پاکستان مسلم لیگ ن کی منشور کمیٹی کے سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ ’یہ تاثر مل رہا ہے کہ کچھ نگراں حکومتیں انتخابات میں التوا اور نگراں سیٹ اپ میں توسیع کے لیے کوشاں ہیں۔ انہیں ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی ہم ایسا کرنے دیں گے۔‘
مزید پڑھیں
اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ ’انتخابات میں پہلے ہی تاخیر ہو چکی ہے۔ 8 فروری کو جب انتخابات ہوں گے تو پنجاب اور خیبر پختونخوا کی نگراں حکومتیں 90 دن کی آئینی مدت کے برعکس ایک سال سے بھی طویل عرصہ گزار چکی ہوں گی جبکہ وفاقی حکومت چھ ماہ سے زائد عرصے تک مسند اقتدار پر براجمان رہ چکی ہوگی جو کہ طویل عرصہ ہے۔‘
’معاملہ کچھ یوں ہے کہ بعض اخبارات میں چھپنے والے کالموں کے بعد یہ تاثر اُبھر رہا ہے کہ وفاقی اور پنجاب کی نگراں حکومتیں نگراں سیٹ اپ میں توسیع کی خواہاں ہیں اور اس سلسلے میں باضابطہ کوشاں بھی ہیں۔‘
اردو نیوز نے اس سلسلے میں اعلٰی سطح کے حکومتی ذرائع سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ تاثر کافی حد تک درست بھی ہے۔ حکومتی ذرائع یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت جو موجودہ ملکی معاشی صورت حال ہے اور اس میں بہتری کے لیے ہونے والی کوششوں بالخصوص مستقبل قریب میں ہونے والی غیرملکی سرمایہ کاری انتخابات کے باعث تاخیر کا شکار ہو سکتی ہے۔ اس لیے معیشت میں قدرے بہتری کے بعد انتخابات کی طرف جایا جائے۔
دوسری جانب اس صورت حال پر جب نگراں وزیراطلاعات مرتضیٰ سولنگی سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’آئین کے اندر 280 آرٹیکل موجود ہیں، آئین کے اندر صرف 90 دن میں انتخابات کا آرٹیکل نہیں، اس میں آرٹیکل 254 بھی موجود ہے۔‘

اسی حوالے سے حکومتی ذرائع نے بتایا کہ ’نگراں سیٹ اپ میں توسیع اور انتخابات کے التوا کے معاملے پر بات چیت نگراں وزیراعظم کے دورہ متحدہ عرب امارات کے بعد طے ہے۔‘
’جب وزیراعظم واپس آئیں گے تو تمام سٹیک ہولڈرز مل بیٹھیں گے پھر اس پر بات چیت ہوگی۔ اس معاملے پر سوچ سمجھ کر ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔‘
اس سلسلے میں مسلم لیگ ن کا موقف جاننے کے لیے سینیٹر عرفان صدیقی سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں کچھ نگراں حکومتوں کی جانب سے انتخابات کے التوا کی کاوشوں کے بارے میں تاثر مل رہا ہے، تاہم انتخابات کے مزید التوا سے آئینی بحران پیدا ہوگا۔‘
’صدر پہلے ہی توسیع پر چل رہے ہیں۔ مارچ میں سینیٹ بھی غیر فعال ہو جائے گی۔ کوئی منتخب ایوان موجود نہیں ہوگا جس سے عدم استحکام پیدا ہوگا۔ اس کے خارجہ محاذ اور آئی ایم ایف سمیت دیگر فورمز پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔‘
