خلیجی تعاون کونسل براعظم ایشیا کی تنظیموں میں ایک انتہائی قابل احترام مقام رکھتی ہے
* * * *جاوید اقبال* * *
قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی سے میں صرف 2سوال پوچھنا چاہتا ہوں ۔ پہلا سوال: کیا شیخ تمیم کو 1985ء میں کرۂ ارض پر ہونیوالے تباہ کن واقعات یاد ہیں ؟ جواب یقینا نفی میں ہو گا کیونکہ 3جون 1980ء کو پیدا ہونیوالے شیخ تمیم اُس وقت صرف 5برس کے تھے اور اتنی کم عمر کا بچہ واقعات کا سنجیدگی سے مشاہدہ نہیں کیا کرتا اور نہ اس کا حافظہ اتنا تیز ہوتا ہے کہ حوادث کو لمبے عرصے تک لوحِ یاد پر محفوظ کر سکے ۔ میں یہاں امیرِ قطر کی مدد کروں گا ۔ 1980ء کی دہائی میں 2سپر پاورز سوویت اتحاد اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں سرد جنگ نے شدت اختیار کرلی تھی ۔
دونوں طاقتیں تیسری دنیا کے ممالک کو کرۂ ارض کی بساط پر شطرنج کے مہروں کی طرح چلا ، گرا رہی تھیں ۔قطر سے تقریباًڈیڑھ ہزار میل مغرب میں 3ہزار سالوں سے قائم ایک شہنشاہیت کے زیرِ انتظام ملک ایتھوپیا میں راوی چین لکھتا تھا ۔ شہنشاہ ہیل سیلاسی کے 50سالہ دور میں عوام خوشحال اور خوش بخت رہے تھے کہ اچانک سوویت اتحاد کی نظر اس ملک پر پڑ گئی ۔ فوج پر جال ڈالا گیا جس نے ماسکو کی مدد سے شہنشاہ ہیل سیلاسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا ۔ 85سالہ ملکِ معظم کو ان کے اپنے محل کے ایک کمرے میں قید کر دیا گیا ۔ سوویت اتحاد کے اشاروں پر چلنے والا نیا سربراہ دن رات فوجی وردی میں ملبوس رہتا اور اسی میں ہی بین الاقوامی اجلاسوں میں شرکت کرتا ۔ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے اس نے 1977-78کے 2 برسوں میں مخالفین کا قتل عام کرایا ۔ ان 2برسوں کو بعد میں عوام نے’’ ایتھوپیا کی سرخ دہشت‘‘ کا نام دے دیا ۔ 5لاکھ تک عوام گولی سے اڑائے گئے ۔
لوگ شہنشاہ ہیل سیلاسی کے وقتوں کو یاد کر کے روتے تھے ۔ فوج نے جنگی مشقوں کے دوران جنگلات کاٹے تو بادل ایتھوپیا کا رستہ بھول گئے ۔ 1983-85کے برسوں میں خشک سالی اور قحط ایتھوپیا کا مقدر ٹھہر گئے ۔ آفتِ سماوی کے ہاتھوں اتنا ابن آدم مراکہ حساب دان شمار کرنا بھول گئے ۔ عالمی اداروں کا اندازہ ہے کہ 5لاکھ سے 20لاکھ تک افراد لقمہ اجل بنے ۔ انسانی اور حیوانی ڈھانچے جنگلی جانور بھی کھا کھا کر تھک گئے ۔ صدر مجِسٹو ھیلے مریم اپنی فوجی وردی میں ملبوس اناج کی طلب میں ماسکو کے چکر لگاتا رہا جہاں سے اسے غلے کی بجائے اسلحہ ملتا ۔
ملک میں لاشوں اور فوجی سازوسامان کے ڈھیر لگتے رہے ۔ مجِسٹو ھیلے مریم نے اپنوں سے منہ موڑ کر روسیوں سے ناطہ جوڑا تھا اور اب بربادی کی فصل کاٹ رہا تھا ۔ بالآخر 1991ء میں اپنا ملک چھوڑ کر بھاگا اور زمبابوے کے صدر رابرٹ موگابے کی پناہ میں جا بیٹھا ۔ آج بھی وہیں ہے اور اس لمحے کو کوستا ہے جب اس نے روسی حلیف ہو کر سرد جنگ کا حصہ بننا قبول کیا تھا ۔ بے آب و گیاہ میدانوں پر کٹے پیٹروں کی طرح پڑی بے کفن لاکھوں لاشیں…ان کا وطن روسی بساط کا مہرہ بنا تھا ۔ 57ممالک کے افریقی اتحاد سے روگردانی کرتے ہوئے اکیلے اپنا فیصلہ کیا تھا ۔ خلیجی تعاون کونسل براعظم ایشیا کی تنظیموں میں ایک انتہائی قابل احترام مقام رکھتی ہے ۔ مملکت سعودی عربیہ کے زیر نگرانی اور اس کے تعاون سے رکن ممالک نے ترقی کے قابلِ رشک مراحل طے کئے ہیں ۔ سعودی کردار باقی ریاستوں کے بڑے بھائی کا سا رہا ہے ۔
تجارتی معاملات بھی آسانی سے چلتے رہے ہیں ۔ قطر کی درآمدات کا بیشتر حصہ سعودی عرب میں سے ہی ہو کر جاتا ہے ۔ یہاں تھوڑی تفصیل برمحل رہے گی ۔ قطر میں پولٹری اور ڈیری کی اشیاء کا 49فیصد سعودی عرب سے جاتا ہے ۔ خوردنی سبزیوں کا تقریباً8فیصد حصہ بھی سعودی عرب سے گزرتا ہے ۔ حیوانی اور نباتی گھی کا تقریباً13فیصد بھی مملکت سے درآمد کیا جاتا ہے ۔ آٹا ، گندم اور گیہوں کی دیگر مصنوعات کا 24فیصد سعودی عرب میں سے گزرتا ہے جبکہ مشروبات کا تقریباً28فیصد حصہ بھی سعودی قطری سرحد پار کرتا ہے ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ قطر کی 40سے 50فیصد خوراک اور دیگر خوردنی اشیاء کی درآمد مملکت سعودی عرب کی مرہون منت ہے ۔ اب جبکہ مملکت سے زمینی ذرائع نقل و حمل پر پابندی لگ چکی ہے تو اس کا یہ لازمی نتیجہ ہو گا کہ اس چھوٹی سی ریاست میں اشیائے خوردونوش کی کمی ہو گی اور نتیجتاً ان کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان پیدا ہو گا ۔ اور اب شیخ تمیم بن حمد الثانی سے میں انتہائی مودبانہ انداز میں دوسرا سوال کرتا ہوں ۔ کیا انہوں نے کبھی کسی مرغی کو اپنے انڈے سیتے دیکھا ہے ؟ جواب یقینا نفی میں ہو گا ۔ تو میں اس پر ذرا بات کرتا ہوں ۔ ایک دیسی مرغی عموماً30,25انڈے مسلسل دے کر اگلا تقریباً ایک مہینہ آرام کرتی ہے ۔ اس دوران وہ اپنے دئیے گئے انڈوں پر بیٹھ جاتی ہے اور انہیں سیتی ہے ۔
21دن کے بعد چوزے نکلتے ہیں ۔ ننھے منھے روئی کے گالے ماں کے سائے میں حرکت کا آغاز کرتے ہیں جبکہ ماں کو یہ فکر ہوتی ہے کہ بچوں کو نہ صرف مناسب خوراک ملے بلکہ انہیں تحفظ بھی فراہم کیا جائے ۔ کوئی ایک آدھ دانہ اسے نظر آتا ہے تو اسے چونچ میں اٹھا کر ’’کٹ کٹ‘‘ کرتی بچوںکو متوجہ کرتی ہے جو بھاگتے آکر چونچ میں سے دانہ نکال کر اس پر پل پڑتے ہیں ۔ کوئی خطرہ نظر آئے تو مخصوص آواز نکال کر انہیں متنبہ کرتی ہے اور وہ بھاگتے آکر ماں کے پھیلے پروں میں پناہ گزین ہو جاتے ہیں ۔ اگر کوئی چیل یا کوا ہوا میں سے غوطہ لگا کر بچوں پر جھپٹے تو ماں فوراً پر پھیلا کر شیرنی بنی اپنے مختصر پروں پر بھاری بدن سنبھالتی اڑان بھرتی حملہ آور کے پیچھے بھاگتی اسے راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔ یہاں نائیجریا کے بے بدل ادیب چینوا اچیبی کا معروف جملہ یاد آتا ہے : ’’ وہ چوزہ جو اپنی ماں کی بات نہیں مانتا یقینا چیل کا شکار ہو جاتا ہے‘‘ ۔ حرمین شریفین کی سرزمین اپنی ہمسایہ ریاستوں کا ایک ماں کی طرح خیال رکھتی رہی ہے ۔ ان کی حفاظت کو ہمیشہ مقدم سمجھتی رہی ہے ۔ انہیں درپیش ہر خطرے کا مقابلہ ان کے ہمراہ رہ کر کرتی رہی ہے ۔ اپنے پر پھیلائے انہیں سایہ و تحفظ دیتی رہی ہے ۔ امیرِ قطر عزت مآب شیخ تمیم بن حمد الثانی اس حقیقت کو فراموش نہ کریں کہ قطرکی ننھی سی ریاست ایک چوزے کی طرح خلیجِ عربی کے کنارے پر کھڑی ہے جبکہ اس پانی کے پار سے خونخوار بلے اورچیلیں برسوں سے اس پرحریص نظریں گاڑے بیٹھے ہیں ۔ تو ننھا چوزہ اگر ماں کی مہربان نصیحت اور اس کے حفاظتی حصار سے بغاوت کرے گا تو پھر بِلّے اور چیل کا ایک ہی جھپٹا…!!