سکیورٹی فورسز نے پاکستان اور افغانستان سرحد سے متصل چترال کے سرحدی علاقوں میں چھ ستمبر کو دراندازی کرنے والے کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے 12 عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
اب ہلاک ہونے والے شدت پسندوں کی شناخت کا مرحلہ جاری ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان میں سے تین کا تعلق وزیرستان سے ہے۔
مزید پڑھیں
-
چترال کے نوجوانوں میں خودکشی کا رُحجان کیوں بڑھ رہا ہے؟Node ID: 791866
دہشت گردوں کی شناخت
چترال کے ایک ذمہ دار آفیسر نے اردو نیوز کو بتایا کہ شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کے بعد ان کے ساتھی لاشیں چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے اور اب لاشوں کی شناخت کا مرحلہ جاری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’تین شدت پسندوں کا تعلق وزیرستان سے ہے جو اس سے قبل بھی دہشت گردی کے کئی واقعات میں ملوث تھے۔‘
’ہلاک ہونے شدت پسندوں میں مالاکنڈ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے کچھ شدت پسند بھی شامل ہیں تاہم ان کا ڈیٹا اکھٹا کرنا ابھی باقی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ روز حملہ آوروں کی تعداد 100 سے زیادہ تھی جن میں سے بیشتر زخمی ہو کر واپس بھاگ گئے۔
بارڈر کی موجودہ صورتحال کیا ہے؟
ڈپٹی کمشنر لوئر چترال محمد علی کے مطابق گزشتہ روز کے بعد آج کیلاش وادی اور ارسون میں مکمل امن ہے تاہم صبح کے وقت بارڈر کے اس پار سے شدت پسندوں نے چند مارٹر گولے پھینکے ہیں مگر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بارڈر پر سکیورٹی فورسز کے تازہ دم دستے موجود ہیں جو کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے سکتے ہی۔‘
چترال میں امن مارچ
دوسری جانب آج (جمعرات کو) چترال میں تحریک تحفظ حقوق چترال نے امن مارچ کا انعقاد کیا ہے جس میں بڑی تعداد میں اپر اور لوئر چترال کے شہریوں نے شرکت کی۔
ریلی کے شرکاء نے دہشت گردی کے خلاف نعرے لگائے اور چترال سکاؤٹس کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا۔
امن ریلی کے منتظمین میں سے ایک پیر مختار نے مطالبہ کیا کہ چترال سے منسلک بارڈر کو مکمل طور پر محفوظ بنایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ’چترال ایک پرامن علاقہ ہے مگر مشکل وقت میں یہاں کے عوام کو آواز اٹھانا آتا ہے۔‘
’مشکل کے اس گھڑی میں ہم اپنے فورسز کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔‘
