Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
پیر ، 09 جون ، 2025 | Monday , June   09, 2025
پیر ، 09 جون ، 2025 | Monday , June   09, 2025

گمان ہونے لگا کہ مملکت کی دوسری قومی زبان اردو ہے، موسانی

 پاکستان بہت یاد آتا ہے اور ہم نے وہی رشتہ ناتہ اپنے ملک سے جوڑا ہوا ہے جو سعودی عرب آنے سے پہلے تھا، اردونیوز کو انٹرویو
انٹرویو: مصطفی حبیب صدیقی
( طیب موسانی صاحب کو جدہ سمیت سعودی عرب میں فلاحی کاموں کے حوالے سے ہر کوئی جانتا ہے،نہایت ملنسار اور محبت کرنے والے موسانی صاحب نے ہم سے بات کی جو قارئین کی پیش خدمت ہے)
اردو نیوز: موسانی صاحب آپ ما شاءاللہ کافی تعلیم یافتہ شخصیت کے مالک ہیں ، بیرون ملک رہتے ہوئے تعلیم کی اہمیت کے بارے میں آپ کی کیا رائے؟
  طیب موسانی :تعلیم کی اہمیت ایک وسیع و عریض موضوع ہے جس پر کئی صفحات کیا کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ جس طرح ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ماں کی گود بچے کا پہلا مدرسہ ہے اور ایک پڑھی لکھی خاتون پورے خاندان کو علم کے زیور سے آراستہ کرسکتی ےہ اسی طرح ایک تعلیم یافتہ باپ میری رائے میں پورے خاندان کی صحیح معنوں میں رہنمائی کرسکتا ہے۔ حدیث پاک ہے " ماں کی گو د سے قبر کی لحد تک علم حاصل کرنا چاہیئے۔ ان باتوں سے علم کی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ میں تو کہوں گا کہ صرف تعلیم بنا تربیت کے اور تربیت بنا تعلیم کے غیر سود مند ہے۔ تعلیم و تربیت اور علم و عمل دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ اس بات پر میں نے کئی بار کئی جگہوں پر اپنی تقریروں میں روشنی ڈالی ہے۔ خاص کر موجودہ دور میں تعلیم و تربیت کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ خواہ وہ اندرون ملک ہو یا بیرون ملک۔
اردو نیوز: 33 ، 34 سال سے پاکستان سے دور، روشنیوں کے شہر کراچی سے دور، تقریباً آدھی عمر گزار دی پردیس میں ، کبھی اجنبیت محسوس نہیںہوئی؟
  طیب موسانی :مجھے اور میری فیملی کو کہیں سے بھی سعودی عرب میں اجنبیت محسوس نہیں ہوئی۔ پہلے ہی دن ٹیکسی میں بیٹھے اور ایک عربی ڈرائیور کو اردو بولتے دیکھا اور کسی راہگیر سے ہم نے کسی کا پتہ معلوم کیا تو اس نے اردو میں معاونت کی اور چند قدم پر پاکستانی شلوار سوٹ میں ملبوس چند لوگوں کو دیکھا تو پہلے ہی دن ہمیں اپنائیت محسوس ہوئی اور اجنبیت کا کہیں بھی احساس نہیں ہوا۔ ہمیں تو کبھی کبھار گمان ہونے لگا کہ سعودی عرب کی دوسری قومی زبان اردو ہے۔ اسی خوشگوار احساس میں 33 ، 34 سال کیسے گزر گئے پتہ ہی نہیں لگا۔ آدھی سے زیادہ زندگی یہیں گزر گئی۔
اردو نیوز: بیرون ملک رہ کر فلاحی کام کرنا کس قدر آسان ہے۔سعودی عرب میں قوانین اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ کیا آپ جو کام کرتے ہیں ان میں سعودی حکومت کا تعاون بھی حاصل ہے؟
طیب موسانی :کیا زبردست سوال ہے۔ میرے خیال میں بیرون ملک رہ کر فلاحی کام کرنے میں کچھ اور ہی طرح سے قلب کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ اگر آپ جس ملک میں مقیم ہیں اور وہاں کے بارے میں آپ کو کافی علم ہے تو نئے آنے والے بھائیوں اور فیملیز کی مدد و معاونت کرکے دلی سکون ملتا ہے۔ اگر آپ کے ذہن سے مطابقت رکھنے والا حلقہ ارباب مل جائے تو فلاحی کام اور بھی آسان ہوجاتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ سعودی عرب میں انفرادی یا اجتماعی خالصتاً فلاحی کام کرنے میں کوئی قانونی دشواری ہو ۔ ہاں فلاحی کاموں میں سعودی حکومت سے تعاون حاصل کرنے میں لوگوں کو ہچکچاہٹ ضرور ہوتی ہے۔
اردو نیوز: آپ میمن کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور میمن فلاحی کاموںکے حوالے سے مشہور ہیں۔ کسی کی مدد کرتے ہوئے کیا میمن ہونا شرط ہوتا ہے؟
طیب موسانی :جی نہیں مدد حاصل کرنے والے کے بارے میں یہ تو سوچا ہی نہیں جاتا کہ میمن ہو۔جو بھی ضرورت مند ہے اور اسکی ضرورت اگر تحقیق کرنے پر صحیح ثابت ہو تی ہے تو اسکی ضرور مدد کی جاتی ہے۔ ایک مرتبہ سعودی ریڈیو کی اردو نشریات پر میرا انٹرویو نشر ہوا جس میں مجھ سے اسی قسم کا سوال کیاگیا کہ سنا ہے کہ آپ لوگ صرف میمن کمیونٹی ہی کیلئے اور کمیونٹی کے اندر ہی فلاحی کام کرتے ہو؟ میںنے اس بات پر تفصیلی جواب دیا کہ میمنوں کے مدرسوں میں صرف میمن فیملی علم حاصل نہیں کرتیں۔ میمنوں کے اسپتالوں میں صرف میمن ہی کا علاج نہیں ہوتا، میمن کے یتیم خانوں میں صرف میمن ہی کے بچے نہیں ہوتے۔ میمن کی مساجد میں صرف میمن ہی نماز نہیں پڑھتے ۔دنیا کے سب سے بڑے سماجی کارکن عبدالستار ایدھی کے تمام فلاحی اداروں میں صرف میمن ہی مستفید نہیں ہورہے۔ یوں ایک طویل فہرست پیش کی۔
اردو نیوز: آپ نے بتایا کہ ماشاءاللہ آپ کے بیٹے کینیڈا اور کیلی فورنیا میں مقیم ہیں۔ آپ کا کیا ارادہ ہے اگر کبھی سعودی عرب سے جانا ہو تو کہاں منتقل ہونگے؟
طیب موسانی: الحمد اللہ ہمارے بیٹوں کو اللہ تعالیٰ نے اس قابل کردیا کہ ایک کینیڈا میں اور دوسرا کیلیفورنیا میں مستقل آجانے کا ہمیں اصرار کرتے رہتے ہیں لیکن ابھی تک سوچا نہیں کہ مستقل پاکستان جائیں، کینیڈا میں یا کیلیفورنیا میں۔ سارا دارومدار یہاں روزگار پر ہے اور اللہ تعالیٰ کی مرضی پر ، کہ ہمیں کہاں اور کب مستقل ٹھکانہ حاصل ہوگا۔ فی الحال سعودی عرب میں دال دلیا بھی مل رہا ہے اور مکہ ، مدینہ کی زیارتیں بھی نصیب ہورہی ہیں۔ مستقبل کا واللہ عالم۔
اردو نیوز : پاکستان منتقل ہونے کے بارے میں کیو ں نہیں سوچتے؟ اپنا ملک یاد نہیں آتا کیا؟
طیب موسانی :جناب کچھ لوگ تو ذریعہ معاش میں سرگرداں بیرون ملک جاکر اپنے عزیز و اقارب و حلقہ احباب کو بھول جاتے ہیں جبکہ ہمارا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ سال میں دو تین مرتبہ پاکستان جانا، اپنے عزیز و اقارب ، احباب و کمیونٹی کی فلاحی تنظیموں سے تعلقات قائم رکھنا اس بات کی دلیل ہے کہ ہمیں پاکستان بہت یاد آتا ہے اور ہم نے وہی رشتہ ناتہ اپنے ملک سے جوڑا ہوا ہے جو سعودی عرب آنے سے پہلے تھا۔ پاکستان بھی ہمارے مستقل قیام کی فہرست میں شامل ہے۔ 
  اردو نیوز: کراچی میں گزرا وقت کیسے یاد کرتے ہیں۔میمن سوسائٹی، برنس روڈ کے چھولے، کوئی ہلا گلا، شرارتیں،" لنگوٹیا " یاروں سے سرگوشیاں ، کیا سب کچھ بھول گئے؟
طیب موسانی :کیا دل کی بات کی ہے آپ نے، آپ کا سوال دل کو شدت سے چھو کر مجھے ہلا گیا کہ کراچی میں گزرا وقت ، ساحل سمندر کے سیر سپاٹے، برنس روڈ کے دہی بھلے، فریسکو کی رس ملائی و جلیبی، بندوخان کے تکے، مختلف جگہوں کے چاٹ چھولے سب کچھ اسی طرح یاد آتا ہے جس طرح ایک عید سے دوسرے عید تک عید ہی عید کا ذکر ہوتا ہے۔ اسکے لئے میں ریشماں کا گایا ہوا ایک گیت کا بند اکثر گنگنا ہوں۔ معلوم نہیں لکھا کس نے ہے لیکن لگتا ہے ہمارے لئے لکھا ہے:
اکثر شب تنہائی میں، کچھ دیر پہلے نیند سے، گزری ہوئی دلچسپیاں، گزرے ہوئے دن عیش کے
بنتے ہیں شمع زندگی اور ڈالتے ہیں روشنی، میرے دل صدچاک بھر، اکثر شب تنہائی میں
اردو نیوز: موسانی صاحب معذرت کے ساتھ مگر ایک جملہ مشہور ہے " چمڑی جائے دمڑی نہ جائے" مگر آپ کے فلاحی کام کو دیکھ کر یہ جملہ صحیح نہیں لگتا۔
طیب موسانی :پاکستان کی تاریخ میں میمن صنعتکار سر آدمجی کا نام سب کو یاد ہے کہ جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد بانی پاکستان محمد علی جناح کو بلینک چیک دیا تھا کہ جتنی رقم چاہیئے لے لیں ۔پوری دنیا میں اتنے فلاحی کام کرنے اور لوگوں کی بلاامتیاز مدد کرنے کے باوجود بھی اگر یہ کہیں کہ چمڑی جائے دمڑی نہ جائے، میمن برادری سے ناانصافی ہوگی۔ اگر برا نہ مانیں تو چمڑی دمڑی والی کہاوت کئی برادریوں پر صادق آتی ہے۔ خواہ وہ پاکستان ہو یا ہندوستان لیکن کسی ایک برادری سے اسے منسوب کرنا نامناسب ہے۔
اردونیوز: پردیس میں اتنا وقت گزار لیا، پاکستان جاتے ہیں تو کچھ اجنبیت محسو س نہیں ہوتی ؟ دوست رشتہ داروں کا رویہ کیسا ہوتا ہے؟
  طیب موسانی : کئی لوگوں کا المیہ ہے کہ اپنے ملک جاکر اجنبیت محسوس کرتے ہیں۔ دوست احباب و رشتہ داروں کا رویہ نامناسب ہوتا ہے لیکن ہمارے ساتھ معاملہ برعکس ہے۔ ہماری سماجی و فلاحی خدمات نے ہمیں اپنے ملک میں اور بیرون ملک بھی جوڑا ہوا ہے۔ اجنبیت کا کہیں بھی شائبہ تک نہیں۔
اردو نیوز: ماں باپ اور بھائی بہن کے ساتھ گزرا بچپن سنہرا ہوتا ہے کبھی یاد آتا ہوگا۔ کوئی خاص بات تو ہم سے شیئر کریں؟
طیب موسانی :بچپن کے دن بھلا نہ دینا۔ کئی یادیںہیں لیکن ہم 3 بھائیوں میں سب سے بڑے عبداللطیف فوجی جرنیل سے کم نہیں تھے جبکہ منجھلے عثمان غنی بہت ہی ہنسی مذاق کرنے والےس، بھائی کم دوست زیادہ تھے۔ میں سب سے چھوٹا تھا۔ منجھلے بھائی اور میرے میں اسکول میں شکل میں کافی مشابہت تھی۔ شرارت وہ کرتے اور کھنچائی میری ہوتی تھی۔ وہ دن بہت یاد آتے ہیں۔ شرارت کرکے وہ کہیں چلے جاتے اور میری پکڑ ہوجاتی تھی۔
******

شیئر: