عشرت میں جی کر خون کے آنسورونے سے بہتر ہے کہ ا نسان عسرت میں زندگی گزار کر مسکراہٹیں بکھیرتا رہے
* * * *عنبرین فیض احمد ۔ ریاض* * * *
زارا کی امی کی بہت خواہش تھی کہ ان کی بیٹی کا رشتہ اس گھرانے سے آئے جن کا بیٹا بیرون ملک ہو تاکہ وہ پردیس اور خاص طور پر کسی مغربی ملک چلی جائے اوروہاںان کی لڑکی سسرال کے جھمیلوں سے آزاد رہے۔ جلد ہی ان کی خواہش رنگ لائی۔ سلیمان امریکہ میں مقیم تھے ،4 پانچ ماہ کی چھٹی پر پاکستان آئے ہوئے تھے ۔ان کی ماں بہنوں کا مصمم ارادہ تھا کہ اس مرتبہ ان کی شادی کرواکر ہی واپس بھیجیں گے لہٰذان کے آنے کی خبر سنتے ہی ماں او ربہنوں نے لڑکیاں دیکھنا شروع کردیں مگر گوہر مقصود تھا کہ ہاتھ ہی نہیں آرہا تھا بالآخر ان کی آمد کے ایک ماہ بعد ان کی نگاہ انتخاب زارا پر پڑی جو حال ہی میں بی اے کرکے فارغ ہوئی تھی اور اب کسی اچھے اسکول میں جاب کررہی تھی۔ صاف رنگ، موہنی سی صورت، لمبے بال۔ سلیمان کی والدہ اور بہنوں کو وہ بے حد پسند آئی۔ ویسے بھی سلیمان کی کوئی خاص ڈیمانڈ نہیں تھی۔
زارا کے والد ہچکچاہٹ کا شکار تھے ، وہ اپنی بیٹی کو اتنی دور بھیجنا نہیں چاہتے تھے کیونکہ باقی دو بیٹیاں اسی شہر میں بیاہی گئی تھیں۔ وہ زارا کیلئے بھی کسی ایسے ہی رشتے کے متلاشی تھے مگر مقدر کا لکھا کون ٹال سکتاہے۔ سورشتہ طے ہوگیا اور بیٹی کی شادی کی تاریخ بھی طے ہوگئی۔ زارا کے والدین نے ہر طرح کی چھان بین کروا کر ہی رشتے کوہاں کی تھی پھر لڑکا امریکی شہریت کا حامل تھا۔ انہیں اور کیا چاہئے تھا۔ سلیمان اور ان کے گھرکے بعض لوگ کافی عرصے سے امریکہ میں مقیم تھے۔ اتنی معلومات زارا کی امی کیلئے بہت کافی تھیں۔بہر حال ہر لڑکی کی طرح زارا بھی والدین ، بہن بھائی، سکھیوں سہیلیوں کی دعاؤں اور دل میں ہزاروں ارمان لئے پیا دیس سدھار گئی۔ شادی کے بعد سلیمان واپس امریکہ چلے گئے۔ وہاں جاکر زارا کو بلانے کا بندوبست بھی کرنا تھا۔ سو حسب پروگرام وہ زارا کی آنکھو ں میں وعدوں کے ہزاروں جگنجو تھماکر امریکہ روانہ ہوگئے۔ زارا کے سسرال والے بہت اچھے تھے۔ ہر وقت اس کا خیال رکھتے تھے۔
انہوں نے نئی دلہن کی دلجوئی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس کا جب دل چاہتا ،والدین کے گھر چلی جاتی اوردل چاہتا تو سسرال آجاتی۔ موڈ ہوتا تو کام کرلیتی ورنہ کسی کام کو ہاتھ بھی نہ لگاتی۔ اس پر کسی قسم کی کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ شوہر کا فون آتا تو جس کسی نے بات کرنی ہوتی، بات کرکے ریسور زارا کو تھما دیتے ۔ زارا گھنٹوں باتیں کرتی ، گھر میں کسی کو اعتراض نہ ہوتا ۔ ساس ہر مرتبہ بیٹے کا فون آنے پر اصرار کرتیں کہ دلہن کو جلدازجلد اپنے پاس بلوا لو۔ تقریباً ایک سال کے بعد انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور زارا خوابوں کی سرزمین’’ نیویارک‘‘ پہنچ گئی۔
ایئرپورٹ پر سلیمان اسے لینے کیلئے موجود تھے۔ وہاں کے معاشرتی دستور کے مطابق سلیمان نے نہایت گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا۔ شادی کے چند ماہ تو گویا پریوں کے دیس میں گزرے ۔زارا کے شوہر سلیمان بھی دلکش شخصیت کے مالک اور انتہائی محبت کرنے والے تھے۔ ان سب باتوں کا اہم پہلو یہ بھی تھا کہ وہ امریکی شہریت کے حامل تھے اور وہاں کسی کمپنی میں اچھے عہدے پر فائز تھے ۔ زارا کیلئے بھی امریکہ جانا اور وہاں سیٹل ہونا ایک خواب تھا لیکن یہ خواب اتنی جلدی حقیقت بن جائے گا،اسے اس کا علم نہیں تھامگر....... زارا کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پردیس میں شادی ایک ایسا حَسین خواب بھی ہو سکتی ہے کہ جس کی تعبیر انتہائی بھیانک ہو ۔زارا کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ امریکہ پہنچ کر زارا کو اندازہ ہوا کہ یہ شادی تو صرف اس کے شوہر نے محض ماں ، باپ او ربہن بھائیوں کا دل رکھنے کیلئے کی تھی۔ انہوں نے یہی سوچا تھا کہ زارا امریکہ آکر ایک کونے میں پڑی ر ہے گی ۔ و ہ یہاںکی زندگی میں پوری طرح رچ بس چکے تھے۔
زارا نے اپنے شوہر کو سمجھانا چاہا۔ اس کے سمجھانے پرجھگڑے ہونے لگے، نوبت گالم گلوچ اور پھر مارپیٹ تک پہنچ گئی۔ اس نے ابتدا ء تھپڑ سے کی اور پھر زارا کو ٹھوکروں اور ٹھڈوں پر رکھ لیا گیا۔ اتنی مار کٹائی کے باعث اس کی طبیعت ناساز رہنے لگی۔ اس کے باوجود وہ گھر کی حالت درست کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ اس دوران اس کے ہاں بچی کی پیدائش ہوئی لیکن شوہر کی طرف سے کسی قسم کی بہتری نظر نہیں آئی۔ زارا نے اس زندگی کوہی اپنی قسمت سمجھ لیا۔وہ گھر کے سارے کام کرتی،کھانا بناتی، خود کو یہ کہہ کر تسلی دیتی کہ سلیمان جیسے بھی ہیں، میرے شوہر ہیں ،میرے بچی کے باپ ہیں۔ پھر سب سے بڑھ کریہ کہ اس پردیس میں میرا کون ہے؟ انہی سوچوں کے ساتھ سارا سارا دن انتظار میں گز ر جاتا ، سلیمان گھر نہیں آتے۔زارا سعادت مند بیویوں کی طرح ساری ساری رات جاگ کرشوہر کا انتظار کرتی رہتی۔
عموماً وہ رات کے تیسرے پہر نشے کی حالت میں گھر لوٹتا ۔ زارا کو جاگتا دیکھ کراس کا پارہ چڑھ جاتا۔وہ چلاتا کہ ابھی تک جاگ رہی ہو، پھر گالم گلوچ اور مار پیٹ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ ایک دن نشے کی حالت میں اس نے طلاق دینے کا ارادہ بھی ظاہر کر دیا۔ اس سب کے باوجودزارا نے اپنے والدین سے کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں کی۔وہ ہمیشہ فون پر یہی کہتی کہ میں امریکہ آکر بہت خوش ہوں۔ آپ لوگ فکر نہ کریں۔ سلیمان میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔ وہ والدین کو حقیقتِ حال بتاکر دکھی کرنا نہیں چاہتی تھی۔ آج زارا کی شادی کو 10برس گزر چکے ہیں۔ اس نے خود کو اپنی بیٹی کی تعلیم وتربیت میں مگن رکھا ہوا ہے ۔وہ اکثر اپنی سہیلیوں سے فون پر گفتگو کرتی ہے تو کہتی ہے کہ عشرت میں جی کر خون کے آنسورونے سے تو ہزار درجے بہتر ہے کہ ا نسان عسرت میں زندگی گزار کر مسکراہٹیں بکھیرتا رہے۔