Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
اتوار ، 08 جون ، 2025 | Sunday , June   08, 2025
اتوار ، 08 جون ، 2025 | Sunday , June   08, 2025

یہ ’’بزمِ اتحاد‘‘ نے کیا کام کر دیا

جدہ میں ’’شبِ گویا‘‘ کا اہتمام جو ’’ چھٹا سالانہ مشاعرہ بیادِسالارِ ملت2017ء ‘‘ کے زیر عنوان سجائی گئی تھی
- - - - - - -  - - -
شہزاد اعظم۔جدہ
 - - - - - - - - -
عربی چونکہ قرآن کریم کی زبان ہے ، انتہائی مبارک اور اہم مقام کی حامل ہے، اس لئے عربی سے ہٹ کر دیگر زبانوں کے بارے میں ہم یہ وضاحت کرنا ا پنا’’ فرضِ آخریں ‘‘سمجھتے ہیں کہ: کرہ ارض پر ہر ذی روح اپنی زندگی کا سامان کرنے،مؤنث سے عہد و پیمان کرنے، اپنا مدعا بیان کرنے،دوسروں کو حیران کرنے اورمخالفین کو پریشان کرنے کے لئے جوفِ دہن میں پائے جانے والے مُضغے کی مخصوص حرکات سے جو آواز نکالتا ہے، ماہرینِ ناطقہ اسے ’’زبان‘‘کہہ کر پکارتے ہیں۔دنیا میںبے شمارزبانیں، ان گنت’’ زباں طراز‘‘ اور لا تعداد’’ زباں دراز‘‘ پائے جاتے ہیں۔ان میں شاید اہلِ ریختہ ہی ایسی مخلوق ہیں جنہیں اپنی زبان سے عشق ہے،یہ وہ ناطقین ہیں جو محافلِ ادب سجاتے ہیں،اُردو دانوں کو بلاتے ہیں، خوبصورت الفاظ چُنتے ہیں، ان سے نئے نئے لفظ بُنتے ہیں،ایک دوسرے کی سنتے ہیں، ہراچھے لفظ پر سر دھنتے ہیں،کوئی اسے ادبی نشست کہتا ہے، کوئی شامِ ادب قرار دیتا ہے، کوئی اسے مشاعرہ کہتا ہے اور کوئی اسے سُخن کی شب قرار دیتا ہے،کوئی اسے آباء کا ورثہ کہتا ہے تو کوئی اسے مشرقی تہذیب کی چھب قرار دیتا ہے ۔یہ’’ مؤرد محافل‘‘ در اصل ثبوت ہیں لسانِ اردوسے محبت کا ، زبان اردو کی رفاقت کا، اہالیانِ اردو کی چاہت کا ،محبانِ اردو کی عنایت کا۔ ہوا یوں کہ اتوار کا دن تھا، ہماری ہفتہ وار تعطیل تھی۔عصر ہونے کو تھی کہ اچانک موبائل فون نے گنگنانا شروع کیا، اسکرین پر دفتر کے ساتھی امین انصاری کا نام نمودار ہو چکا تھا۔ ہم نے ہڑبڑا کر کان سے فون لگایا، علیک سلیک کے بعد اُدھر سے ارشادہوا کہ ’’بزمِ اتحاد‘‘ کا مشاعرہ ہے، عشاء کے فوری بعد فلاں ریستوران پہنچ جائیے۔ہم انکار کیا کرتے کیونکہ’’ بزم‘‘ تھی ’’اتحاد‘‘ کی،حکم تھا امین کا،شرکت کے ارادے سے رُخ کیا’’ ستین ‘‘کا۔ 20منٹ کے’’ لیموزینی سفر ‘‘کے دوران ہم پر مسلط ہونے والی خامشی نے باور کرایا کہ: برصغیر، خشکی کا وہ خطہ ہے جہاں کروڑوں کی تعداد میں اہلِ ریختہ آباد ہیں۔ یہ انسانوں کی وہ قسم ہے جوزمین کے کسی بھی کونے میں ہو، اپنا جہاںآباد کرنے میں دیر نہیں کرتی۔’’بزمِ اتحاد‘‘اُردو کے آبائی وطن ’’ہندوستان‘‘کے ریختہ دانوں کی تنظیم ہے جنہوں نے اہلِ زبان کو متحد کرنے کا بیڑا اُٹھا رکھا ہے ۔بہر حال ریستوران پہنچنے پر ہمارااستقبال کیا گیا؟ ہمیں یہ دیکھ کرمسرت ہوئی کہ ’’بزمِ اتحاد‘‘ نے ’’اسم بامسمیٰ‘‘ ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے جدہ میں ’’شبِ گویا‘‘ کا اہتمام کیاتھاجو ’’ چھٹا سالانہ مشاعرہ بیادِسالارِ ملت2017ء ‘‘ کے زیر عنوان سجائی گئی تھی ۔ اس موقع پر ’’سالارِ ملت ایوارڈ برائے ادبی خدمات‘‘ بھی عطا کئے گئے۔
مشاعرے میں ہندوستان اور پاکستان سے مدعو کئے گئے شعرائے کرام کے علاوہ مملکت میں مقیم پاکستان اور ہندوستان کے شعراء نے بھی اپنا کلام سنایا۔ ’’پاکبان و ہندگان ‘‘کا یہ اختلاط پردیس میں اُردو ادب کی تاریخ کا ایک اور باب رقم کر گیا۔مشاعرے میں شرکت اور وہاں کا ماحول دیکھ کر قلبِ راقم جن کیفیات سے مملو ہوا ، وہ الفاظ میں ڈھل کر قرطاس پر یوں مترشح ہوئیں:
*حرفوںکے اتحاد سے اُردو زباں بنی
*اُردو نے عام پیار کا پیغام کر دیا
*شیر و شکر ہیں آج سبھی اہلِ ریختہ
*یہ ’’بزمِ اتحاد‘‘ نے کیا کام کر دیا
*ہیں لفظ ’’پھول‘‘، پیار ’’مہک‘‘،امن ’’سرزمیں‘‘
*سارا چمن ہے آج ترے نام کر دیا
’’بزمِ اتحاد‘‘کے اس مشاعرے میں بعض باتیں ایسی بھی ہوئیں جو یاد آتی رہیں گی اور دل بہلاتی رہیں گی مثلاً:
٭٭مشاعرے میں موجودسامعین اشعارکے ساتھ وہ سلوک کر رہے تھے جس کے وہ حقدار تھے۔کسی شعر پر محض واہ واہ کی صدائیں بلند ہوتیں، کسی پر واہ کے ساتھ تالیاں بھی بجائی جاتیں اورکسی شعر پر مسند سے کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے ہوئے واہ واہ کہا جاتا۔ سامعین میں شعری حوالے سے بعض ’’انتہائی فطین‘‘شخصیات بھی موجود تھیں ۔ یہ وہ لوگ تھے جو ’’سرجیکل داد‘‘ دے رہے تھے، اسے ہم ’’جراحتی تحسین ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ پہلے پورا شعر سنتے،پھر مصرعوں کو علیحدہ کرتے، الفاظ کو پرکھتے اور پھر چُنے ہوئے لفظ پر داد دیتے کہ واقعی صاحب! لفظ کو کیا نبھایا ہے،کبھی کہتے کہ لفظ کے ساتھ یہ سلوک آپ ہی کر سکتے ہیں،کبھی واہ واہ کے ساتھ کہتے کہ بار بار پڑھئے جناب۔‘‘
٭٭پاک و ہند کے مہمان شعرائے کرام سمیت اکثر سخنوروں نے اس ’’شبِ اُردو‘‘ کے بارے میں جو کچھ کہا اس کا لب لباب یہی تھا ایسا مشاعرہ اور ایسے سامعین قسمت والے شعراء کو ہی میسر آتے ہیں۔کسی نے کہا کہ آج میں وہ شعر پڑھ رہا ہوں جو میں 20،20 ہزار کے مجمعے میں بھی نہیں پڑھتا کیونکہ ان میں میرے ان اشعار کو سمجھنے والے 20بھی نہیں ہوتے اور یہاں ایسا لگ رہا ہے کہ درو دیوار بھی زبانِ اردو سے آشناہیں ۔
٭٭ ’’ چھٹا سالانہ مشاعرہ بیادِسالارِ ملت2017ء ‘‘ناظم کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل تھا ۔یہ ذمہ داری ینبع کے معروف شاعر ناصر برنی کو سونپی گئی تھی۔ وہ پہلی مرتبہ اتنے بڑے مشاعرے کی نظامت کر رہے تھے مگر انہوں نے جس انداز میں نظامت کے فرائض نبھائے ، انہیں دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ گویا: *’’عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں‘‘
٭٭ایک اور بات یہ کہ ہم جیسے ہی مشاعرہ ہال میں داخل ہوئے تو سامنے موجود اسٹیج سے ایک وجیہہ ہستی ہماری جانب آئی، ہمارا استقبال کیا اور انتہائی اگلی نشستوں پر براجمان ہونے کی دعوت دی۔یہ’’بزمِ اتحاد‘‘کے عہدیدار اور ناظم جلسہ محمد یوسف الدین امجد تھے۔ پذیرائی کا یہ اندازکسی اور کو نہ سہی، ہمیں مدتوں یاد رہے گا۔ ’’بزم اتحاد‘‘کی استقبالیہ کمیٹی کے اراکین ڈاکٹر سید علی محمود، مرزا مظہر علی بیگ، حسن بایزید اطہر، اسرار صدیقی، محمد عبدالقیوم ، محمود عبداللہ بلشرف اور سیدخواجہ وقار ا لدین نے بھی ہمارے تئیں اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن نبھائیں۔ ’’ چھٹا سالانہ مشاعرہ بیادِسالارِ ملت2017ء ‘‘ میں شعرائے کرام نے خوبصورت کلام پیش کیا ا ور سامعین کو داد دینے پر مجبور کیا۔ان کے کلام سے اقتباس نذر قارئین: سب سے پہلے مشاعرے کے ناظم نے یہ کہتے ہوئے اپنے اشعار سامعین کے گوش گزار کئے کہ وقت مختصر ہونے کے باعث میں کوشش کروں گا کہ نظامت کو خطابت نہ بننے دوں:
٭٭ناصر برنی:
*ہونٹوں پہ آئے گی نہ کبھی دل کی بات کیا
*آنکھوں کے سامنے ہی رہے گی یہ رات کیا
*ساتھی اگر کوئی ہو تو زندہ ضمیر ہو
*ورنہ رہِ حیات میں مردوں کا ساتھ کیا
٭٭٭ *سبز و شاداب رکھیں تم کو تمہارے موسم
*دوستو! تم سے عبارت ہیں ہمارے موسم
*اب نہ سردی ہے، نہ گرمی ہے نہ بارش ناصر
*اس کے ہمراہ روانہ ہوئے سارے موسم
٭٭یونس الماس:
*یارب رہے سلامت ، قائد اسد ہمارا
*ارضِ دکن کا ہے یہ، انمول اک ستارا
*ہے درد کا یہ دریا، افکار کا سمندر
*سالار کا ہے منشا، نظروں کی سب کا تارا
*یہ تجربہ ہے جو بھی ہمدرد قوم کا ہو
*قدرت خدا کی اس کو، دیتی رہی سہارا
*تھامے ہوئے ہیں دونوں، انسانیت کا دامن
*مظلوم کی مصیبت، ان کو نہیں گوارا
٭٭٭ *کیا کہیں کیا نہ پا گئے ہم لوگ
*آپ کے در تک آگئے ہم لوگ
*اس کو نسبت کہیں یا عینِ کرم
*اک زمانے پہ چھا گئے ہم لوگ
*کوچۂ عشق کے در و دیوار
*خون ِ دل سے سجا گئے ہم لوگ
*اجڑی دنیا میں رہ کے بھی الماس
*من کی دنیا بسا گئے ہم لوگ
٭٭ڈاکٹر سعید کریم بیبانی
*کسی کے ہجر میں کب مبتلا ہوں
*میں اپنے آپ سے بچھڑا ہوا ہوں
*کہیں اس سے محبت تو نہیں ہے
*میں جس سے اتنی نفرت کر رہا ہوں
*سمندر ہوں کوئی پانی پلا دے
*دعائیں بارشوں کی کر رہا ہوں
*میں سن کر حادثے کا جوں ہی پہنچا
*تو کیا دیکھا کہ خود زخمی پڑا ہوں
*ابھی مت بوجھ سمجھومجھ کو بچو
*ابھی میں خود کما کر کھا رہا ہوں
٭٭مسرور عابدی:
*حیدرآباد کو ہے ناز ابھی تک تم پر
*ہم بھلا پائے نہیں آج بھی سالار تمہیں
*کتنی بے چین نگاہوں کا نظارا تم تھے
*یعنی بے آسرا لوگوںکا سہارا تم تھے
*تم میں روشن تھے محبت کے ہزاروں سورج
*زندگانی کے اُجالوں کا شمارا تم تھے
*ناز و انداز سے یوں انجمن آراء تم تھے
*اُفقِ دل پہ چمکتا ہوا تارا تم تھے
*حیدرآباد کو ہے ناز ابھی تک تم پر
*ہم بھلا پائے نہیں آج بھی سالار تمہیں
٭٭٭ *نجانے انقلابات اور کیا کیا آنے والے ہیں
*بڑی شدت سے اب کے سازشوں نے پر نکالے ہیں
*سفر میں زندگی کے سب ہیں لیکن فرق اتنا ہے
*تمہارے پاؤں میں چھالے، ہمارے دل میں چھالے ہیں
٭٭٭ *نظر والے کبھی خود سے ریا کاری نہیں کرتے
*برائی کرنے والوں کی طرفداری نہیں کرتے
*محبت میں کبھی اظہارِ بیزاری نہیں کرتے
*پرندے اپنے بچوں سے اداکاری نہیں کرتے
*ہم آنکھیں رکھنے والوں میں نظر تقسیم کرتے ہیں
*ہم اندھوں کے قبیلے کی تو سرداری نہیں کرتے
*جو اپنے سر کے شملوں کی حفا ظت کرنے والے ہیں
*کبھی نیلام بازاروں میں خودداری نہیں کرتے
*ہمیں بیساکھیاں مسرور اچھی ہی نہیں لگتیں
*کہ ہم چہرہ بدلنے والی فنکاری نہیں کرتے
٭٭٭ *آؤ سب مل کے روکیں گے سیلاب کو
*ورنہ سب نذرِ سیلاب ہوجائیں گے
*یہ نہ سمجھو کہ بچ جاؤ گے صرف تم
* ہم اکیلے ہی غرقاب ہوجائیں گے
٭٭اقبال بیلن:
*کیا خوب تہنیت کا میری انتظام ہے
*ہے شال میری ، پھول مرے، ان کا نام ہے
*تاریخ ساز ہوگا یقینا مشاعرہ
*شعراء کی لسٹ میں میاں بیلن کا نام ہے
شوگر کا خوف آجائے تومیٹھا چھوڑ دیتے ہیں
*ہے بریانی پہ ہاتھ ان کا بگھارا چھوڑ دیتے ہیں
*اگر ہفتے میں اک دن کی نہ تم چائے بناؤ گی
*تو سن لو آج سے ہم بھی پکانا چھوڑ دیتے ہیں
*خدا جانے کہ ہم سے بیر کیا ہے ان حسینوں کو
*گلی میں اُن کی جب جاتے ہیں، کُتا چھوڑ دیتے ہیں
*اُدھر سسرال سے ان کو محبت ہوگئی تو پھر
*اِدھر ماں باپ سے برسوں کا رشتہ چھوڑ دیتے ہیں
٭٭الطاف شہریار:
*اپنے جیسے یہاں دوچار ہوا کرتے تھے
*لوگ بس سچ کے طرف دار ہوا کرتے تھے
*اب جو فٹ پاتھ پہ چپ چاپ پڑے رہتے ہیں
*پہلے ان کے یہاں دربار ہوا کرتے تھے
*شدتِ نفس نے سمجھوتوں پہ مجبور کیا
*ورنہ ہم بھی بڑے خوددار ہوا کرتے تھے
*دیکھ کے ہم کو یہ سورج بھی ٹھہر جاتا تھا
*ہم کبھی وقت کی رفتار ہوا کرتے تھے
*آج کیوں ہم سے گریزاں ہے رقیبوں کی طرح
*زندگی ہم تو ترے یار ہوا کرتے تھے
خواب آتے ہیں بہت خواب کی تعبیر کیساتھ
*پھر بھی تدبیر الجھ جاتی ہے تقدیر کے ساتھ
*تجھ سے ملنے کی تو اُمید نہیں ہے لیکن
*ڈھونڈتے پھرتے ہیں ہم شہر میں تصویر کیساتھ
*ہم بھی کیا لوگ ہیں جینے کی تمنا لے کر
*گھر سے چل پڑتے ہیںہر دن نئی تدبیر کیساتھ
*ہم جو قیدی ہیں، مقدر کی یہ مجبوری ہے
*چلتے رہتے ہیں سدا پاؤں کی زنجیر کے ساتھ
٭٭عبدالرحیم شاد بجنوری:
*منظر بدل گیا ہے نظر ٹوٹنے کے بعد
*سانسیں اجڑ گئی ہیں نظر ٹوٹنے کے بعد
*یہ تو تری وفا ہے مرے ساتھ دم بہ دم
*ورنہ کوئی چلا ہے کمر ٹوٹنے کے بعد
*میٹھے ثمر تھے جس کے بڑی ٹھڈی چھاؤں تھی
*چولھے میں جل گیا وہ شجر ٹوٹنے کے بعد
*یہ انتظار بھی تو قیامت سے کم نہیں
*آئیں گے کیاوہ شمس و قمر ٹوٹنے کے بعد
٭٭طارق سبزواری:
*آئو اک شمع روشن کریں، یاد اُن کی مناتے ہوئے
*جو وطن پر فدا ہوگئے، فرض اپنا نبھاتے ہوئے
*ان کی پرواز ہوگی ابھی آسمانوں میں گاتے ہوئے
*میں نے دیکھے ہیں اک جھیل میں ،کچھ پرندے نہاتے ہوئے
*اس زمیں کو نہ تقسیم کر، یہ امانت ہے تعظیم کر
*ورنہ صدیاں گزر جائیں گی، پھر سے بستی بساتے ہوئے
*چار دن کی ہے یہ زندگی، تا ابد کوئی رہتا نہیں
*ہم بھی اک دن چلے جائیں گے، رسمِ دنیا نبھاتے ہوئے
مجھ سے ممکن نہیں ایسی کوئی تحریر لکھوں
*آنکھ کو قید لکھوں، پاؤں کو زنجیر لکھوں
*ہاں یہ تپتا ہوا سورج ، یہ پگھلتے ہوئے لوگ
*مجھ سے کہتے ہیں کہ میں دھوپ کی تاثیر لکھوں
*میں نے کل خواب میں اک پھول کے لب چومے ہیں
*ہو اجازت تو میں اس خواب کی تعبیر لکھوں
 سلسلہ خواب کا آنکھوں سے جڑا رہنے دے
*اس جزیرے کو سمندر سے ملا رہنے دے
٭٭٭
*پھر ہوا تیز چلنے لگی، پھر کنول مسکرانے لگے
*پھر پرندوں نے انگڑائی لی، پھر شجر گنگنانے لگے
*چند ہی روز میں مٹ گئے، اس کے غم کے سبھی سلسلے
*محفلیں بھی سنبھلنے لگیں، لوگ بھی آنے جانے لگے
*کیا وطن، کیا وطن کی بقا، کیسا رشتہ کہاں کی وفا
*اک دیا ہاتھ کیا آگیا، لوگ بستی جلانے لگے
٭٭افسر بارہ بنکوی:
*پھول تو پھول ہے، خوشبو بھی مسل آئے ہیں
*اپنی قدروں کو بھی پیروں سے کچل آئے ہیں
*اب تو رشتے بھی سجھائی نہیں دیتے لوگو
*ہم ترقی میں بہت دور نکل آئے ہیں
٭٭منور علی مختصر:
*ہوں مختصر مگر مری عادت بری نہیں
*شرمندگی کسی سے بھی مل کر ہوئی نہیں
*جو بھی ملا ہے وہ مرے قد سے بڑا ملا
*اللہ کا فضل ہے مری گردن جھکی نہیں
٭٭انور انصاری:
*آسمانوں کی طرح مجھ میں خلا پیدا ہو
*تاکہ کچھ درد سمونے کی بھی جا پیدا ہو
*لمحۂ ہجر میں اک ایسی ادا پیدا ہو
*جھیل میں چاند جو اُترے تو صدا پیدا ہو
*رنجشیں جم گئیں کائی کی طرح پانی میں
*آئو مل جاؤ کہیں پھر سے گلہ پیدا ہو
*مل گیا ہے تو بچھڑنے کی دعائیں مانگوں
*ٹیس باقی ہے ابھی، درد نیا پیدا ہو
٭٭مہتاب قدر:
*دل کے ہاتھوں سے زمام حکمرانی لے گیا
*عشق کا جادو تو ساری راجدھانی لے گیا
*٭٭٭
*خفا کسی سے، نہ کوئی گلہ زمانے سے
*فضا خراب ہے اپنوں کے روٹھ جانے سے
*جو چیخ ابھرے گی، سب کا سکون کھا لے گی
*صدائیں دبتی نہیں ہیں گلے دبانے سے
٭٭نعیم حامد علی الحامد:
*میں نے جس دن سے ترا نقشِ کفِ پا دیکھا
*پھر ترے رب کی قسم، منہ نہ کسی کا دیکھا
*دید پر تیری تصدق، تری قربت کے نثار
*میں نے خوشبو کو چھوا، پیکرِ نغمہ دیکھا
٭*جوہر کانپوری:
*ہماری طرح تم جو خود کو بنا لوتو پھر یہ سیاہ رات کچھ بھی نہیں ہے
*دیئے کی طرح ہم جلے تھے تو سمجھے، اندھیروں کی اوقات کچھ بھی نہیں ہے
٭٭٭
*سمجھ میں کچھ نہیں آتا یقیں کس پر کیاجائے
*گلا تو بھائی بھی دشمن سے مل کر کاٹ لیتا ہے
٭٭٭
*جنوں کے دستِ ہوس نے مسل کے پھینک دیا
*عذاب ہو گیا پھولوں میں رنگ و بو ہونا
٭٭٭
*اوروں میں عیب ڈھونڈنا میرا مزاج تھا
*ایماندار شخص بھی جھوٹا لگا مجھے
*جب سے نگاہ اپنے گریبان پر گئی *اس روز سے ہر آدمی اچھا لگا مجھے
٭٭٭
*تمام رات سمندر میں ماہتاب رہا
*عجیب حُسن کا ماحول زیر آب رہا
*نشانِ سجدہ سے میری جبیں منور تھی
*میں اپنا عیب چھپانے میں کامیاب رہا
٭٭٭
*ہر ایک حرف چمکتا ہوا نکلتا ہے
*مری زباں سے ہمیشہ خدا نکلتا ہے
*میں تیری راہ سے اس واسطے نہیں ہٹتا
*کہ تیری راہ سے ہر راستہ نکلتا ہے
٭٭٭
*یہ دولت آدمی کی مفلسی کو دور کرتی ہے
*مگر کم ظرف انسانوں کو یہ مغرور کرتی ہے
*سبھی خوش ہیں کہ میں پردیس جا کر لاؤں خوشحالی
*مگر اک ماں ہے جو یہ شرط نامنظور کرتی ہے
٭٭٭
*آنسو کوئی اُن آنکھوں کے منظر میں نہیں تھا
*موتی مری قسمت کا سمندر میں نہیں تھا
٭٭٭
*اس گھر کی سجاوٹ میں کمی کچھ نہ تھی لیکن
*گھر ہوتا ہے گھر جس سے وہی گھر میں نہیں تھا

شیئر: