پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں حالات و واقعات 9 مئی کے واقع کے بعد دنوں کی بجائے گھنٹوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ جیسے ہی پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں اور امیدواروں نے پارٹی سے منہ موڑنا شروع کیا ہے، حکومتی اتحاد کی جماعتوں میں بھی مستقبل کے حوالے ایک تناؤ کی کیفیت عیاں ہو رہی ہے۔
پیپلز پارٹی پارلیمنٹیریز کے صدر آصف علی زرداری لاہور میں کچھ دن گزارنے کے بعد علاج کی غرض سے دبئی جا چکے ہیں۔ جب وہ لاہور میں تھے تو یہ تاثر دکھائی دیا کہ شاید وہ پاکستان تحریک انصاف سے منحرف ہونے والے رہنماؤں کو اپنی پارٹی میں شامل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ پی ٹی آئی کے کچھ سابق امیدواروں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت بھی اختیار کی۔
مزید پڑھیں
-
لاہور میں پیپلز پارٹی کے بینرز اور جھنڈے کتنے معنی خیز ہیں؟Node ID: 770806
سیاسی مبصرین کے مطابق آصف علی زرداری ’استحکام پاکستان پارٹی‘ کے قیام سے کچھ زیادہ خوش نہیں ہیں۔
ق لیگ کے صوبائی صدر چوہدری سرور نے گزشتہ روز ایک بیان میں کہا کہ ’استحکام پاکستان پارٹی لندن کے اشارے پر بنی ہے۔‘جس سے اس تاثر کو مزید تقویت ملی ہے کہ آئندہ سیاسی منظر نامے میں اب ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات کا ظہور ہو چکا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق یہ ایک قدرتی عمل ہے۔
سیاسی تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ ’یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے یہ نوشتہ دیوار تھا۔ تحریک انصاف اور عمران خان جتنے کمزور ہوں گے اتنے ہی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آئیں گے۔‘
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طاقتور عمران خان کے ہوتے ہوئے ان کے درمیان اختلافات پس پردہ چلے جاتے ہیں۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا ’استحکام پاکستان پارٹی‘ کی وجہ سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں دوریاں شروع ہوئیں؟ تو ان کا کہنا تھا ’واضع اختلافات تو چیئرمین پی سی بی اور کشمیر الیکشن میں سامنے آئے ہیں کہ سب ٹھیک نہیں ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں آصف علی زرداری اور چوہدری سرور جو اہداف حاصل کرنا چاہتے تھے وہ پورے نہیں ہوئے کیونکہ استحکام پاکستان پارٹی بھی ادھر جائے گی جو (جماعت) اگلے انتخابات میں زیادہ ووٹ لے کر آئے گی۔ شاید چوہدری سرور کا بیان اسی کی پیش بندی ہے۔‘

مسلم لیگ ن کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی سلمان غنی پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان تناؤ کی کیفیت کو تو مانتے ہیں البتہ وہ جہانگیر ترین کی نئی پارٹی کو اس کی وجہ نہیں سمجھتے۔
انہوں نے کہا کہ ’میرا یہ تجزیہ تھا کہ بجٹ کے بعد پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی چپلقش واضع ہو جائے گی۔ کیونکہ پیپلز پارٹی بلاول کو وزیراعظم بنانے کے لیے غیر حقیقی طور پر پُرجوش ہے جو ن لیگ کو کسی طور پر قابل قبول نہیں۔‘
سلمان غنی کے مطابق ن لیگ اس وقت زیادہ پریشان ہے۔ اور مریم نواز کے شروع ہونے والے جلسے اس کی مثال ہیں اور یہ جلسے اب ہوتے رہیں گے۔
’سوال یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی کا ووٹر پاکستان استحکام پارٹی کو ووٹ دے گا؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو اس کا ن لیگ کو کیا فائدہ ہو گا؟ میری خبر یہ ہے کہ یہ پارٹی 30 سے 35 سیٹیں لے گی اور اگلے وزیراعظم کے لیے بارگین کرے گی جس سے اسٹیبلشمنٹ اور مضبوط ہو گی۔‘
سیاسی مبصرین ایک بات پر متفق ہیں کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان سب اچھا نہیں ہے، کیونکہ دونوں کے اہداف مختلف ہیں۔
