Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
اتوار ، 08 جون ، 2025 | Sunday , June   08, 2025
اتوار ، 08 جون ، 2025 | Sunday , June   08, 2025

لاہور میں گھریلو ملازمین کیسے اپنے ہی مالکان کو لوٹ رہے ہیں؟ 

بلال حشمت کی بحفاظت بازیابی کی ذمہ داری سی آئی اے کو سونپ دی گئی۔ (فائل فوٹو: پنجاب پولیس)
بلال حشمت موبائل پر نظریں جمائے گاڑی میں سوار ہوئے۔ وہ فرصت کے کچھ لمحات میسر آنے پر واٹس ایپ میسیجز دیکھ رہے تھے۔
بلال حشمت رات کے اس پہر ایک اہم کاروباری میٹنگ میں شرکت کے لیے جا رہے تھے اور ان کے ساتھ ان کا وفادار ڈرائیور عبدالرحمان تھا۔ یہ میٹنگ زیادہ دیر جاری نہیں رہنی تھی اور وہ گھر میں بھی جلد واپسی کا ہی بتا کر آئے تھے۔
ان کے گھر والے اُس وقت پریشان ہو گئے جب بلال حشمت کو تاخیر ہو گئی اور ان کی اہلیہ نے پھر ایک فون کال ریسیو کی جس میں ان کے شوہر کے اغوا کا بتاتے ہوئے پانچ کروڑ روپے تاوان ادا کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
بلال حشمت کے اہلِ خانہ پر تو گویا قیامت ہی ٹوٹ پڑی۔ وہ پولیس کو اس بارے میں بتانے سے ڈر رہے تھے مگر اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ چنانچہ انہوں نے اس بارے میں پولیس کو بتانے میں ہی عافیت جانی اور جب اس معاملے کا خلاصہ ہوا تو بلال حشمت اور ان کے گھر والے چکرا گئے۔
اس اغوا کی رپورٹ رواں برس پانچ جولائی کی رات کو لاہور کے تھانہ سول لائنز میں درج کروائی گئی تھی۔
بلال حشمت کے اہل خانہ خوف زدہ تھے اور ان کی اہلیہ اپنے شوہر کی جلد از جلد واپسی کے لیے دعاگو تھیں۔
نامعلوم شخص نے کال کر کے انہیں کہا تھا کہ ’بلال حشمت اور ان کے ڈرائیور عبدالرحمان کو اغوا کر لیا گیا ہے اور وہ انہیں پشاور لے کر جا رہے ہیں۔ اہل خانہ نے اگر اس واردات کی اطلاع پولیس کو دی تو سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے۔‘

ہائی پروفائل کیس اور سی آئی اے پولیس

معروف کمپنی کے سربراہ کا اغوا ایک ہائی پروفائل کیس اس لیے بھی تھا کہ ان کو نہ صرف اغوا کیا گیا تھا بلکہ رہائی کے بدلے پانچ کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔
بلال حشمت کے اہلِ خانہ کی جانب سے مقدمہ درج کرانے کے بعد اس مقدمے کی تفتیش اور مغوی کی بحفاظت بازیابی کی ذمہ داری پولیس کے منظم جرائم کے تدارک کے لیے کام کرنے والے ادارے سی آئی اے کو سونپ دی گئی۔

طریقہ واردات اور شکوک و شبہات 

سی آئی اے کینٹ کے ڈی ایس پی فیصل شریف نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’طریقہ واردات نے ابتدا ہی میں اس بات کی نشاندہی کر دی تھی کہ اغوا کاروں کے گروہ میں شامل کوئی ایک فرد مغوی بلال حشمت کا قریبی جاننے والا ہے یا کوئی ایسا فرد ہو سکتا ہے جو مغوی کی تمام تر نقل و حرکت اور مالی حالات سے بخوبی واقف ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’سی آئی اے پولیس کو اس وقت سب سے بڑا دھچکا لگا جب ان کو مغوی بلال حشمت کے ساتھ ہی اغوا ہونے والے ڈرائیور عبدالرحمان کا مجرمانہ ریکارڈ حاصل ہوا۔‘
فیصل شریف کا کہنا تھا کہ ’ایک بزنس مین کے ساتھ بطور ڈرائیور کام کرنے والا شخص ڈکیتی جیسی سنگین وارداتوں میں ملوث رہ چکا تھا، یہ بات کافی حیران کن تھی۔‘
’یہ گمان کرنا مشکل ہے کہ ایک معروف کاروباری شخصیت ملازم رکھتے ہوئے پولیس سے اس کی تصدیق نہ کروائے یا اس نوعیت کی احتیاطی تدابیر کو فراموش کردے۔‘
اس حوالے سے شک کرنے کی وجہ یہ بھی تھی کہ تاوان کا مطالبہ کرنے والے اغوا کاروں نے بلال حشمت کے ساتھ ہی ڈرائیور عبدالرحمان کو بھی اغوا کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ 

نامعلوم شخص نے بلال حشمت کی اہلیہ کو کال کر کے کہا کہ ’بلال حشمت اور ان کے ڈرائیور عبدالرحمان کو اغوا کر لیا گیا ہے۔‘ (فائل فوٹو: پکسابے)

پولیس کی حکمتِ عملی اور تاوان کی ادائیگی 

پولیس کے مطابق اغوا کاروں نے تفتیش کا رُخ موڑنے کے لیے مغوی کو کسی اور مقام پر رکھا اور اس کا موبائل فون پشاور روانہ کر دیا تاکہ پولیس ملزموں کی لوکیشن کو ٹریس کرتی رہے۔
چنانچہ پولیس نے اغوا کاروں سے ایک قدم آگے رہتے ہوئے تفتیش کا فیصلہ کیا اور ایک کروڑ 80 لاکھ روپے تاوان کی قسط ادا کر کے مغوی بلال حشمت اور ڈرائیور عبدالرحمان کو بحفاظت رہا کروا لیا اور باقی رقم دوسری قسط میں ادا کرنے کا وعدہ کیا اور فوری طور پر عبدالرحمان کو حراست میں لے لیا۔
دوران تفتیش ملزم عبدالرحمان نے اعترافِ جرم کرتے ہوئے کہا کہ ’اس نے واردات کا منصوبہ اپنے دو ساتھیوں فیاض اور طاہر کے ساتھ مل کر بنایا تھا۔ ملزموں کا تاوان وصول کرنے کے بعد بلال حشمت کو قتل کرنے کا ارادہ تھا۔‘
عبدالرحمان کی نشاندہی پر پولیس نے موٹروے کے قریب کارروائی کرتے ہوئے اس کے باقی دو ساتھیوں کو بھی گرفتار کر لیا، جن سے تاوان میں وصول کی جانے والی رقم کا کچھ حصہ اور اسلحہ برآمد ہوا۔

ڈرائیور اور ساتھیوں کا کریمنل ریکارڈ

پولیس ریکارڈ کے مطابق بلال حشمت کا 36 سالہ ڈرائیور عبدالرحمان اوکاڑہ کا رہائشی تھا، جس کے خلاف ڈکیتی، گھروں میں چوری اور سٹریٹ کرائمز کے درجن بھر سے زیادہ مقدمات مختلف تھانوں میں درج ہیں۔ ملزم پہلی بار سنہ 2016 میں گرفتار ہوا تھا۔
ڈرائیور عبدالرحمان کے باقی دو ساتھی بھی سابقہ ریکارڈ یافتہ تھے جو اس سے پہلے بھی ڈکیتی اور چوری جیسے سنگین جرائم میں ملوث رہ چکے تھے۔
پولیس کے مطابق تینوں اغواکاروں کا شمار ان تین ہزار عادی مجرموں میں ہوتا ہے جو گرفتار ہو کر عدم شواہد اور ناقص تفتیش کے باعث ضمانتوں پر رہا ہو کر دوبارہ جرائم میں ملوث ہو جاتے ہیں۔

پولیس کے مطابق عادی مجرم عدم شواہد اور ناقص تفتیش کے باعث ضمانتوں پر رہا ہو کر دوبارہ جرائم میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ (فائل فوٹو: پکسابے)

مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت 

سی آئی اے پولیس ملزموں کی گرفتاری کے چند روز بعد 28 جولائی کی رات تینوں اغوا کاروں کو برکی کے علاقے میں تاوان کی رقم برآمد کروانے کے لیے لے کر گئی جہاں ان کے گروہ میں شامل دیگر جرائم پیشہ افراد نے اپنے ساتھیوں کو چھڑوانے کے لیے پولیس پر حملہ کر کے فائرنگ کر دی۔ 
پولیس کی جوابی کارروائی میں ڈرائیور عبدالرحمان اور اس کے دو ساتھی طاہر اور فیاض شدید زخمی ہوگئے جبکہ سی آئی اے کینٹ کے انچارج فیصل شریف فائرنگ سے بال بال بچے۔
زخمی ملزموں کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن تینوں راستے میں ہی دم توڑ گئے۔ 

کالعدم تنظیم کے نام پر بھتہ

ایک اور واردات میں مالک کو لوٹنے کی منظم کوشش لاہور کے علاقے قائد اعظم انڈسٹریل سٹیٹ میں کی گئی۔
کاسمیٹکس کمپنی کے مالک کاشف جاوید سے کالعدم تنظیم کے نام پر تین کروڑ روپے بھتہ مانگا گیا، اور تاخیر یا انکار کرنے کی صورت میں قتل کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ بھتہ مانگنے والے ملزم برطانیہ کے نمبروں سے تاجر کاشف جاوید کو واٹس ایپ پیغامات بھی بھجواتے رہے۔ 
پولیس نے معاملے کی تفتیش کرتے ہوئے 120 کلوز سرکٹ کیمروں کی فوٹیجز جمع کیں اور خط کپنی کے دفتر تک چھوڑنے والے موٹرسائیکل سوار کی نقل و حرکت چیک کی تو مشتبہ شخص کی ایک لوکیشن اسی کمپنی کا مرکزی دفتر بھی تھی جس کے مالک کو بھتے کی ادائیگی کا خط پہنچایا گیا تھا۔ 
پولیس نے کمپنی کے ملازمین سے تفتیش شروع کی تو ایک کمپنی ملازم کو متضاد بیانات دینے پر حراست میں لے لیا گیا۔

پنجاب پولیس کی جانب سے 148 جرائم پیشہ گھریلو ملازمین کی فہرست اور کوائف جاری کیے جا چکے ہیں۔ (فائل فوٹو: پکسابے)

ملزم نے دوران تفتیش اعتراف جرم کر لیا اور دو شریک ملزمان کی نشاندہی بھی کی جس پر اس کے دونوں ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ 
اس حوالے سے ایس پی وقار عظیم کھرل نے بتایا کہ ملزموں نے کالعدم تنظیم کے خط کا فارمیٹ انٹرنیٹ سے کاپی کیا تھا۔ 

گھریلو اور ذاتی ملازمین کے حوالے سے اعدادوشمار

پولیس ریکارڈ کے مطابق لاہور میں رواں برس گھریلو یا ذاتی ملازمین کے چوری، ڈکیتی، نقب زنی سمیت سنگین نوعیت کے جرائم میں ملوث ہونے کے 33 مقدمات زِیرتفتیش ہیں، جن میں ملوث 16 ملزم ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں۔ 
پولیس حکام کے مطابق ان ملزموں کے ضمانت پر رہا ہونے کی ایک بڑی وجہ شواہد کی عدم دستیابی اور مقدمات کے مدعیوں کی عدم دلچسپی ہے۔
پنجاب پولیس کی جانب سے 148 جرائم پیشہ گھریلو ملازمین کی فہرست اور کوائف بھی جاری کیے جا چکے ہیں، جن میں مردوں کی نسبت خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ 

جرم کا شکار ہونے سے کیسے بچا جائے؟ 

سی آئی اے پولیس حکام کا کہنا ہے کہ گھریلو ملازم رکھتے وقت ان کے کریمنل ریکارڈ کی پڑتال اور ملازمین کے کوائف کا تھانوں میں اندراج کروایا جائے تو سنگین جرائم کا شکار ہونے سے بچا جا سکتا ہے۔ کاروباری حضرات اکثر اوقات ان معاملات کو نظرانداز کر دیتے ہیں جو کسی طور پر مناسب طرزِ عمل نہیں جس کا اندازہ رواں برس ہونے والے ان دو پریشان کن واقعات سے لگایا جا سکتا ہے۔

شیئر: