پاکستان کی قومی اسمبلی نے پنجاب میں الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کو ایک قرارداد کے ذریعے ’مسترد‘ کیا ہے۔
قومی اسمبلی میں جمعرات کو منظور کی گئی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ’یہ ایوان سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کا فیصلہ مسترد کرتا ہے۔‘
قرارداد کے مطابق ’یہ ایوان تین رکنی بینچ کا اقلیتی فیصلہ مسترد کرتے ہوئے وزیراعظم اور کابینہ کو پابند کرتا ہے کہ اس خلافِ آئین و قانون فیصلے پر عمل نہ کیا جائے۔‘
مزید پڑھیں
-
اس طرح کا کھلواڑ پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا: شہباز شریفNode ID: 756101
-
سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف قرارداد منظور، ’فل کورٹ نظرثانی کرے‘Node ID: 756286
خیال رہے کہ منگل کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن کے انتخابات کو ملتوی کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے صوبہ پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کروانے کا حکم دیا ہے۔
پاکستان کی پارلیمںٹ سے سپریم کورٹ کے کسی فیصلے کے خلاف قرارداد کا آنا ایک انوکھے عمل پر طور دیکھا جا رہا ہے۔ اتحادی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے سے نالاں ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اسے آئین کی فتح قرار دے رہے ہیں۔
تحریک انصاف نے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ملک کے مختلف شہروں میں ’یوم تشکر‘ کے عنوان سے تقریبات بھی منعقد کیں۔ اس سے پہلے عمران خان نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’سپریم کورٹ کے پاس فوج نہیں ہوتی۔ قوم کو سپریم کورٹ کے فیصلوں کے پیچھے کھڑا ہونا ہوتا ہے۔‘
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ریاست کے دو اہم ستون پارلیمنٹ اور عدلیہ میں تصادم کی کیفیت دکھائی دے رہی ہے جو ملک کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔
’بے معنیٰ اقدام اور وقت کا ضیاع ہے‘
سینیئر قانون دان اور سندھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس (ر) شائق عثمانی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پارلیمنٹ کی جانب سے ایسی قرارداد کی پہلے تو کوئی مثال نہیں ملتی، لیکن یہ اقدام بالکل بے معنی ہے۔ اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔‘
کیا یہ اداروں کے درمیان کھلا تصادم نہیں ہے؟ اس سوال کے جواب میں شائق عثمانی نے کہا کہ ’دیکھیں ہمارے ملک میں تصادم تو چلتے رہتے ہیں۔ پچھلے چھ ماہ سے یہی کیفیت ہے۔ ہر کوئی اپنی اپنی کوشش میں لگا ہے۔‘

جسٹس (ر) شائق عثمانی نے اس بحرانی کیفیت کے حل سے متعلق سوال کے جواب میں مختصراً کہا کہ ’اس کا قانونی راستہ یہی ہے کہ حکومتی پارٹیاں سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست فائل کریں۔‘
’اس قرارداد سے سپریم کورٹ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ کورٹ نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔ اگر اس پر عمل نہیں ہو گا تو اس کے قانون کے مطابق نتائج ہوں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’حکومت کے پاس ایک راستہ اس صورت میں ہے کہ ان کے پاس اگر دو تہائی اکثریت ہو تو یہ آئین میں ترمیم کر سکتے ہیں۔‘
’فُل کورٹ میٹنگ بلانا اہم ہے‘
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں عدلیہ اور پارلیمان کی کشمکش ماضی میں بھی رہی ہے، لیکن اب کی بار بہت ہی ڈائریکٹ قسم کا تصادم ہے۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ پاکستان میں ایسی کوئی مثال سامنے آئی ہو۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس کشمکش کی وجہ سے دونوں ادارے خراب ہو رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے اندر بھی اختلافات کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔ 1997ء کی طرح کی صورت حال بنتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ جو کچھ ہو رہا ہے۔ اس سے اچھا پیغام نہیں جا رہا۔‘
قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ کے حوالے سے سوال کے جواب میں مظہر عباس کا کہنا تھا کہ ’قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں امن و امان کی صورتحال اور آئی ایم ایف سے جڑے معاملات بھی زیربحث آئیں گے۔ تاہم اس وقت جو صورت حال ہے اس کا کسی ایک فریق کو مکمل طور پر ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘
