Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
اتوار ، 08 جون ، 2025 | Sunday , June   08, 2025
اتوار ، 08 جون ، 2025 | Sunday , June   08, 2025

کراچی میں الیکشن سے قبل 82 پولیس اہلکاروں کی معطلی، فیصلہ انتظامی یا سیاسی؟

ترجمان ایڈیشنل آئی جی کراچی پولیس اہلکاروں اور افسران کی معطلی کو انتظامی معاملہ قرار دیتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
عام انتخابات سے قبل کراچی پولیس کی جانب سے شہر میں تعینات 82 پولیس افسران و اہلکاروں کی معطلی انتظامی ہے یا سیاسی؟ یہ ایک سوال ہے جو بدھ کی صبح سے کراچی شہر میں گردش کررہا ہے۔
سیاسی و سماجی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین بھی اس فیصلے کو تنقید کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کے مطابق شہر میں جرائم کی وارداتوں پر قابو نا پانے کا جواز بنا کر ایسے موقع پر پولیس افسران کو ہٹایا گیا ہے جب الیکشن سر پر ہیں۔
ترجمان ایڈیشنل آئی جی کراچی پولیس اہلکاروں اور افسران کی معطلی کو انتظامی معاملہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق ’محکمہ پولیس کے قوانین کے تحت شہر میں امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہونے اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی نہ کرنے والے پولیس اہلکاروں اور افسران کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ یہ انتظامی فیصلہ ہے۔‘
کراچی پولیس چیف خادم حسین رند نے جرائم پر قابو نا پانے اور اپنے تھانے کی حدود میں جرائم کی سرپرستی کرنے پر ایس ڈی پی او سہراب گوٹھ، ایس ایچ او سہراب گوٹھ اور ایس ایچ او سائٹ سپر ھائی وے کو معطل کر دیا ہے، کراچی پولیس چیف نے کراچی رینج کے 15 ایس ایچ اوز کے خلاف محکمانہ انکوائری کے احکامات بھی جاری کیے ہیں۔
ایڈیشنل آئی جی کراچی کی جانب سے اردو نیوز کو فراہم کی گئی معلومات میں بتایا گیا ہے کہ ’جرائم کی سرپرستی کرنے کے الزامات ثابت ہونے پر زون شرقی کے آٹھ ہیڈ محررز اور 21 مزید پولیس اہلکاروں کو معطل کیا گیا ہے۔ اسی طرح زون غربی کے سات ہیڈ محرر اور آٹھ اہلکار معطل، جبکہ زون جنوبی کے ایک ہیڈ محرر اور 11 اہلکاروں کو معطل کیا گیا ہے۔‘
’کُل 82 پولیس افسران و اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کارروائی کی گئی ہے۔ جن میں کراچی رینج کے تینوں زون کے ساتھ ساتھ سی آئی اے، ٹریفک اور سکیورٹی زون کے چھ اہلکاروں کے خلاف معطلی کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔‘
سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر توصیف نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اچانک پولیس اہلکاروں اور افسران کی معطلی کی گئی ہے۔ اگر پولیس کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو شہر میں حالات کچھ مختلف نظر نہیں آتے۔

 سال 2023 میں ہلاک و گرفتار جرائم پیشہ افراد کے قبضہ سے تقریباً ساڑھے چھ کلو دھماکہ خیز مواد برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ ’شہر میں سٹریٹ کرائم سمیت دیگر جرائم کی وارداتوں میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے، ایسے میں جرائم کی روک تھام نہ کرنے کا جواز بنا کر محکمہ پولیس میں کچھ احکامات جاری کیے گئے جو اس وقت پر سمجھ نہیں آتے۔‘
ان کے خیال میں عام انتخابات سے قبل نگراں حکومت کے ہی لگائے گئے اہلکاروں و افسران کو ہٹانا سیاسی جماعتوں کو اعتراض اٹھانے کا جواز فراہم کرنا ہوگا۔
واضح رہے کہ سینٹرل پولیس آفس کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق سال 2022 میں 22 ہزار 78 جبکہ سال 2023 کے دوران 3 ہزار 158 پولیس مقابلے ہوئے۔
مجموعی طور پر بالترتیب ایک ہزار 451 اور ایک ہزار 726 جرائم پیشہ گینگز کو ختم کیا گیا۔ سال 2022 میں 16 ہزار 613  ملزمان، 100 دہشت گرد، 19 ٹارگٹ کلرز، 01 نوٹیفائیڈ ڈکیت، 12  ہائی وے ڈکیت، 34 اغوا کار، سات ہزار اشتہاری اور 15 ہزار 815 مفرورملزمان گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
سال 2023 میں ہلاک و گرفتار جرائم پیشہ افراد کے قبضہ سے تقریباً ساڑھے چھ کلو دھماکہ خیز مواد، چار راکٹس، 124 ہینڈ گرنیڈز، تین خودکش جیکٹس ساڑھے نو ہزار سے زائد پستول، ریوالورز، ماؤزر، 186 رائفلیں، 554 شاٹ گنز، 202 ایس ایم جیز، تین ایم پی فائیو، 11 جی تھری، دو ایل ایم جی اور ایک اینٹی ائیر کرافٹ گن برآمد کرنے کا بھی پولیس نے دعویٰ کیا ہے۔
محکمہ پولیس کے جاری کردہ ان اعداد شمار پر سینیئر صحافی رفعت سعید کہتے ہیں کہ ’پولیس کی جاری کردی تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ محکمہ کی کارکردگی ہر گزرتے ماہ کے ساتھ خراب ہی ہوئی ہے۔ اس میں اتحادی حکومت سے لے کر نگراں حکومت تک کے دور حکومت میں شہری امن و امان کی صورتحال سے پریشان ہی رہے ہیں۔‘

رفعت سعید کے مطابق ’کئی پولیس افسران نے دباو کے باوجود تارکین وطن کے خلاف جاری آپریشن میں کام کیا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا ہے کہ ’محکمہ پولیس میں معطلی اور تبادلے انتظامی امور کا ہی حصہ ہوتے ہیں، لیکن یہاں یہ بات اہم ہے کہ نگراں حکومت کے قیام کے بعد کئی علاقوں میں پولیس کے ایسے افسران تعینات کیے گئے تھے جو اچھی شہرت کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ امن و امان کی صورتحال کو بہتر کرنے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ ان میں بیشر ایسے تھے جو سیاسی سسٹم کا حصہ بھی نہیں رہے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’عام انتخابات کے قریب آتے ہی افسران کو ہٹانے کا ایک مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ افسران سیاسی جماعتوں کے اثر و رسوخ کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ اس کی ایک مثال تارکین وطن کی واپسی سب کے سامنے ہے۔ کئی پولیس افسران نے تمام تر دباو کے باوجود تارکین وطن کے خلاف جاری آپریشن میں کام کیا اور ان کی اپنے ملک واپسی میں اہم کردار ادا کیا۔‘

شیئر: