پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی کے عہدے کی آئینی مدت آج مکمل ہو رہی ہے۔
ڈاکٹر عارف علوی کی پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ دیرینہ وابستگی ہے اور ان کا شمار سابق وزیراعظم عمران خان کے قابلِ اعتماد دوستوں میں بھی ہوتا ہے۔
اپریل 2022 میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے سے قبل تک صدر عارف علوی ایوان صدر کی ذمہ داریاں ہموار طریقے سے نبھاتے رہے لیکن اپنی پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد نئی حکومت کے ساتھ ان کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتے رہے۔
مزید پڑھیں
-
آفیشل سیکرٹ اورآرمی ترمیمی بلوں پر دستخط نہیں کیے، صدر علویNode ID: 789071
-
بِل تنازع، صدر عارف علوی نے اپنے سیکریٹری کی خدمات واپس کر دیںNode ID: 789351
پارلیمنٹ کی جانب سے کچھ قانونی بِلز پر دستخط کا معاملہ ہو یا تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریوں کا معاملہ، ایسے مواقع پر صدر عارف علوی نے اپنا الگ موقف اپنایا اور اس کا اظہار بھی کیا۔
حکومت کے ساتھ تناؤ کی کیفیت
رواں برس اگست کے آخر میں اس وقت حالات کافی پیچیدہ ہو گئے جب صدر عارف علوی نے اپنے بیان میں کہا کہ انہوں نے دو نئے قوانین آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ترمیمی بل پر دستخط نہیں کیے۔
صدر عارف علوی نے ایوان صدر میں اپنے سٹاف کے کچھ افراد پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ‘مجھے معلوم ہوا ہے کہ میرا عملہ میری مرضی اور حکم کے خلاف گیا ہے۔‘
وزارتِ قانون نے اس کے ردعمل میں موقف اپنایا کہ اگر صدر نے دستخط نہیں کیے تھے تو انہیں آئین میں درج مدت کے اندر اندر اپنے اختلافی نوٹ کے ساتھ یہ قانونی بِل واپس بھیجنے تھے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
اس معاملے میں 21 اگست کو ایک اور پیش رفت یہ ہوئی کہ صدر عارف علوی نے اپنے سیکریٹری وقار احمد کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کر دیں اور اپنے خط میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کی گریڈ 22 کی افسر حمیرا احمد کو سیکریٹری تعینات کرنے کے لیے کہا۔
اس کے علاوہ عام انتخابات کے انعقاد کے معاملے پر بھی عارف علوی کا موقف اتحادی حکومت اور الیکشن کمیشن کے نقطۂ نظر کے برعکس رہا۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کے حکام کو ملاقات کے لیے بلایا لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے اس معاملے میں سردمہری کا مظاہرہ کیا گیا۔
صدر عارف علوی کو ملک کے سب سے بڑے آئینی عہدے پر فائز ہونے کی وجہ سے کئی اعتبار سے آئینی تحفظ حاصل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے دیگر تمام صف اوّل کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات اور ان کی گرفتاریوں کے باوجود عارف علوی محفوظ رہے۔

اب سوال یہ ہے کہ عارف علوی اپنے عہدے کی مدت مکمل ہونے پر ایوان صدر سے رخصت ہو جائیں گے یا پھر نئے صدر کے انتخاب تک وہ ایوان صدر ہی کے مکین رہیں گے۔
اس ضمن میں چند دن قبل ایوان صدر میں ہونے والی ایک اہم ملاقات کا حوالہ بھی سیاسی مباحثوں میں دیا جا رہا ہے۔ اس ملاقات کا چرچا گزشتہ ہفتے پاکستان کے مقامی میڈیا میں ہوا تھا۔ تاہم اس کی تفصیلات سامنے نہیں آ سکی تھیں۔
دوسرا یہ کہ ایوان صدر میں اب ان کے اختیارات کیا پہلے جیسے ہی ہوں گے یا ان کی پوزیشن میں کوئی فرق آئے گا۔
اس کے ساتھ جڑا ہوا ایک اور سوال بھی ہے، وہ یہ کہ ایوان صدر سے نکلتے ہی تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں کی طرح ان کے خلاف بھی مقدمات کا سلسلہ شروع ہو جائے گا؟
سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر عارف علوی نئے صدر کے انتخاب تک اس عہدے پر رہتے ہیں ہیں تو ان کی موجودہ اختیارات میں کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ پہلے ہی سے بہت محدود ہیں۔
’صدر عارف علوی نے پارٹی کارکن جیسا رویہ رکھا‘
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجیسلیٹو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’عارف علوی کا پانچ سالہ دور صدارت آئیڈیل نہیں تھا۔ انہوں نے ایوان صدر میں تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک کارکن کے طور پر وقت گزارا۔ وہ پارٹی کے قائد عمران خان کے احکامات پر بلا چوں و چراں عمل کرتے رہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایوان صدر میں ہوتے ہوئے عارف علوی نے ایک لمحے کے لیے خود کو ایسی بالغ نظری کا مظاہرہ نہیں کیا کہ وہ پارٹی کارکن سے اٹھ کر پوری قوم اور تمام پارٹیوں کا اعتماد حاصل کر سکیں۔‘
’ہاں ان کے بعض اقدامات کی وجہ سے شاید انہیں ان کی سیاسی جماعت کے اندر سراہا جائے لیکن باہر ایسا نہیں ہو گا۔‘
احمد بلال محبوب نے سپریم کورٹ کے سینیئر جج قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ ریفرنس بھیجنا اور پھر واپس لینا، یہ ان کے کیریئر پر ایک داغ رہے گا۔ اسی طرح آخر میں فوج کے اختیارات کے متعلق دو قوانین کے بارے میں یہ موقف اپنانا کہ اس پر انہوں نے دستخط نہیں کیے۔‘
’سوال یہ ہے کہ اگر انہوں نے دستخط نہیں کیے تو قوم سے معافی مانگنے کی ضرورت انہیں کیوں محسوس ہوئی۔‘
