اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی پولیس سے کہا ہے کہ دارالحکومت میں بلوچ مظاہرین کے ساتھ دشمنوں کی طرح سلوک نہ کریں۔
بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ مظاہرین کی گرفتاریوں اور احتجاج کا حق دینے سے روکنے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔
مزید پڑھیں
-
پولیس بلوچ مظاہرین کو مارچ منتظمین کے حوالے کرے: عدالتNode ID: 821686
-
بلوچ یکجہتی مارچ کے تمام گرفتار شرکا رہا: وزارت داخلہNode ID: 822271
درخواست گزار کے وکیل، احتجاج منتظمین اور ایس ایس پی آپریشنز عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے ایس ایس آپریشنز سے استفسار کیا کہ ’کیا آپ نے آرڈر دیا کہ ان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے۔ کسی کو آپ گود میں بٹھاتے ہیں کسی کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہیں، وہ آئے ہیں ان کو بیٹھنے دیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس ملک میں تب تک کچھ بھی نہیں ہوتا جب تک تکمیل نہ ہو جائے۔ اس ملک میں ضمانت کے احکامات کے باوجود ضمانت نہیں ہوتی۔‘
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ’انگریز نے بلوچ کے بارے میں کیا کہا تھا؟ انگریز نے پٹھان، سندھی، پنجابی کے بارے میں جو بھی کہا تھا لیکن بلوچ کے بارے میں کہا کہ اس کو عزت دو۔ انگریز نے کہا کہ بلوچ کو عزت دو اور وہ آپ کے لیے کچھ بھی کرے گا۔‘
وکیل درخواست گزار نے استدعا کی کہ ’34 گرفتار مظاہرین اب بھی جیل میں ہیں جن کی شناخت پریڈ ہونا باقی ہے۔ ایک شخص ظہیر لاپتہ ہے اور تھانہ کوہسار کی ایف آئی آر میں نامزد ہے۔‘
پولیس افسر نے بتایا کہ وہ جیل میں ہیں، ضمانتی مچلکے جمع نہ ہونے کی وجہ سے رہائی ممکن نہیں ہو سکی۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ حکومت پر الزامات لگانا آسان ہے لیکن مظاہرین میں سے کوئی بھی بلوچ لاپتہ نہیں ہے۔
