بحیثیت قوم ہما ری شناخت مو ہو م ہو تی جا رہی ہے، عوام کی اکثریت میں یاسیت پھیل چکی
* * *تسنیم امجد ۔ ریاض* * *
جمہوریت وہ نظام ہے جو عوام کے بل بوتے پر ہی چلتا ہے ۔اس میں عوام کی ایسی حالت جو زیر نظرتصویر میں نظر آ رہی ہے، لائق افسوس ہے۔ اس کاذمہ دار بھلا کون ہے ؟ اس کا جواب بلا شبہ یہی ہے کہ عوام خودہی اس کے ذمہ دار ہیں کیونکہ حکو مت کے نمائند ے انہی کے منتخب کر دہ ہیں۔صرف روٹی، کپڑا اور مکان کی خاطر ان کی سوجھ بوجھ پر پر دے پڑ جا تے ہیںجبکہ یہ بنیا دی ضروریاتِ زند گی ہیں اور ذرا سی محنت و تو کل پر میسر آ سکتی ہیں ،اس کی خاطر سب کچھ دائو پر لگانا کہا ں کی عقلمندی ہے ؟ آج عوام شدید فشاری دبائو یعنی اسٹر یس کا شکار ہیں۔ ان کے گرد مسائل ہی مسائل ہیں۔ ہر فرد استطا عت سے بڑ ھ کر پریشا نیوں کا بوجھ اٹھا رہا ہے ۔ جسم سے روح کا تعلق بر قرار رکھنے کے لئے انہیں کیا کیا جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ صاحبان اختیا ر جو انتخابات میں عوام سے بڑے بڑے وعدے کر تے ہیں، وہی وطن میں’’ میگا کرپشن‘‘اور اس خستہ حالی کے ذمہ دار ہیں۔
اس میں کو ئی شک نہیں کہ اوپر سے نیچے تک سرایت کر نے والی کر پشن ہی گڈ گو ر ننس ، حکومتی رٹ اور قا نو ن کی با لا دستی کو دیمک کی طرح چا ٹ رہی ہے ۔حالات کی ستم ظریفی کے ما رے یہ لوگ ایک ہی منز ل کے متلا شی ہیں۔ انہیں جان بوجھ کر تعلیم سے دور رکھا گیا ہے تاکہ ان میں شعور کی پختگی نہ آ سکے اور انہیں سہارا دینے والا ہا تھ سا منے نہ آ ئے۔ حال ہی میں خبر ملی کہ بے چارے خالو جا ن کو اسی قسم کی لا ئن میں کھڑے کھڑے چکر آئے، زمین پر گرے اور انجام کار ایمر جنسی وارڈ پہنچا دیئے گئے ۔ خالہ نے بتایا کہ صبح سے وہ مختلف بلوںاور جر ما نو ں کی ادائیگی کے چکرمیں نکلے ہوئے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ بے چارے گرے تو کسی نے تو جہ ہی نہیں دی۔
قریب ہی ایک ٹھیلے والا گزر رہا تھا، اس نے ایمبولینس والوں کو اطلا ع دی جبکہ ان کے ساتھ قطار میں کھڑے کچھ لوگوں نے کہا کہ’’ ہم اگر انہیں دیکھنے لگتے توہماری باری نکل جا تی اور دوبارہ نئے سرے سے قطار میں کھڑے ہونا پڑتا۔ انجام کار ہم بھی انہی صاحب کی طرح ایمولینس میں اسپتال پہنچائے جاتے۔‘‘ واہ کیسی سوچ ہے۔ کسی کی زندگی کی کو ئی قیمت ہی نہیں رہی۔ رہے بھی کیسے ؟ جب بور یو ں میں بند لا شیں ملیں گی ،راہ چلتو ں کو گو لی سے اڑا دیا جائے گا۔ حقا ئق نظر انداز کر دئیے جاتے ہیں توآپا دھاپی کا دور آ جا تا ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے کہ:
ہرایک اپنی اذیت کے شور میں گم ہے
کسے خبر کو ئی چیخا، کو ئی کرا ہا کیو ں ؟
کاش صاحبا ن اختیا ر یہ جا ن جا ئیں کہ اونچی اونچی عما رتوں ، پلوں اور میٹرو کے علاوہ بھی کچھ اور تعمیر ا تی ذمہ دار یاں ہیں۔کیا ان لوگوں کو کو ئی چھت اور چہار دیواری مہیا نہیں کی جا سکتی۔پہلی دنیا میںایسا غیر معیا ری سلو ک توجانوروں سے بھی نہیں ہو تا۔ یہ بھی انسا ن ہیں انہی کی طرح،جن کی ضروریات زندگی ،احساسات ، جذ بات،مطا لبات ،زبان ، بیان،رو نا اور ہنسنا ویسا ہی ہے جیسا ان کا ہے پھر یہ تفریق کی دیو ا ریں کیو ں کھڑ ی کر دی گئیں۔یہ غر یب اپنے لبو ں پر مسکرا ہٹ سجا نابھی بھول چکے ہیں ۔ ان کی مسکراہٹ ابترحالات کی اوٹ میں چھپ چکی ہے ۔کاش وطن کے امراء کو ہی خیال آ جائے اور وہ تجوریوں میں بنداپنی دولت کا کچھ حصہ اپنے ہم نفسوں کے احساس پر لگا دیں۔
کاش انہیں اس حقیقت کا ادراک ہوجائے کہ جو مزہ کسی کی دل جو ئی میں ہے، وہ دو لت کی گنتی میں نہیں۔امیر ی، غریبی ،تونگری و گدائی نظام قدرت ہے۔اے کاش!ہم اسلام کے عطا فرمائے ہوئے مکمل نظا م کو اپنا لیتے تو آج ہماری یہ حالت نہ ہوتی۔ وطن حا صل کرنے کا مقصد تو یہی تھامگر آج ہمارے وطن میں بنیا دی حقوق کا کسی کو خیا ل نہیں، یہ تمام عوا می سہولتیں اسی ز مرے میں آتی ہیں۔ ایک اسلامی فلاحی ریا ست کیا صرف صفحا ت تک ہی محدود ہے ، ہاں قبل از اسلام اور آزادی سے پہلے بنیا دی حقوق مفقو د تھے۔ ہم نے آزادی اسی لئے حا صل کی کہ زند گیاں آ سان ہوں،بھا ئی چارہ عام ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ بحیثیت قوم ہما ری شناخت مو ہو م ہو تی جا رہی ہے۔ ہمیں ایک ایسا ہجو م بنایا جا رہا ہے جس کی کو ئی سمت ہے اور نہ کوئی منز ل ۔عوام کی اکثریت میں یاسیت پھیل چکی ہے۔نفسیا تی بیماریا ں عام ہو چکی ہیں، ان امراض کاعلا ج بھی نا ممکن ہو چکا ہے ۔ہمارے جذبوں میں صداقت نہیں رہی۔ حالت یہ ہے کہ :
بے رنگ شفق سی ڈھلتی ہے
بے نور سویرے ہوتے ہیں
کتنے دکھ کی بات ہے کہ جہاں حکو مت چا ہتی ہے وہا ں نظم و نسق بہتر کر لیتی ہے اور جہا ں مر ضی نہیں ہو تی وہاں حالات کتنے ہی مخدوش کیوں نہ ہوںجا ئیں،کسی کو کوئی پروا نہیں ہوتی ۔بغور دیکھاجائے تو عوام کو آزادی سے قبل والے حالات میں ہی دھکیلا جا رہا ہے ۔ وطن عزیز میں سیاسی محاذ آرا ئیو ں کے نتیجے میں ملکی فضا جس قدر مکدر ہو چکی ہے، اس میںمحب وطن شہر یو ں کا سانس لینا بھی دوبھر ہو ر ہاہے۔ یوں لگتا ہے کہ بعض صاحبان اختیاراپنی اپنی طا قت آزمارہے ہیں۔ اس سیا سی اکھاڑے میں جہاں چند عنا صر کو فا ئدہ یا نقصان ہو نا چا ہئے یا اپنے کئے کا خمیا زہ بھگتنا چاہئے ، وہاں تلخ حقائق ، پریشا نیا ں اور نقصا نا ت عوام کے حصے میں آ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیا سی رسہ کشی سے سیاستدا نوں کو کو ئی نقصان نہیں ہو رہابلکہ عوام ہی متا ثر ہو رہے ہیں۔آج شخصی سیا ست کا بو ل بالا ہے۔عوام کی اکثریت ان پڑھ ہے ۔ ہم لوگ جوشیلے نعروں کے چکر میں بہت جلدآجاتے ہیں۔ہمیں یہ احساس بھی نہیں ہو پاتا کہ ہم اپنے پائو ں پر کلہا ڑی ما ررہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے درمیان سے باشعور لوگ اٹھتے جا رہے ہیں ۔ عوام کو اپنے فرائض کا احسا س کرتے ہوئے مل جل کر لا پر وا ئیوںکا سد باب کرنا چا ہئے۔آج حالات اس امر کے متقا ضی ہیں کہ ہم سب بیدار ہوجائیں۔ ہمیں یکجہتی کی ضرورت ہے۔کسی شاعر نے کہا ہے کہ :
ایسا سفر ہے جس میں کوئی ہم سفر نہیں
رستہ ہے اس طرح کا جو دیکھا نہیں ہوا