Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
پیر ، 09 جون ، 2025 | Monday , June   09, 2025
پیر ، 09 جون ، 2025 | Monday , June   09, 2025

زن و شو کی تضمینِ محبت ’’اولاد‘‘

ساحل کی ریت پر رکھے جانے والے قدم کا نقش اس وقت تک نہیں مٹتاجب تک کوئی دوسری لہراسے پامال نہ کردے
- - - - - - - - - -
شہزاد اعظم۔جدہ
-  - - --  - - - -
10جنوری1996ء: دل کا موسم بھی عجب ہے ، حَسین ہو تو اذیت کو احساسِ نشاط سے معمور کر دیتا ہے اور اُداس ہو تو نشاط کو بھی اذیت سے چُور کر دیتا ہے۔ یہ موسم حَسین ہو تو دھوپ کی تمازت میں زندگی کی حرارت کا احساس دلاتا ہے اور اُداس ہو تو وجودکودہکاتا ہے ۔یہ موسم حَسین ہو توسرد ہوا جسم و جاں میں قرار بن کر اترتی ہے اور اُداس ہوتو روح میں خار بن کر چبھتی ہے ۔ دل کا موسم حَسین ہو تو بدلی کا سایہ بھی گھنیرا لگتا ہے اور یہ موسم اُداس ہو تو سایۂ دیوار بھی اندھیرا لگتا ہے۔دل کا موسم حَسین ہوتوالجھی ہوئی لَٹ بھی ہوا کی اٹکھیلی لگتی ہے اور یہ موسم اُداس ہو توگندھی ہوئی زلف بھی اک پہیلی لگتی ہے۔دل کا موسم حَسین ہو تو سوکن بھی سہیلی لگتی ہے اور یہ موسم اُداس ہو تواپنی ذات بھی اکیلی لگتی ہے۔ان حقیقتوں کا ادراک مجھے اس وقت ہوا جب شہروزنے رہِ حیات میں مجھے تنہاء چھوڑ دیا۔
ان کی بے وفائی نے میرے دل کا موسم اُداس کر دیا۔ اب میری زندگی اک ایسی کہانی بن چکی ہے جوصرف مناہل کے گرد گھومتی ہے۔میں اسے ڈاکٹر بنانا چاہتی ہوں ، اسی کے لئے زندہ رہنا چاہتی ہوں۔ شہروز کومیں بھول جانا چاہتی ہوں مگرنجانے کیوں، کوشش کے باوجود بھلا نہیں پاتی ہوں۔ شہروز اور اس کی یادوں کو فراموش کرنا اس قدر مشکل کیوں ہے ، یہ سوال میں اپنے دل سے کرتی ہوں مگر ذہن جواب دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ساحل کی ریت پر رکھے جانے والے قدم کا نقش اس وقت تک نہیں مٹتاجب تک کوئی دوسری لہراسے پامال نہ کردے۔یہ خاموش جواب میری سماعتوں پر بجلی بن کر گرتا ہے اور میں سہم کر رہ جاتی ہوں۔
میں نے کتنی ہی مرتبہ ا پنی سوچوں کو مناہل تک محدود رکھنے کامصمم عزم کیا مگر مناہل نے ہی ہر بارمیرے اس عزم کوچکناچور کیا۔ آج بھی ایسا ہی ہوا۔ مناہل اردو کا سبق یاد کر رہی تھی۔ اس نے مجھ سے سوال کیا کہ ’’مما! تضمین کیا ہوتی ہے، میری سمجھ میں نہیں آ رہا، مجھے سمجھائیں؟‘‘میں نے اسے بتایا کہ ’’بیٹی! ایک شعر کے دو مصرعے ہوتے ہیں، یوں کہہ لیجئے کہ دومصرعے مل کر ایک شعر بناتے ہیں۔ اگر اس شعر میں ایک مصرع کسی ایک شاعر کا ہو اور دوسرا مصرع کسی دوسرے شاعر کا، تو اسے دومصرعوں کی تضمین کہا جائے گا۔‘‘ مناہل حسبِ معمول باتیں بناتے اور سبق سناتے سناتے خوابوں کی دنیا میں چلی گئی اور میں یادوں کی دنیا میں دور نکل گئی ۔
مناہل کی باتیں سن کر، اس کی ادائیں دیکھ کر مجھے شہروزیاد آتے ہیں۔اس وقت بھی مناہل بالکل اپنے پاپا کی طرح دونوں ہاتھ گال کے نیچے رکھے کروٹ لئے سو رہی تھی۔میں اس کے پاس بیٹھی اسے بغور دیکھ رہی تھی ، اسے دیکھتے دیکھتے مجھے خیال آیا کہ اولاد کیا ہے ؟ یہ بھی تو زن و شو کی محبت کی تضمین ہے ۔میری سوچ’’ دنیائے ادب ‘‘میں صرف تضمین تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ ذہن نے پھر ایک سوال کیا کہ کیا تم بتا سکتی ہو کہ مناہل تمہاری اور شہروز کی بیٹی ہے ، اس تضمین میں تمہارا مصرع کیا ہے ؟ذہن کے اس سوال پر دل نے گویا فی البدیہہ جواب دینا شروع کر دیا کہ میرا مصرع نزاکت ہے، نرمی ہے، پیار ہے ، محبت کی گرمی ہے،تحفظ کی پیاس ہے ، بے لوث رفاقت کی آس ہے،کسی کی ہو کر جینے پیمان ہے، اسی کے صحنِ دل میں باغبانی کا ارمان ہے ، یہی صنفِ نازک کی پہچان ہے۔

شیئر: