حضرت حنظلہ بن الربیع ؓ مشہور کاتبینِ میں سے ہیں،آپ ؓ تمام کاتبین کے نائب تھے ،یہی وجہ ہے کہ آپ ؓ ’’الکاتب‘‘ سے جانے جاتے تھے
****مولانا اشتیاق احمد۔دیوبند***
(گزشتہ سے پیوستہ)
پہلی قسط میں7کاتبینِ رسول کا ذکر کیا گیا تھا،باقی کا ذکر پیش خدمت ہے۔ حضرت ارقم بن ابی ارقم ؓ: انہی کے گھر میں حضرت عمر ؓنے اسلام قبول کیا تھا، اس کے بعد ہی کھلم کھلا اسلام کی دعوت دی جانے لگی۔ یہ گھر کوہِ صفا کے دامن میں تھا، اسے دعوتِ اسلام کا پہلا خفیہ مرکز کہا جا سکتا ہے۔حضرت ارقم ؓ ساتویں مسلمان تھے اور حضرت عمر ؓ چالیسویں مسلمان تھے۔حضرت ارقمؓ نے تمام غزوات میں حصہ لیا، سرکارِ دوعالمنے آپ کو صدقات جمع کرنے پر مامور فرمایا تھا اور مدینہ طبیہ میں ایک حویلی بھی عنایت فرمائی تھی (الاصابہ)۔ متعدد مؤرخین نے آپ کا نام کاتبینِ دربارِ رسالت میں لکھا ہے، مثلاً ابن کثیر، ابن سید الناس، عراقی اور انصاری وغیرہ ( البدایہ والنہایہ، عیون الاثر، المصباح المضئی)۔
علامہ ابن کثیرؒ نے یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ حضرت ارقم رضی اللہ عنہ نے سرکارِ دوعالم کے حکم سے عظیم بن الحارث المحاربی کو ایک بہت بڑی جاگیر لکھ دی تھی (البدایہ والنہایہ)۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہؒ کی مشہور و معروف کتاب’’ الوثائق السیاسیہ‘‘ میں وثیقہ نمبر84، 88،176،212پر بحیثیت کاتب حضرت ارقمؓ کے دستخط موجود ہیں۔ آپ کی عمر 80 سال سے زائد ہوئی۔ بعض نے حضرت صدیق اکبر ؓ کی وفات کے دن آپ کی وفات لکھی ہے اور بعض نے55ھ بتائی ہے۔
وصیت کے مطابق آپ کی نمازِ جنازہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے پڑھائی (اسد الغابہ)۔ حضرت بریدہ بن الحصیب ؓ: حضرت بریدہ ؓ نے رسول اللہ کی ہجرت کے وقت ایمان قبول کیا اور غزوۂ احد کے بعد مدینہ تشریف لائے اور سرکارِ دوعالم کے ساتھ 16غزوات میں شریک ہوئے (اسد الغابہ ، الاصابہ ) ۔ متعدد مؤرخین نے آپ ؓ کا نام کاتبینِ دربار رسالتؐ میں شمار کیا ہے، مثلاً: ابن سیدا لناس، عراقی اور انصاری وغیرہ (عیون الاثر ، المصباح المضئی )۔ حضرت بلال بن سراج بن مجاعہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے ان کے والد کو یمن میں ایک جاگیر عطا فرمائی تھی، جس کی تحریر حضرت بریدہؓ نے لکھی تھی، وہ درج ذیل ہے: ’’محمد رسول اللہ() کی طرف سے مجاعہ بن مرارہ کے لئے جو بنی سلم سے ہے کہ میں تم کو ایک سرحدی زمین دیتا ہوں ،جو کوئی تم سے اس معاملہ میں جھگڑا کرے اْسے چاہیے کہ میرے پاس آئے‘‘ (المصباح المضئی )۔
حضرت ثابت بن قیسؓ: آپؓ رسول اللہکے خطیب تھے جس طرح حضرتِ حسان بن ثابت ؓ کو آپ کے شاعر ہونے کا شرف حاصل ہے (اسد الغابہ) ۔ جب سرکارِ دوعالم مدینہ منورہ ہجرت کرکے تشریف لائے تو حضرت ثابت ؓنے تقریر کی اور فرمایا کہ ہم دشمنوں سے آپ کی اس طرح حفاظت کرینگے جس طرح اپنی جان اور اولاد کی حفاظت کرتے ہیں لیکن اسکے بدلے ہمیں کیا ملے گا؟ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: جنت! اس پر پورے مجمع نے خوشی کا اظہار کیا اور بیک زبان ہو کر سب بول پڑے: ہم اس پر خوش ہیں (الاصابہ )۔ آپؓ دربارِ رسالت مآبکے کاتبین میں سے ہیں۔ ابن کثیر، ابن سعد، ابن سیدا لناس، مزّی، عراقی اور انصاری نے اس کی صراحت کی ہے(البدایہ والنہایہ، طبقات بن سعد ، تہذیب الکمال)۔ ڈاکٹر محمدمصطفی اعظمی لکھتے ہیں: ’’ڈاکٹر حمیداللہ نے ’’الوثائق السیاسیہ‘‘ میں وثیقہ نمبر 157میں تحریر کنندہ کا نام قیس بن شماس الرویانی لکھا ہے لیکن صحابہ کرام ؓ میں اس نام کا کوئی شخص نہیں ہوا، شاید یہ ثابت بن قیس بن شماس ہوگا‘‘ (نقوش )۔ آپؓ کی شہادت جنگ یمامہ میں11ھ کو ہوئی (اسد الغابہ،الاصابہ، الاستیعاب)۔
حضرت جعفرؓ: ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی رقم طراز ہیں: ’’بیہقی کی ابن اسحاق والی روایت کے سوا میں نے کاتبینِ رسول اللہ میں حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کا نام کسی کو ذکر کرتے نہیں پایا (الاصابہ) ۔ مزید بر آں یہ کہ میرے نزدیک یہ شخصیت بھی غیر واضح ہے کیونکہ اس نام کے متعدد صحابہ کرام ؓ تھے، شاید یہ جعفر بن ابی طالب ؓ ہیں یا جعفر بن ابی سفیان ؓ ۔ بیہقی میں ہے کہ جب کبھی حضرت زید ؓ اور عبداللہ ا بن ارقم ؓ وقت پر موجود نہ ہوتے اور کسی کماندار کو، کسی بادشاہ کو یا کسی دوسرے انسان کو کوئی چیز لکھ کر دینا ہوتی تو حضرت جعفر ؓ سے لکھوا لیتے تھے… الخ‘‘ (السنن الکبریٰ للبیہقی)۔ حضرت جہم بن سعد ؓ: ابن حجر کی روایت ہے کہ حضرت جہم ؓ کو القفاعی نے کاتبینِ رسول اللہ میں شمار کیا ہے اور لکھا ہے کہ حضرت زبیر ؓ اور جہم ؓ اموالِ صدقہ لکھا کرتے تھے، اسی طرح مفسر قرطبیؒ نے بھی اپنی تالیف ’’مولد النبی ‘‘ میں کاتبین میں آپؓ کا ذکر کیا ہے، اسکے علاوہ عراقی اور انصاری نے بھی آپؓ کا شمار کاتبین کے ضمن میں کیا ہے(الاصابہ، شرح الفیہ عراقی، المصباح المضئی )۔ حضرت جُہیم بن الصلت ؓ : آپ کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے:جہیم بن الصلت مخرمہ بن المطلب بن عبد مناف قرشی ؓ ہے۔ ابن الاثیر اور بن عبدالبر نے لکھا ہے کہ آپ فتح خیبر کے سال مسلمان ہوئے اور ابن سعد کی روایت ہے کہ آپ فتحِ مکہ کے بعد مسلمان ہوئے (الاستیعاب ، اسد الغابہ) ۔
بلاذری نے لکھا ہے کہ جہیم بن الصلت زمانۂ جاہلیت سے لکھنا جانتے تھے، اسلام لانے کے بعد بھی آپ نے لکھا۔ سرکارِ دوعالمکے حکم پر بھی لکھا ہے (الاصابہ )۔ اُن سے اموالِ صدقہ کی تفصیلات لکھنے کی روایت بھی ملتی ہے (التنبیہ والاِشراف ) ۔ حضرت جْہیم کے دربارِ رسالت مآبکے کاتب ہونے کی صراحت ابن شبہ، یعقوبی، ابن مسکویہ، ابن سید الناس، ابن حجر، عراقی، انصاری نے بھی کی ہے ( المصباح المضئی، تاریح یعقوبی)۔ حضرت حاطب بن عمر ؓ: سلسلۂ نسب اس طرح ہے:حضرت حاطب بن عمرو بن عبدالشمس بن عبد وَدّ قرشی عامری رضی اللہ عنہ ابتدائی دور میں ہی مکہ مکرمہ میں اسلام قبول کیا، حبشہ کی طرف ہجرت کی، جنگِ بدر میں شریک ہوئے۔آپؓ نے دربارِ رسالت میں کتابت کا شرف حاصل کیا۔ ابن مسکویہ، ابن سیدالناس عراقی اور انصاری وغیرہ نے اس کی صراحت فرمائی ہے(تجارب الامم ، عیون الاثر، شرح الفیہ عراقی)۔ حضرت حذیفہ بن الیمانؓ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سرکارِ دوعالمکے بڑے معتمد تھے۔
یمن کے رہنے والے تھے۔حضرت عمر ؓ کے عہدِ خلافت میں جب کوئی وفات پا جاتا تو حضرت عمرؓ فرماتے: اگر حذیفہ اسکے جنازہ میں شریک ہوں گے، تو ہی عمر ؓ شامل ہوگا، اگر وہ شامل نہ ہوں گے، تو میں بھی نہ ہوں گا (الاصابہ)۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اپنے ساتھیوں سے کہا: کوئی تمنا کرو! انہوں نے تمنا کی کہ اے کاش! ان کے وہ گھر جن میں وہ رہتے ہیں جواہرات اور دینار و درہم سے بھرا ہو اور وہ ان سب کو اللہ کی راہ میں خرچ کر دیں! لیکن حضرت عمر ؓ نے فرمایا : میری تمنا ہے کہ میرے پاس ابو عبیدہ بن الجراح، معاذ بن جبل اور حذیفہ بن الیمان ؓ جیسے لوگ ہوں، جن کو میں اللہ کی اطاعت کیلئے عامل مقرر کروں(اسد الغابہ )۔ آپ ؓ دربارِ رسالت مآب کے کاتبین میں سے ہیں۔اس کی صراحت قرطبی، ثعلبی، عراقی اور انصاری نے کی ہے، ان سب نے لکھا ہے: ’’حضرت حذیفہ ؓ کھجور کی چھال پر لکھاکرتے تھے اور مسعودی نے لکھا ہے کہ حضرت حذیفہ ؓ حجاز کی متوقع آمدنی کے گوشوارے مرتب فرمایا کرتے تھے (المصباح المضئی )۔ آپ ؓ کی وفات حضرت عثمان غنی ؓ کی شہادت کے بعد23ھ میں ہوئی (الاستیعاب )۔
حضرت حصین بن نمیر ؓ: الوزراء والکْتّاب میں ہے: حضرت حصین بن نمیر ؓ اور حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ لوگوں کے معاملات لکھا کرتے تھے اور انصاری نے لکھا ہے کہ آپ دونوں حضرات قرض اور معاملات تحریر فرماتے تھے۔ابنِ مسکویہ نے بھی آپ کو کاتبینِ رسول اللہ میں شمار کیاہے اور لکھا ہے کہ مذکورہ بالا دونوں شخصیات عوام الناس کے معاملات بھی لکھا کرتے تھے اور حضرت خالد ؓ اور حضرت معاویہ ؓ کی عدم موجودگی میں ان کی نیابت میں کتابت فرماتے تھے (تجارب الامم) ۔آپ کے کاتبینِ رسول اللہ میں سے ہونے کی صراحت عراقیؒ اور یعقوبیؒ نے بھی کی ہے (شرح الفیہ عراقی، تاریخ یعقوبی) حضرت حنظلہ بن الربیع ؓ: حضرت حنظلہ بن الربیع بن صیفی بن ریاح تمیمی رضی اللہ عنہ بڑے مشہور ومعروف جلیل القدر صحابی ہیں۔ ایک موقع سے سرکارِ دوعالم نے ارشاد فرمایا : ’’ تم لوگ ان کی اوران جیسوں کی اقتداء کیا کرو! ‘‘(اسد الغابہ)۔ آپ مشہور کاتبینِ رسول اللہ میں سے ہیں، اس میں کوئی شبہ نہیں ۔ الوزراء والکتاب میں ہے کہ آپ ؓ تمام کاتبین کے نائب تھے، اور ہر ایک کے غیر حاضر ہونے کی صورت میں لکھتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ آپ ؓ ’’الکاتب‘‘ سے جانے جاتے تھے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آپ ؓ کو کاتب النبیسے تعبیر کیا ہے (التاریخ الکبیر)۔ اور امام مسلم نے بھی ایسا ہی لکھا ہے (الطبقات لمسلم بن حجاج)۔ اور طبقات ابن سعد میں بھی اس کی صراحت موجود ہے (طبقات بن سعد) ۔ رسول اللہ اپنا مہر حضرت حنظلہ ؓ کے پاس رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ ہر تیسرے دن مجھے تمام لکھایاہوا یاد دِلا دیا کرو! چنانچہ حضرت حنظلہ ؓ ہر تیسرے دن سرکارِ دوعالم کو تمام اموال اور طعام وغیرہ جو آپ کی تحریری تحویل میں ہوتایاددِلادیاکرتے تھے اور سرکارِ دوعالم ان اموال کو سونے سے پہلے تقسیم فرما دیا کرتے تھے (الوزراء والکتاب)۔
آپ ؓ کے کاتبِ دربارِ رسالت مآب ہونے کی صراحت ابن حجر، ابن کثیر، ابن سید الناس، ابن الاثیر، ابن شبہ، یعقوبی، مزی، عراقی، انصاری اور مسعودی وغیرہ نے کی ہے (الاصابہ، البدایہ والنہایہ)۔ آپ ؓ نے حضرت امیر معاویہ ؓ کے عہد خلافت میں وفات پائی (الاصابہ)۔ حضرت حویطب بن عبد العزّیٰ ؓ: آپ ؓ نے فتحِ مکہ کے سال8 سال کی عمر میں ایمان قبول فرمایا۔آپ ؓ کے کاتبینِ رسول اللہ میں سے ہونے کی صراحت ابن مسکویہ، ابن سید الناس، عراقی اور انصاری نے کی ہے(الاستیعاب، تجارب الامم، عیون الاثر المضئی)۔ حضرت خالد بن سعید بن العاص ؓ: آپ سابقین اولین میں سے ہیں۔حضرت صدیق اکبر ؓ کے بعد ہی اسلام قبول فرمایا تھا، بعض روایات کے مطابق تیسرے چوتھے یا پانچویں مسلمان ہیں۔ سرکارِ دوعالم نے آپ کو مذحج اور صفاء الیمین کے صدقات کا عامل مقرر فرمایاتھا۔رحلتِ نبی تک آپ اس عہدہ پر فائز تھے (الاستیعاب)۔ حضرت خالد بن سعید ؓ سرکارِ دوعالم کی خدمت میں تمام امور کی کتابت فرماتے تھے (التنبیہ والاشراف) اور ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ نے ’’الوثائق السیاسیہ‘‘ میں درج ذیل وثائق میں کاتب کی حیثیت سے آپؓ کا اسم گرامی رقم فرمایا ہے: (وثیقہ:19،20،114،202، 213،214، اور223)۔
سب سے پہلے ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ کی کتابت حضرت خالد بن سعید العاص ؓ نے کی تھی (الاصابہ) ۔آپ مکہ مکرمہ میں وحی کی کتابت سے بہرہ ور ہوئے اور جب مدینہ منورہ تشریف لائے، تو بنیٔ اکرم کے دربار میں خطوط نویسی کا شرف حاصل ہوا۔ طبری کی صراحت کے مطابق حضرت خالد بن سعید ؓ کو خدمتِ نبویؐ میں بیٹھ کر ضروریات ومعاملات لکھنے کا شرف بھی حاصل ہے۔ بہت سے مؤرخین نے آپ کا ذکر کاتبینِ رسول اللہ میں کیا ہے۔ان میں سرفہرست: ابن اسحاق، ابن سعد، ابن شبہ، طبری، جہشیاری، ابن الاثیر، ابن کثیر، مزی، عراقی، ابن سید الناس، ابن مسکویہ اورانصاری وغیرہ ہیں ( البدایہ والنہایہ، طبقات ابن سعد)۔ ایک قول کے مطابق حضرت خالد بن سعید ؓ کی شہادت14ھ میں ہوئی (الاصابہ)۔
(جاری ہے)