سرحد پار کرنے کی غلطی، پاکستانی شہری کو انڈیا سے واپسی میں کئی برس لگ گئے
سرحد پار کرنے کی غلطی، پاکستانی شہری کو انڈیا سے واپسی میں کئی برس لگ گئے
ہفتہ 27 مئی 2023 20:01
زین علی -اردو نیوز، کراچی
پاکستان کے جنوبی صوبے سندھ کے ضلع بدین کے علاقے گولارچی میں آباد بھیل برادری سے تعلق رکھنے والے پورا بئی بھیل کا کہنا ہے کہ غلطی سے سرحد عبور کرنے کی ایسی سزا ملی کہ ’سزا پوری ہونے پر رہائی کے بجائے انڈیا میں ایک اور جیل بھیج دیا گیا تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارا قصور صرف اتنا تھا کہ ہم پاکستانی تھے۔‘
انڈیا سے رہا ہو کر پاکستان پہنچنے والے 40 سالہ پورا بئی بھیل نے کراچی میں اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ چار سال قبل پاکستان کے صوبہ سندھ کے صحرا تھرپارکر کے علاقے ننگر سے اس نے غلطی سے سرحد عبور کر لی تھی۔
پورا بئی بھیل کے مطابق جب انہوں نے سرحد عبور کی تو پاکستانی لباس شلوار قمیص پہنا تھا جسے دیکھ کر انڈین بارڈر فورس نے بلایا اور سوال جواب کیے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’بارڈر فورس کے اہلکاروں نے کہا کہ اگر اپنے بارے میں سچ بتاؤ گے تو چھوڑ دیں گے۔‘
پورا بئی بھیل کے مطابق ’میں نے اپنے بارے میں سب کچھ سچ سچ بتایا کہ پاکستانی ہوں، سندھ سے میرا تعلق ہے اور گولارچی کا رہنا والا ہوں، شاید غلطی سے بارڈر پار کرکے انڈیا میں آ گیا ہوں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’بارڈر فورس نے مکمل معلومات لینے کے بعد مجھے چھوڑنے کے بجائے انڈین پولیس کے حوالے کر دیا۔ پولیس نے مجھ پر کیس بنایا اور عدالت میں پیش کیا جہاں مجھے دو سال کی سزا اور چار ہزار کا جرمانہ ہوا۔‘
پورا بئی بھیل نے بتایا کہ ’میں نے دو سال کی سزا کاٹی اور چار ہزار جرمانہ نہ دینے کی وجہ سے مجھے مزید سزا گزارنا پڑی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جب جرمانے کی سزا کا وقت بھی پورا ہوا تو مجھے امید ہوئی کہ شاید اب میں اپنے ملک پاکستان جا سکوں گا۔ مجھے ایک روز سینٹرل جیل سے نکال کر ایک اور جیل منتقل کر دیا گیا۔ جب جیلر سے پوچھا کہ میری سزا تو پوری ہوگئی مجھے اب کیوں قید میں رکھا جا رہا ہے تو جواب ملا کہ اس جیل میں سزا پوری کرنے والے قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔‘
جیل کے حالات بیان کرتے ہوئے پورا بئی بھیل نے کہا کہ ’قید میں ٹی وی، اخبار سمیت کسی طرح کی سہولت نہیں دی گئی تھی۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ باہر کیا ہو رہا ہے۔ عید گزری، تہوار گزرے گھر والوں کی یاد آتی تھی۔ لیکن ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ بے بسی میں وقت گزار رہے تھے۔‘
پورا بئی بھیل نے بتایا کہ ’جیلر اور ساتھ موجود قیدیوں سے بار بار رہائی کے بارے میں پوچھتا تھا۔ وہ کہتے تھے ہم یہاں کئی کئی سال سے ہیں تم تو ابھی آئے ہو کہاں سے ابھی رہائی ملنی ہے۔ ایسے میں ایک دن جیلر نے بتایا کہ پاکستان نے 198 انڈین قیدی چھوڑ دیے ہیں۔ اب پاکستان کے قیدی بھی رہا کیے جائیں گے۔‘
’میں یہ سوچھتا تھا کہ میں تو رہا نہیں ہو سکوں گا کیونکہ یہاں تو کتنے سالوں سے لوگ قید ہیں، وہی جائیں گے میرا نمبر تو کتنے سال بعد ہی آئے گا، لیکن جیلر نے بتایا کہ مجھے میں چھوڑا جا رہا ہے۔ یہ لمحہ میرے لیے بیان کرنا ممکن نہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’جب ہم نے لاہور انڈیا کا بارڈر پار کیا اور پاکستانی لوگوں کے پاس آئے تو سکون کا سانس لیا۔ ابھی یہاں کراچی تک آ گئے ہیں، ایدھی والوں نے سامان اور گھر جانے کا انتظام کیا ہے۔‘
پاکستان کے فلاحی ادارے ایدھی فاؤنڈیشن کے انچارج سعد ایدھی نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’پاکستان کی جانب سے 198 انڈین قیدیوں کی رہائی کے بعد انڈیا نے بھی 10 پاکستانی قیدی رہا کیے جن میں 9 ماہی گیر ہیں جنہیں سمندری حدود کی خلاف ورزری پر گرفتار کیا گیا تھا اور ایک غلطی سے سرحد عبور کرنے والا ضلع بدین گولارچی کا رہائشی ہے۔‘
سعد ایدھی کے مطابق اُن کی فاؤنڈیشن نے دونوں ملکوں کے قیدیوں کے لیے سامان عطیہ کیا۔ فوٹو: اردو نیوز
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے جذبہ خیر سگالی کا پیغام بھیجا تھا اب اس کا مثبت جواب آیا ہے۔ ’دونوں ملکوں کو ان قیدیوں کی رہائی کے لیے مشترکہ لائے عمل بنانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ دونوں طرف کے ماہی گیر غریبی میں ہی زندگی گزار رہے ہیں۔ اور ایسے میں کئی سال تک جیلوں میں قید رہنے کی وجہ سے ان کے معاشی حالات مزید خراب ہو جاتے ہیں اور اہلخانہ کو بھی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
یاد رہے کہ پاکستان نے جذبہ خیر سگالی کے تحت ملک کی جیلوں میں قید 500 انڈین قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ کیا تھا۔ اور وفاقی وزیر خارجہ بلاول بھٹو کے گوا میں شنگھائی تعاون تنظیم کی کانفرنس میں شرکت سے قبل پہلے مرحلے میں 200 انڈین ماہی گیر کو رہا کرکے انڈیا بھیجا گیا تھا۔