پاکستان کے صوبہ پنجاب میں 76 برس پرانے چوری کے مقدمے کے لیے سائلین نے دوبارہ پولیس سے رابطہ کیا ہے۔
یہ واقعہ پاکستان بننے کے اگلے روز 14 اور 15اگست کی درمیانی شب چنیوٹ کے محلہ نور والا میں جھنگ روڈ پر واقع ایک مکان میں پیش آیا۔ واقعے کے بعد مقامی چوکی میں چوری کی اس واردات کی ایف آئی آر درج کرائی گئی، تاہم آج 76 برس گزر جانے کے باوجود اس واردات میں ملوث افراد کو تلاش نہیں کیا جا سکا۔
یہ مکان ایک سکول ٹیچر مہر محمد اشرف ولد نور محمد کا تھا جو تدریس کے ساتھ ساتھ بطور حکیم بھی کام کرتے تھے۔
مزید پڑھیں
-
کہیں آپ آن لائن فراڈ کرنے والوں کے نشانے پر تو نہیں؟Node ID: 781781
دو ہفتے قبل محمد اشرف کے نواسے محمد ساجد اسماعیل نے پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل کو ایک درخواست دی جس میں انہوں نے مطالبہ کیا کہ چوری کی اس واردات کا ریکارڈ موجود ہے لہٰذا اس پر کارروائی کی جائے۔
اردو نیوز نے درخواست گزار محمد ساجد اسماعیل سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’یہ تقسیم ہند کے بعد اس علاقے میں درج ہونے والی پہلی آیف آئی آر تھی۔ اس وقت لاکھوں روپے کا سامان اور زیورات چوری ہوئے تھے۔‘
مقدمے کا ریکارڈ آج بھی موجود
محمد ساجد اسماعیل نے بتایا کہ ’اس وقت اس مقدمے کی ایف آئی آر سٹی چوکی میں درج ہوئی تھی اور اس پر ایس ایچ او کا نام اشر داس درج ہے۔ دستاویزات میں مقدمے کا نمبر 147 جبکہ بک نمبر 32 درج ہے۔ یہ ریکارڈ آج بھی تھانہ صدر میں موجود ہے۔‘
محمد اسماعیل کے مطابق ’میرے نانا اور ان کے خاندان کے افراد نے اس مقدمے کی پیروی کی، لیکن کچھ عرصے بعد پولیس نے عدالت میں ’عدم پتہ‘ لکھ کر یہ کارروائی بند کی دی تھی۔‘

’ہم اب تیسری نسل ہیں انصاف کی تلاش میں پولیس حکام سے رابطہ کر رہے ہیں۔ آئی جی پولیس کو ہم نے درخواست دی ہے، لیکن وہاں سے جواب آیا ہے کہ ہماری اطلاع کے مطابق آپ مزید کارروائی نہیں کرنا چاہتے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ میرے پاس درخواست اور اس کی ٹریکنگ آئی ڈی بھی موجود ہے۔‘
’ہم انصاف لینے کے لیے برطانیہ تو نہیں جا سکتے‘
مقامی پولیس نے ہمیں کہا کہ ’یہ برطانوی دور کا واقعہ ہے لہٰذا اس پر حکومت برطانیہ ہی سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔‘

’ہمارا موقف یہ ہے کہ جب یہ واقعہ پیش آیا تو اس وقت پاکستان بن چکا تھا۔ آج 76 برس گزر گئے، لیکن ہمیں انصاف نہیں مل سکا۔ اب ہم انصاف لینے کے لیے برطانیہ تو نہیں جا سکتے۔‘
محمد ساجد نے چوری ہونے والے سامان کے بارے میں بتایا کہ ’ایف آئی آر میں تفصیل درج ہے جس میں بوسکی کی چادریں، کُرتے، زنانہ ریشمی کپڑے، ساڑھی اور طلائی زیورات پازیب، گنگن، نو عدد مندریاں، چاندی کی گھڑی اور دو سیل والی بیٹری بیلجیئم مارکہ کا ذکر ہے۔‘
’یہ زیورات جس سنار سے بنوائے گئے تھے اس کا نام بھی ریکارڈ پر کرم چند زرگر درج ہے۔ یہ واقعہ رمضان میں پیش آیا جب میرے نانا کے خاندان کے افراد سحری کے وقت نیچے اترے تو وہاں سب سامان بکھرا ہوا تھا۔‘
محمد ساجد اسماعیل نے کہا کہ ’آئی جی پنجاب جدید ترین کمپیوٹرائزڈ پولیسنگ کا ذکر کرتے ہیں۔ اس لیے مجھے امید ہے کہ وہ ہمارے چور پکڑ کر مال برآمد کروا دیں گے۔‘












