پاکستان میں انتخابات کی تاریخ کے معاملے پر ایک عرصے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور صدر مملکت آمنے سامنے تھے۔ سابق حکومت نے صدر کے کردار کو محدود کرنے کے لیے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا سہارا لے کر تاریخ کے تعین کا اختیار الیکشن کمیشن کو دے دیا تھا۔
لیکن سپریم کورٹ میں انتخابات کے حوالے سے گذشتہ روز ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیے کہ صدر مملکت 90 روز میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کر کے آئینی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ انھوں نے اس معاملے پر الیکشن کمیشن کو صدر سے مشاورت کا پابند بنایا اور اتفاق رائے سے 8 فروری کی تاریخ طے پائی۔
اس سے یہ تاثر مضبوط ہوا کہ جو حلقے اس بات پر زور دے رہے تھے کہ الیکشن کی تاریخ دینا صدر مملکت کا اختیار ہے وہ درست تھے، جبکہ حکومت کی الیکشن ایکٹ میں ترمیم غلط تھی۔ لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات کے نوٹیفکیشن میں صدر کے ساتھ مشاورت اور الیکشن کی تاریخ دینے کے صدارتی اختیار کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔
مزید پڑھیں
-
عام انتخابات کی تاریخ سامنے آنے پر سیاسی جماعتیں کیا کہتی ہیں؟Node ID: 808656
انتخابات کی تاریخ کس نے دینی ہے، معمہ حل نہ ہوسکا
الیکشن کمیشن نے اپنے نوٹیفکیشن میں باور کرایا ہے کہ انتخابات کی تاریخ الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت دیے گئے تمام اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے دی جا رہی ہے۔ یہی نوٹیفکیشن سپریم کورٹ میں زیررسماعت مقدمے میں بھی پیش کیا گیا ہے۔
اس کے بعد یہ سوال مزید اہم ہو گیا ہے کہ مستقبل میں اتنخابات کی تاریخ دینے کا اختیار کس کا ہے؟
سپریم کورٹ میں جب یہ نوٹیفیکیشن پیش کیا گیا چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ ’کسی نے آئین کی شق 48(5) کا حوالہ نہیں دیا۔‘ لیکن ساتھ ہی انھوں نے کہہ دیا کہ ’انتخابات کی تاریخ دینا کس کا اختیار ہے یہ پھر کسی وقت طے کریں گے۔‘
اس حوالے سے آئینی ماہر عارف چوہدری نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’بنیادی طور یہ اختیار صدر کا ہی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 48(5) بڑا واضح ہے کہ صدر اسمبلی تحلیل کرنے کے بعد انتخابات کی تاریخ بھی دے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جہاں تک موجودہ صورت حال کا معاملہ ہے تو سپریم کورٹ کو اس حوالے سے تمام ابہام دور کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں واضح کر دینا چاہیے کہ یہ اختیار صدر ہی کا ہے اور صدر ہی تاریخ دینے کے اہل اور پابند ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کو اختیار الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کرکے دیا گیا ہے جو غیر آئینی ہے۔ ایسا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ صدر کا اختیار آئین کے تحت اور گورننس کا معاملہ ہے اور الیکشن کمیشن کا کام نہیں ہے۔ تاہم سپریم کورٹ کو اس ترمیم کے حوالے سے بھی لازمی طور پر فیصلہ کرنا چاہیے۔‘
آئینی ماہر حافظ احسان کھوکھر ایڈووکیٹ کے مطابق ’آئین پاکستان اور الیکشن ایکٹ کے تحت انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔ صدر کے پاس قومی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار صرف اس صورت میں ہے کہ جب تحریک عدم اعتماد کے بعد کوئی رکن بھی قائد ایوان منتخب نہ ہوسکے۔ ایسی صورت میں صدر اسمبلی تحلیل کرکے قومی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ مقرر کر سکتے ہیں۔ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن ہی کر سکتا ہے۔‘
