ناروے میں قائم ہینگاو اور ایران ہیومن رائٹس (IHR) گروپوں نے الگ الگ بیانات میں کہا ہے کہ ’پھانسی کی سزا پانے والا نابالغ تھا۔‘
فارسی زبان کے سیٹلائٹ ٹی وی چینل ایران انٹرنیشنل نے پھانسی کی اطلاع دیتے ہوئے بتایا ہے کہ حامد آذری اپنے خاندان کا واحد سہارا تھا اور کم عمری کے باوجود چند سال پہلے سے وہ سکریپ کا کام کرتا تھا۔
دونوں ہیومن رائٹس گروپوں نے دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جرم سرزد ہونے کے وقت حامد کی عمر 16 سال تھی اور جب پھانسی دی گئی تو اس کی عمر 17 سال تھی۔
دستاویزات میں مبینہ طور پر بتایا گیا ہے کہ مئی میں ہونے والے جھگڑے میں ایک شخص کو قتل کرنے کے جرم میں آذری کو موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
ہیومن رائٹس گروپوں کا کہنا ہے کہ پھانسی کی یہ سزا ایران کی جانب سے اقوام متحدہ کے 18 سال سے کم عمر نوجوانوں کے حقوق کے کنونشن کی ایک اور خلاف ورزی ہے۔
ایران میں رواں سال کم سے کم 684 افراد کو پھانسی دی گئی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ایران ہیومن رائٹس (IHR) گروپ کا کہنا ہے کہ ایران ان چند ممالک میں سے ہے جہاں 18 سال سے کم عمر مجرموں کو سزائے موت دی جاتی ہے۔
ایران ہیومن رائٹس کے ڈائریکٹر محمود عامری موغدم نے کا کہنا ہے کہ ’ایران میں اگر کوئی ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کی عمر 18 سال ہونی چاہیے لیکن پھانسی کے لیے 15 سال کی عمر ہی کافی ہے۔‘
اعدادوشمار کے مطابق 2010 سے اب تک ایران میں کم سے کم 68 نابالغوں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔
ایران ہیومن رائٹس گروپ کے مطابق ایران میں رواں سال کم سے کم 684 افراد کو پھانسی دی گئی ہے، جن میں زیادہ تر مجرموں پر منشیات سے متعلق اور قتل کے الزامات تھے۔