صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بدھ کو چيف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو خط لکھ کر عام انتخابات کے انعقاد کے لیے 6 نومبر 2023 کی تاریخ تجویز کر دی ہے اور اس حوالے سے اعلی عدلیہ سے رائے لینے کا بھی کہا ہے۔
صدر کی جانب سے الیکشن کی تاریخ دینے کے بعد ملک کے سیاسی اور صحافتی یہ بحث ہورہی ہے کہ آیا صدر کو الیکشن کی حتمی تاریخ دینے کا اختیار ہے یا وہ صرف مشورہ دے سکتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق صدر نے براہ راست تاریخ کا اعلان کرنے کے بجائے 6 نومبر کی تاریخ تجویز کرکے اور پھر اس حوالے سے اعلی عدلیہ سے رائے لینے کا کہہ کے ایک طرح سے گیند عدلیہ کے کورٹ میں بھی پھینک دی ہے۔
مزید پڑھیں
-
الیکشن 6 نومبر کو ہونے چاہییں، صدر علوی کا الیکشن کمیشن کو خطNode ID: 795436
-
فضل الرحمان سے مشکل،’گڈ پی ٹی آئی‘سےاتحاد ہو سکتا ہے: فیصل کنڈیNode ID: 795506
سینیئر تجزیہ کار زاہد حسین نے صدر عارف علوی کے چیف الیکشن کمشنر کے نام اس تازہ خط کے سیاسی و آئینی اثرات سے متعلق سوال کے جواب میں اردو نیوز کو بتایا کہ ’صدر عارف علوی کے اس بیان کے بعد ایک نئی بحث ضرور شروع ہو گی کہ آیا وہ صرف مشورہ دے سکتے ہیں یا پھر الیکشن کی حتمی تاریخ بھی دے سکتے ہیں؟‘
زاہد حسین نے کہا کہ ’ابھی کچھ عرصہ قبل ایک ترمیم بھی ہوئی تھی جس میں انتخابات سے متعلق اختیارات الیکشن کمیشن کو دے دیے گئے تھے۔ میرا خیال ہے کہ صدر عارف علوی کے خط میں 90 دن میں الیکشن کرانے کی تجویز دی گئی ہے۔‘’یہ ساری چیزیں ایک تسلسل میں ہو رہی ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ دو ماہ میں الیکشن کرانا ممکن نہیں ہے۔‘
فروری 2024 میں الیکشن ہونے یا نہ ہونے سے متعلق سوال پر زاہد حسین نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کے اقدامات کی جانب دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ الیکشن ہوں گے لیکن دوسری طرف جو معاملات چل رہے ہیں، انہیں دیکھ کر بہت سے لوگ کہتے کہ شاید نگراں سیٹ اَپ ذرا طویل چلے گا۔ ابھی منظر بہت واضح نہیں ہے۔‘
’صدر نے اپنی آئینی ذمہ داری نبھائی‘
صدر کے چیف الیکشن کمشنر کے نام خط کے حوالے سے سیاسی امور کے ماہر اور سینیئر تجزیہ کار رسول بخش رئیس کا موقف قدرے مختلف ہے۔
