اس واقعے کے بعد نیلم پولیس نے کنڈل شاہی ذبح خانے پر چھاپہ مار کر دو ذبح شدہ جبکہ ایک زندہ بکری برآمد کر لی ہے۔ دیگر بکریوں کے بارے میں ابھی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
نیلم پریس کلب کے صدر عثمان طارق چغتائی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’بکریاں چوری کر کے کنڈل شاہی میں فروخت کی گئیں تاہم ابھی تک اس واقعے میں ملوث افراد گرفتار نہیں ہو سکے۔‘
عثمان طارق کے بقول ’یہ واقعہ چونکہ تھانہ لوات کی حدود میں پیش آیا ہے، اس لیے کنڈل شاہی پولیس نے متاثرہ خاندان کو لوات بھیج دیا ہے۔ مزید کارروائی وہاں ہو گی۔‘
’بچے اٹھ کر سڑک میں پہنچے تو گاڑی نکل گئی‘
اس واقعے سے جڑی ایک ویڈیو بھی سامنے آئی ہے جس میں بکریوں کی مالک بزرگ خاتون کو روتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
خاتون گوجری زبان میں کہہ رہی ہے ’بڑا ظلم ہوا ہے۔ میرے نو جانور چوری ہوئے جن میں دو بکرے تھے، باقی سب بکریاں تھیں۔‘
’یہ تین بجے کی بات ہے۔ جب سڑک سے ایک بکرے کی آواز آئی۔ میرے دونوں لڑکے سوئے ہوئے تھے، وہ اٹھے لیکن جب وہ سڑک تک پہنچے تو (بکریوں کے لے جانے والی) گاڑی چل پڑی۔‘
خاتون روتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ ’ان میں سے دو بکریاں بچوں والی تھیں۔‘
بکروال کون ہیں؟
یہ وہ خانہ بدوش خاندان ہیں جو اپنے بھیڑوں اور بکریوں کے ریوڑوں کے ساتھ موسموں کے لحاظ سے مختلف علاقوں میں سفر کرتے اور پڑاؤ ڈالتے رہتے ہیں۔
موسم بہار کی آغاز سے یہ کشمیر اور شمالی علاقوں کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں جبکہ شدید سرد موسم شروع ہونے سے کچھ قبل یہ واپس پنجاب کی جانب چل پڑتے ہیں۔
ان بکروال خاندانوں کے قافلے سڑکوں کے ذریعے سفر کرتے ہیں۔ ان کے ریوڑوں کے ساتھ بار بردار جانور گھوڑے اور خچر بھی ہوتے ہیں جبکہ ریوڑ کی حفاظت کے لیے یہ اپنے ساتھ خاص نسل کے کتے بھی رکھتے ہیں۔
بکروال کشمیر میں دریائے نیلم کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور پھر اونچے پہاڑوں پر موجود چراگاہوں میں خیمے لگا لیتے ہیں۔