روشنیوں کا شہر ، جاگتی راتیں ، کاروبار کرتے دن، سارے پاکستان کیلئے روزگار کا ذریعہ ، لوگوں کے چہروں پرسکون اور اطمینان
- - - - - - - - - - - - -
تحریر :مصطفی حبیب صدیقی
- - -- - - - - - - - -
’’چمکتا ،دمکتا چہچہاتا کراچی‘‘ ایک مرتبہ پھر دیکھنے کو ملا تو ایسا لگا کہ برسوں بعد زندہ ہوا ہوں۔7سال سعودی عرب میں گزارنے کے بعد ایک مرتبہ پھر اپنے آبائی شہر میں آبسا ہوں مگر اب یہ وہ کراچی نہیں جو 2010ء میں چھوڑ کر گیاتھا۔روشنیوں کا شہر ،جاگتی راتیں ،کاروبارکرتے دن ،سارے پاکستان کیلئے روزگار‘‘یہ وہ کراچی تھا جس کا تذکرہ ہم سب نے سنا تھا اور ایک مرتبہ پھر تقریباً ایسا ہی کراچی دیکھ رہے ہیں۔ آج سے 4سال پہلے یکم فروری کو اردو نیوز میں ایک کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا ،’’دہکتا ،سلگتا کراچی،بچوں کی معصومیت بھی ختم کرگیا‘‘
آج تقریباً7سال بعد ایک مرتبہ پھر مستقل طور پر کراچی میں آبسا ہوں تاہم اس مرتبہ کا کراچی اس قدر تبدیل ہے کہ میں اس پر آرٹیکل لکھنے پر مجبو رہوگیا ہوں۔بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے ملک کے بارے میں زیادہ فکر مند رہتے ہیں اور عموماً خبریں بھی پریشان کن ہی ملتی ہیں مگر یقین جانئے اب یہ وہ ملک نہیں رہا۔میں نے لوگوں کے چہروں پرسکون اور اطمینان دیکھا۔
کراچی میں ترقیاتی کام تیزی سے جاری ہیں جن کی وجہ سے کچھ ٹریفک جام اور دیگر مسائل بھی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ کافی عرصے بعد کراچی میں واقعی ترقیاتی کام دیکھیں ہیں۔سہراب گوٹ سے صدر جانے کیلئے فلائی اوور پر چڑھا تو واٹر پمپ اور پھر عائشہ منزل یہاں تک کے تین ہٹی تک فلائی اوور پر بغیر کسی رکاوٹ اور سگنل کے نمائش چورنگی تک پہنچ گیا۔میرا خیال تھا کہ پریس کلب پہنچنے میں45منٹ تو لگ ہی جائیں گے مگر میں تو محض25منٹ میں پریس کلب پہنچ چکاتھا۔وقت بھی دن کا تھا۔گلشن اقبال سے بھی پریس کلب کے لئے روانہ ہوا تو نیپا سے نمائش تک بغیر کسی رکاوٹ چلتا گیا۔اردوسائنس کالج پر سڑک کی تعمیر کی وجہ سے کچھ ٹریفک جام کا مسئلہ رہا تاہم عمومی طور پر راستہ کلیئر ملا۔ٹریفک پولیس کو بھی اپنا کام کرتے دیکھا جو پہلے سے کافی بہتر انداز میں ٹریفک کنٹرول کررہی ہے۔ ناظم آبا د میں گرین لائن بس کیلئے جاری کام دیکھ کر دلی خوشی ہوئی۔ایک دوست کے ساتھ گاڑی میں جاتے ہوئے ایسے ہی تنقید کی کہ یار یہ کام تو برسوں میں بھی مکمل نہیں ہوگا،تو جواب ملا کہ میں نے خود دیکھا ہے کہ یہاں 24،24گھنٹے کام ہورہا ہے۔میں رات4بجے دفتر سے واپس آیا ہوں تو کام ہوتے دیکھا ہے۔
یار اب یہ وہ کراچی نہیں کافی کچھ بدل گیا ہے۔ دوست کے دلائل پر یقینا میں بھی سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ ہاں کافی کچھ بدل گیا ہے۔رینجرز آپریشن کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد کو تقریباً ختم کردیاگیا۔اکا دکا موبائل چھیننے کے واقعات ہوتے ہیں مجموعی طور پر راتیں بھی جاگ رہی ہیں۔ 80ء کی دہائی کی طرح اب میں خود ا پنی بیگم اور بچوں کو لے کر گلشن اقبال بلاک 6سے رات 12بجے ٹہلتا ہوا ڈسکو بیکری گیا ہوں اور لمکا ڈرنگ کے مزے لئے۔رات2بجے ہم چہل قدمی کرتے واپس آئے ،نہ کوئی ڈر نہ خوف۔حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں رینجرز اور پولیس نے کافی حد تک امن قائم کردیا ہے جبکہ لوگوں میں بھی امن کا شعور آچکا ہے۔ ماضی میں ہڑتالوں اور احتجاجی سیاست کا ساتھ دینے والی عوام اب امن چاہتی ہے جس کی واضح مثال ہے کہ کراچی میں احتجاج کے دوران کوئی خاص عوامی شمولیت نہیں دیکھی جارہی۔
عوام اب سکو ن چاہتے ہیں۔ کراچی میں اوبراور کریم ٹیکسی سروسز نے بھی کافی حد تک ٹرانسپورٹ کو باعزت بنادیا ہے تاہم چنکچی رکشوں کی وجہ سے اب بھی ٹریفک روانی متاثر ہوتی ہے جس کی طرف حکومت کو سیاست سے بالائے طاق ہوکر دیکھنا ہوگا۔کراچی میٹروپولیٹن سٹی ہے تاہم اس شہر کی اہمیت کے لحاظ سے ٹرانسپورٹ سسٹم اب تک نہیں لایاجاسکا ہے۔ماضی میں سٹی ناظم نعمت اللہ خان کے دور میں گرین بسیں چلیں تھیں جن سے کافی حد تک باعزت ٹرانسپورٹ میسر آئی تھی تاہم وہ بھی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ شہر قائد میں پٹھان بھائیوں کے چائے کے ہوٹل ہمیشہ سے معروف رہے ہیں جہاں سستی تفریح میسر آتی ہے ۔ماضی میں ہم خود ان نوجوانوںمیں شامل ہوتے تھے جو پوری پوری رات پٹھان کے چائے کے ہوٹل یا کیفے پیالہ پر گزاردیتے تھے پھر ایک وقت آیا کہ شہر میں فسادات کی وجہ سے نوجوانوں کی یہ سستی ترین تفریح ختم ہوگئی۔
پٹھان بھائی ہوٹل بند کرنے پر مجبور ہوگئے اور کیفے پیالہ جو 24گھنٹے کھلنے کی وجہ سے ہی مشہور تھا وہ بھی سناٹے میں رہنے لگا۔مگر اب ایک مرتبہ پھر رات رات بھر چائے کے ہوٹل کھلے ہیں،نوجوان بیٹھے گپیں مارہے ہیں،حتیٰ کے کئی ہوٹلوں کے باہر گاڑیوں میں خواتین کو دیکھا جو اپنے گھر کے مردوں کے ساتھ آئیں ہیں اور ہوٹلوں سے چائے پی رہی ہیں۔ بدلتا کراچی دیکھ کر یقینا خوشی ہوئی اور دل سے دعا نکلی کے اللہ اس کراچی کو کسی کی نظر نہ لگے مگر ساتھ ہی یہاں یہ بات بھی کہنا ضروری ہے کہ کراچی میں پیداہونے وا لی محرومیوں کا ازالہ بھی ضروری ہے۔شہر قائد پاکستان کو 65فیصد ریونیو دیتا ہے اس کے باوجود یہاں کا انفرااسٹریکچر وہ نہیں جو اس کا حق ہے۔جب اسلام آباد کو بنایاجاسکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ پورٹ رکھنے والے کراچی کو نہیں بنایاجاسکتا۔کافی بہتری کی گنجائش ہے جس پر امید ہے کہ حکومت سنجیدگی سے توجہ دے گی۔