل پراپنے دھاک بٹھانے کیلئے اپنی مرضی کی تراکیب استعما ل کرتیں مثلاً سالن میںنمک پھیکا ہونے کے بہانے میز اُلٹ دیتے،یہ بے چاری میز سیدھی کرتی، سب سے پہلے اس پر نمکدانی لا کر رکھتی، پھر نئے سرے سے سالن پلیٹ میں اتارتی اسکے بعد فرش صاف کرتی۔کبھی پانی پلانے میں تاخیرپردولہا میاں کانچ کا گلاس پختہ فرش پر دے مارتے۔ وہ بے چاری دوبارہ پانی لاتی اور اسکے بعد کانچ اکٹھا کرنے کیلئے جاروب کشی کرتی۔
میاں صاحب بیگم کومیکے چھوڑ آنے کی دھمکی دیتے تو وہ سہم جاتی اور اپنی غلطی دریافت کرکے اپنی اصلاح کرنے میں جُت جاتی۔کہاں وہ لڑکیاںکہ دولہا نے کہا ’’خبر دار جو تم نے گھر سے باہر قدم رکھا۔میاں کی اس دھونس کے بعد وہ بے چاری گھر میں چپل ہی نہیں پہنتی تھی کہ نہ پاؤں میں جوتی ہو گی اور نہ قدم گھر سے باہر نکل سکے گا۔کہاں وہ لڑکیاں تھیں اور کہاں یہ لڑکیاں ہیں کہ بھاؤ سے ڈرنے کی بجائے بھاؤکو ہی پال لیتی ہیں۔بیاہ کر جاتی ہیں تو سسرال والوں کو زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھانے اور ان کی اصلاح کرنے پر تُل جاتی ہیں۔دولہا میاں ان پر رعب جھاڑنے کی کوشش کریں تو جواباً وہ شوہر نامدار کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیتی ہیں۔ان کے میاں اگر یہ کہہ بیٹھیں کہ خبردار جو کبھی تم نے گھر سے قدم باہر نکالا۔یہ سنتے ہی وہ کہتی ہے ’’مائی فُٹ‘‘، پھر آن کی آن میں جدید فیشن کی حامل پینٹ شرٹ پہن کر ، اونچی ایڑی والی سینڈل زیبِ پا کر کے، ناک پر گاگلز دھر کر، پرس شانے پر لٹکا کراچانک وارد ہوتی ہے اوردولہا سے کہتی ہے کہ ’’او مسٹر! میں جا رہی ہوں، جرأت ہے تو روک کر دکھاؤاور خبر دار جو میرا پیچھا کرنے کی کوشش کی۔میں 15دن کے اندر اندر خلع کے کاغذات بھجوا دوں گی۔ دستخط نہ کئے تو آئندہ ملاقات عدالت میں ہوگی، بائے۔ کہاں وہ لڑکیاں کہ سائیکل چلانے کے محض خواب دیکھا کرتی تھیں، عملی تجربہ ان کی قسمت میں نہیں ہوتا تھا کیونکہ شادی سے قبل ان کے بڑے اور شادی کے بعد شوہر نامدار، سائیکل کو مردانہ سواری قرار دیتے تھے۔
کہاں یہ لڑکیاں کہ جب انہوں نے یہ حقیقت بھانپ لی کہ موٹر سائیکل ’’مذکر سواری ‘‘ہے جسے برقع پہن کر چلانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ، انہوں نے پینٹ شرٹ پہن کراس ’’ٹو وھیلر‘‘ کو انتہائی ’’ مردانہ وار‘‘سڑک پر دوڑاکر دکھا دیا۔یہ منظر ہماری ایک ’’عرصے سے چار، تجربہ کار، سلیقہ شعار‘‘آنکھوں نے پاکستان میں زندہ دلوں کے شہر لاہورمیں دیکھا تھا۔ ہم ’’دہل ‘‘ کر رہ گئے تھے کیونکہ آج کی3 لڑکیاں ایک موٹرسائیکل پر سوار جا رہی تھیں۔ اسے چلانے والی ’’زنانہ‘‘ہستی نے’’ مردانہ‘‘ لباس زیب تن کر رکھا تھا ۔ سڑک پر آنے جانے والی موٹرسائیکلوں کے ’’مذکر سوار‘‘صنف نازک کی جرأت و ہمت دیکھ کر بھونچکا، ہکا بکا ہو کر، حیرت زدہ اور انگشت بدنداں رہ گئے اور حیران کن کیفیات کا شکار دکھائی دیئے کیونکہ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ آج کی خواتین کو شانہ بشانہ چلنے کے شوق نے کس قدر بے دھڑک کر دیا ہے۔کچھ بھی ہو اب مرد حضرات کو اپنے اطوار لا محالہ بدلنے ہوں گے تب ہی یہ ممکن ہو سکے گا کہ وہ اپنی دلہن کے پسندیدہ اور کامیاب دولہا بن سکیں۔
ہم نے یہ منظر یہی کوئی 10یا20ہفتے قبل دیکھا تھا ۔ اس وقت ہم بھی حیرت کے سمندر میں غرق ہوگئے تھے کیونکہ ایسے مناظر ارضِ پاک کی سرحدوں سے باہر تو دکھائی دیتے تھے مگر اپنی’’ ہم وطنیوں‘‘ کوہم نے زندگی میں پہلی مرتبہ ایسے ’’تذکیری عزائم‘‘ کا مظاہرہ کرتے دیکھا تھا۔ بہر حال2ماہ گزرنے کے بعد جب ہم حیرت و استعجاب کے نرغے سے باہر نکلنے میں کسی حد تک کامیاب ہوئے تو ’’ذہنِ رسا‘‘ نے اس ’’جرأتِ نسواں‘‘ کے فوائد پر نظر دوڑانے کی کوشش کی تو حقائق کے کچھ ایسے نقوش ہمارے ذہن کے ’’پردۂ فراست ‘‘ پر اُبھرے جنہوں نے ہماری آنکھیں ہی کھول دیں۔ہمیں ہماری دانش نے سمجھایا کہ کہاں وہ لڑکیاں تھیں کہ گھر گرہستی کے ’’جھمیلوں‘‘ سے ہی آزاد نہیں ہوپاتی تھیں۔ اُس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اُس دور میں صرف ’’ فوڈ‘‘بے حد ’’سلو‘‘ ہوا کرتا تھا،’’ فاسٹ فوڈ‘‘اُس جہانِ رنگ و بو میںتولُّد ہی نہیں ہوا تھاچنانچہ کھانے پینے کا تمام تر دارومدار انہی گرہستنوں پر ہوتاتھا۔
آج صورتحال یکسر بدل چکی ہے ۔ آج کی دلہنیں اپنے دولہا سے کہتی ہیں کہ گھر واپسی پر زنگر برگرز لے آئیے گا کیونکہ گرمی بے حد ہے، ایسے میںاَون کے سامنے جانے سے میری اسکن خراب ہونے کا خدشہ ہے ۔ یہ کہہ کر وہ خود ’’لیڈیز کلب‘‘ کی پارٹی میں چلی جاتی ہیں۔آج کی لڑکیوں نے اپنے دولہوں کو ’’غذائے سریع‘‘ یعنی ’’فاسٹ فوڈ‘‘ کا اتنا عادی کر دیا ہے کہ اب وہ خود ہی فون کر کے کہہ دیتے ہیں کہ بیگم! میرے لئے ڈنر تیار نہ کرنا، میں چکن روسٹ اور فرنچ فرائز کھا نے جا رہا ہوں۔ آج کی لڑکیوں کی ’’جرأتِ مردانہ‘‘ دیکھ کر ہمارے دل میں ایک موثر خیال آ رہا ہے کہ وطن عزیز کے وہ ادارے جن کی ناکامی کا رونا ہمارے چینل روتے رہتے ہیں، ان اداروں میں اہم عہدوں پر ان لڑکیوں کو فائز کر دیاجائے تاکہ وہ نہ صرف ’’مردانہ وار‘‘اپنی ذمہ داریاں نبھائیں بلکہ ’’زنانہ وار‘‘خدمات انجام دینے والے مردوں کی ’’تعزیری اصلاح‘‘پر بھی توجہ دیں۔ مختلف اہم عہدوں پرلڑکیوں یا خواتین کی تعیناتی کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ اہم اور مؤقر اداروں میں کسی ہستی کو یہ یاددہانی نہیں کرانی پڑے گی کہ اس دنیا میں ’’ شرم بھی کوئی چیز ہوتی ہے، حیا بھی کوئی چیز ہوتی ہے ‘‘ کیونکہ ہماری خواتین بلا شبہ ’’پیکرِ شرم و حیا‘‘ ہیں۔وہ جس جس ادارے میں فرائض کی انجام دہی پر مامور کی جائیں گی، وہاں’’شرم‘‘ بھی بے انتہاء ہوگی اور ’’حیا‘‘ بھی بے حساب ہو گی چنانچہ کوئی ہستی بے شرمی اور بے حیائی کا مظاہرہ نہیں کر سکے گی ۔ نتیجتاً نہ لوٹ ہوگی ، نہ مار ہوگی، نہ کوئی ’’مؤنث نمونہ‘‘ دولت لے کر ملک سے فرار ہوگی پھر ’’تغسیلِ مال‘‘ یعنی ’’منی لانڈرنگ‘‘ بھی ناممکن ہوجائے گی ۔ اے کاش ہمارے اداروں کے اہم مناسب پر یہ ’’شرم دار و حیادار ‘‘ہستیاں براجمان ہوجائیں۔ شاید پھر وہ وقت آجائے کہ ہمارا وطن ترقی ، وقاراور اعتبار کے فلک پر ماہتاب بن کر چمکے۔

شیئر: