پاکستان کی اتحادی حکومت میں شریک دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی عام انتخابات سے قبل آمنے سامنے آنے والی ہیں؟
پیپلز پارٹی کی قیادت کی جانب سے وقفے وقفے سے کچھ ایسے اشارے دیے جا رہے ہیں جو اس قسم کے سوالات کو تقویت بخشتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے سنیچر کو سوات میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی جماعت الیکشن کے لیے تیار ہے، اتحادی جماعتیں بھی تیاری کر لیں۔
بلاول بھٹو کی بجٹ سے متعلق وارننگ
بلاول بھٹو زرداری نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف کو صوبہ سندھ کے سیلاب متاثرین کی مدد کا وعدہ یاد دلاتے ہوئے کہا کہ ’یہ ممکن نہیں ہے وزیراعظم کچھ کہے اور بجٹ میں کوئی اور بات لکھی ہو۔ ہم امید کرتے ہیں کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور ان کی ٹیم ہمارے تحفظات دور کریں گے۔‘
مزید پڑھیں
-
شہری گھر پر ایک بلب جلا کر گزارا کریں: گورنر خیبرپختونخواNode ID: 773866
بلاول بھٹو زرادری نے کہا کہ ’سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے پیسہ نہیں ملا تو پیپلز پارٹی بجٹ کی منظوری کے لیے ووٹ نہیں دے گی۔‘
جواب میں بلاول بھٹو کا نام لیے بغیر اتوار کو ناروال میں مسلم لیگ نواز کے رہنما اور وفاقی وزیر احسن اقبال نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’بجٹ کی تیاری میں تمام اتحادیوں کو شریک رکھا گیا۔ جس کابینہ نے بجٹ کی منظوری دی اس میں تمام اتحادی موجود تھے۔ سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ متفقہ فیصلوں کو تسلیم کریں۔‘
بلاول کی جانب سے الیکشن کے لیے تیاری کرنے کے چیلنج کے جواب میں اسی سے ملتی جلتی بات اتوار کو نجی ٹی وی جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ نواز کے رہنما طلال چوہدری نے بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ ’ہمیں چلینج قبول ہے لیکن الیکشن ایسے نہیں ہونے چاہییں جیسے باغ میں ہوئے اور جو کچھ کراچی میئر کے الیکشن میں ہوا۔‘
یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ بلاول بھٹو زرادری وزیراعظم سے شکوہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے تین ماہ قبل پانچ مارچ کو کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اگر وزیراعظم نے سیلاب متاثرین سے کیے گئے وعدے پورے نہ کیے تو ہمارے لیے وزارتوں میں رہنا مشکل ہو جائے گا۔‘
سیاسی مبصرین حکومت میں شامل ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان پیدا صورت حال کو زیادہ سنجیدہ معاملہ نہیں سمجھتے بلکہ بعض تجزیہ کاروں کا تو کہنا ہے کہ یہ ’ووٹرز کو رِجھانے کے لیے محض نمائشی بیانات ہیں۔‘
’ٹکراؤ ابھی سنگین نہیں ہو گا‘
سینیئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز آمنے سامنے آ چکی ہیں۔ ان کے مفادات ایک ہی ہیں۔ یہ اکٹھے نہیں رہیں گے تو حکومت نہیں بچے گی جس کا فائدہ تحریک انصاف کو ہو گا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز میں اس طرح کے چھوٹے موٹے مفادات کا ٹکراؤ تو ہو گا لیکن یہ ابھی سنگین شکل اختیار نہیں کرے گا۔‘
’الیکشن کی تاریخ سیریس معاملہ‘
کیا یہ الیکشن مہم کا اغاز نہیں؟ اس سوال کے جواب میں سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’ہاں، یہ سیریس بات ہے کیونکہ پیپلز پارٹی فوری الیکشن چاہتی جب کہ مسلم لیگ نواز کا خیال اس کے برعکس ہے۔ اس میں یہ دیکھنا اہم ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کیا چاہتی ہے۔‘
’جہاں تک سیلاب متاثرین کے لیے فنڈز یا نجم سیٹھی کی پوزیشن کا معاملہ ہے، یہ اتنے بڑے ایشوز نہیں ہیں۔ یہ مسائل تو حل ہو سکتے ہیں۔ اصل اور سیریس معاملہ الیکشن کی تاریخ کا ہے کیونکہ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ الیکشن وقت پر ہوں۔ میرے خیال میں جب الیکشن کی تاریخ پر بات ہو گی تو سیاسی منظرنامہ کافی واضح ہو جائے گا۔‘
’ن لیگ، پیپلزپارٹی ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے‘
سینیئر تجزیہ کار ارشاد احمد عارف کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی اس طرح کے بیانات دے کر اپنے ووٹرز اور عوام کو یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ حکومت میں ہوتے ہوئے بھی انہیں عوام کا احساس ہے۔
ارشاد عارف نے بلاول بھٹو زرداری کے حالیہ بیانات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ سب ڈرامے بازی ہے۔ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ ووٹرز ان کے رویوں اور پالیسیوں سے نالاں ہیں۔ اس لیے یہ نورا کشتی کر کے الیکشن میں جانا چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی کو خوف ہے کہ عام انتخابات میں تاخیر کا فائدہ مسلم لیگ نواز کو ہو گا یا پھر اسٹیبلشمںٹ کو۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ الیکشن وقت پر ہی ہوں۔‘
’اپنے ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے پیپلز پارٹی کو خدشہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آئین سے کوئی نکتہ نکال کر عام انتخابات ملتوی کروا دیے جائیں۔‘
’ن لیگ دو دھڑوں میں تقسیم ہے‘
ارشاد عارف نے مزید بتایا کہ ’مسلم لیگ نواز الیکشن کے معاملے میں دو دھڑوں میں تقسیم ہے۔ الیکشن مؤخر کرنے کا حامی دھڑا یہ سمجھتا ہے کہ کچھ وقت لیا جائے تاکہ لوگ حکومت کی سوا سال کی کارکردگی کو بھول جائیں۔‘
