Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
اتوار ، 08 جون ، 2025 | Sunday , June   08, 2025
اتوار ، 08 جون ، 2025 | Sunday , June   08, 2025

رمضان کریم میں پاکستانی چینلز پرخصوصی نشریات’’ناقابلِ دید‘‘

پروگراموں میں رقص و سرود شامل ہوتا ہے، انہیں دیکھنے والے بھی گناہ میں برابر کے شریک ہیں
* * * ممتاز شیریں۔دوحہ* * *
پاکستان میں رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی ٹی وی چینلز پہ خصوصی نشریات کا آغاز ہو جاتا ہے خوبصورتی سے سجائے گئے اسٹیج،عظیم الشان سیٹ،لاکھوں روپے مالیت کے انعامات،مذہبی شخصیات اور شو بز کے ستاروں سے سجی نشریات پورے مہینے نہایت شان و شوکت کے ساتھ ناظرین کے اعصاب پر سوار رہتی ہیں۔ ان نشریات کے دوران سب سے زیادہ مقبولیت پروگرام کے اس خاص حصے یا سیگمنٹ کو حاصل ہوتی ہے جس میں ہزاروں روپے کے انعامات مہمانوں کو"آم" کھانے سے لے کر "تقریری مقابلوں "میں حصہ لے کریا مباحثوں میں ’’دلیل‘‘ کے بدلے ’’ذلیل‘‘ ہونے کے عوض دیا جاتا ہے۔
روزے کے معنی ہیں’’رُکے رہنا‘‘ یعنی اپنے آپ کو روک کر رکھنا۔اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک روزہ تووہ ہے جو سحر سے مغرب تک رکھا جاتا ہے۔ اس روزے کا بہت خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اس کی کچھ پابندیاں ہم پر لاگو ہوتی ہیں۔اسی طرح یوں سمجھئے کہ ایک روزہ شعور بیدار ہونے سے لے کر زندگی کے آخری دم تک کا ہوتا ہے۔ اس کی بھی کچھ پابندیاں عائد ہوتی ہیں جس میں سب سے اہم "عزت نفس" ہے، اپنی بھی اور اوروں کی بھی۔اپنی خودداری، حیاء اور معاشرتی اور قومی تشخص کو برقرار رکھنا، اس شعور کی سب سے پہلی شرط ہے۔ یہ ساری تمہید لکھنے کا سبب وہ کلپ ہے جو آج کل سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے اور جس میں ایک ٹی وی پروگرام کے معروف میزبان غیظ و غضب کی حالت میں پھنکارتے نظر آتے ہیں۔ ہم نے بھی تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر یہ جاننے کے لئے کہ موصوف میزبان کی طبع نازک پر کون سی بات گراں گزری ہے، یہ کلپ کھولا تو جنابِ اینکرکو خوب زور و شور سے گرجتے، برستے پایا ۔پوری وڈیو دیکھنے کے بعد پتہ چلا کہ ڈاؤ میڈیکل کالج کی ایک طالبہ ’’میری آواز سارے زمانے کی صدا ہے‘‘ کے موضوع پر تقریر کر رہی تھیں:
’’ عزت نفس کسی شخص کی محفوظ نہیں
 اب تو اپنے ہی نگہبانوں سے ڈر لگتا ہے
 ڈنکے کی چوٹ پہ ظالم کو بُرا کہتی ہوں
مجھ کو سولی سے نہ زندانوں سے ڈر لگتا ہے‘‘
صدر عالی وقار! میری آواز سارے زمانے کی صدا ہے اس سے مراد.......اور ایک ہی شخص کو پکارنے کو دل کرتا ہے کہ!
چور ،لٹیرے،قاتل سارے شہر کے چوکیدار ہوئے
 ہوس کے متوالے بھی دیکھو دھرتی کے حقدار ہوئے
کوئی نہیں ہے دیکھنے والا،پوچھنے والاکوئی نہیں
 کن ہاتھوں میں آج ہے دیکھوجان سے پیارا پاکستان
 قائد اعظم آؤ ذرا تم دیکھو اپنا پاکستان
یہاں اس بچی کو محترم،عالی وقار،قائد سے بے پناہ محبت کرنے والے جناب اینکرصاحب نے روک دیا اور قائد کو" بْرابھلا "کہنے پر خوب ڈانٹ پلائی۔ بچی نے اپنی بات کی وضاحت بھی کرنی چاہی کہ اس نے دراصل قائد کو کچھ نہیں کہا، اس کا مطلب صرف یہ تھا کہ آج اگر قائد ہوتے تو ملک کا یہ حال نہیں ہوتا۔وہ قائد کو نہیں معاشرے کو برا کہہ رہی تھی لیکن ہمارے محترم میزبان نے قائد کی عظمت لوگوں کے دلوں میں بٹھانے اور دوسرے معنوں میں اپنی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں طالبہ کوتقریر پوری نہیں کرنے دی۔
اینکر صاحب کو کون بتلائے کہ یہ اخلاق کے منافی بات ہے ،یہ ایک تقریر تھی جو کہ موضوع کی حمایت اور اختلاف دونوں میں کی جا سکتی تھی۔اینکر صاحب کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ تقریر کو درمیان میںہی روک دیں۔ دنیا میں تقریر کرنے کا اصول یہ ہے کہ آپ اپنے دلائل بھرپور انداز میں پیش کر سکتے ہیں اور تقریر کے دوران کوئی بھی آپ کو نہیں ٹوک سکتا۔ تقریر ختم ہونے کے بعد آپ اپنا موقف مدلل طریقے سے لوگوں تک پہنچا سکتے تھے۔ یہاں مہمان مقررہ کی تضحیک کرنا ضروری نہیں تھا۔
انہیں یہ احساس بھی نہیں رہا تھا کہ جس قائد کی محبت میں اینکر جی بری طرح سیخ پا اور آپے سے باہر ہورہے تھے ۔ اسی قائد نے اپنی قوم کو ایمان، اتحاد، اخلاق ،نظم و ضبط اور صبر و برداشت کا سبق دیاتھا۔ بقولِ شاعر: ’’شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور‘‘ افسوس کہ ابلاغ کے اس سب سے اہم شعبے میں ’’ڈرامہ باز‘‘قسم کی شخصیات بھیڑ بکریوں کی طرح داخل ہو گئی ہیں۔ ہر کس و نا کس رمضان کریم کا پروگرام کر رہا ہے۔ ٹی وی چینلز گویا رمضان اسپیشلسٹ بن گئے ہیں۔ چاند کا اعلان ہوتے ہی گلیمرس چہرے حلئے بدل بدل کر پروگرام کی میزبانی کرتے نظر آنے لگتے ہیں۔
رمضان کریم ٹرانسمیشن، ہر ٹی وی چینل کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتی ہے ۔ ملٹی نیشنل کمپنیز ہوں یا ملکی انڈسٹریز ،سب یہ گُر جانتی ہیں کہ ان کی پراڈکٹ سب سے زیادہ رمضان کریم میں ہی فروخت ہو گی لہٰذا ان کی پہلی طلب یہی ہوتی ہے کہ ان کے اشتہارات سحر و افطار میں دکھائے جائیں۔ اس کے لئے وہ چھوٹے، بڑے ہر قسم کے انعامات بھی دیتے ہیں اور چینلز کو چلانے کے پیسے بھی ۔پھر بھلا رمضان ٹرانسمیشنز دلکش و رنگین و پر کشش کیوں نہ ہوں؟ سارے سال کی آمدنی ایک ماہ میں نکل آتی ہے۔
اس سارے ہنگامے کی ذمہ داری ہم فقط ٹی وی چینلز پر ہی نہیں ڈال سکتے۔ اس کا ایک سبب ہم ناظرین بھی ہیں۔ عام دنوں میں لوگ شاید ہی سارا سال اتنے چینلز دیکھتے ہوںگے جتنے رمضان المبارک کے دنوں میں دیکھتے ہیں۔ روزہ کھولنے کے لئے پہلے ٹی وی پھر محلے کی مسجد سے آنے والی اذان کی آوازسنی جاتی ہے ۔عوام کم از کم اتنا تو جانتے ہیں کہ رمضان المبارک میں نمازوں ،ذکر و اذکار ،قرآن کریم کی تلاوت ،تراویح اور دیگر مسنون اعمال میں اپنا وقت صرف کرنا چاہئے ۔
ٹی وی چینلز نے میک اپ زدہ خواتین و حضرات کے ذریعے ایسے پروگرام ترتیب دے کر سحر و افطار کے مقدس لمحات میں پیش کردہ پروگراموں میں معنی خیزاور ذو معنی جملے،رقص و سرود شامل کر کے ان چینلز کو’’ ناقابلِ دید‘‘ بنا دیا ہے اور جو لوگ یہ پروگرام دیکھتے ہیں ،وہ بھی اس گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔اللہ کریم ہمیں ہدایت عطا فرمائے، آمین۔

شیئر: