لاہور کے گنجان آباد علاقے ٹاؤن شپ میں ماڈل بازار میں صبح 7 بجے ہی لوگ سستا آٹا لینے کے لیے پہنچنا شروع ہو جاتے ہیں۔
مفت آٹے کی تقسیم کا وقت تو 8 بجے شروع ہوتا ہے لیکن طویل قطاروں کی زحمت سے بچنے کے لیے تقسیم کے مقررکردہ وقت سے پہلے ہی لوگوں کی آمد شروع ہو جاتی ہے۔ ان میں تقریباً ہر عمر کے خواتین اور مرد شامل ہوتے ہیں۔
محمد پرویز کو آج تیسرا روز ہے کہ ٹاؤن شپ کے ماڈل بازار میں روزانہ آ رہے ہیں لیکن ان کو آٹا نہیں مل رہا۔
مزید پڑھیں
-
کراچی میں راشن کی تقسیم کے دوران بھگدڑ، بچوں سمیت 11 افراد ہلاکNode ID: 754776
وہ بتاتے ہیں کہ ’میں ایک مزدور شخص ہوں اور لگاتار چکر لگا رہا ہوں، میرا شناختی کارڈ کمپیوٹر میں ڈال کر کہتے ہیں کہ میں نااہل ہوں۔‘
’کبھی بھیج دیتے ہیں کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں پہلے اپنا نام درج کروائیں پھر آپ اہل ہوں گے، لیکن نہ اِدھر نام داخل ہو رہا ہے اور نہ یہ قبول کر رہے ہیں، نہ میری اہلیہ کو آٹا دیتے ہیں نہ مجھے۔‘
رمضان کے وسط میں ویسے تو اب آٹے کی تقسیم کے مراکز پر پہلے سے رش کم ہوچکا ہے، تاہم ابھی بھی بڑی تعداد ان سینٹرز سے خالی ہاتھ واپس لوٹ رہی ہے۔
ایک باریش شخص بہادر سلطان مختلف آٹا سینٹرز سے ہوتے ہوئے ٹاؤن شپ مرکز پہنچے تو انہوں نے بتایا کہ ’میں ٹاؤن شپ سے ہوں پہلے گڑھی شاہو گیا تھا، وہاں آٹے کے 12 ٹرک کھڑے تھے لیکن شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد مجھے بتایا گیا کہ میں نااہل ہوں۔‘
’اب میں کوشش کر کے اس سینٹر پر پہنچا ہوں۔ میری والدہ ساڑھے تین سال سے چارپائی پر ہیں خود بھی بیمار ہوں، میں بہت مستحق ہوں اور دعا کر رہا ہوں کہ مجھے آٹا مل جائے۔‘
بہادر سلطان نے بتایا کہ ’ایک دفعہ مسجد کی قرعہ اندازی میں ان کا مفت عمرے کا ٹکٹ نکلا تھا، شاید اس وجہ سے اب ان کو مستحق افراد کی فہرست میں شامل نہیں کیا جا رہا۔‘
پنوں نام کے ایک عمر رسیدہ شخص بتایا کہ وہ باگڑیاں کے رہائش ہیں اور پہلی مرتبہ آٹا لینے آئے ہیں لیکن چیک کرنے کے بعد انہیں بتایا گیا کہ ان کے شناختی کارڈ پر آٹا دستیاب نہیں ہے۔

کئی گھنٹے ٹاؤن شپ میں مفت آٹا سکیم کے سینٹر پر گزارنے کے بعد یہ بات سمجھ آئی کہ بڑی تعداد میں لوگ آٹا لینے کی وجہ سے چند تکنیکی نقائص کے باعث اس سے محروم رہ رہے ہیں۔
سینٹر پر موجود عملے نے بتایا کہ انہیں صرف ان افراد کو آٹا دینے کی اجازت ہے جن کا نام سسٹم میں موجود ہے۔
ایک اہلکار نبیل نے بتایا کہ ’ہمیں لوگوں کی مشکلات کا اندازہ ہے لیکن وہ کچھ بھی کرنے سے اس لیے قاصر ہیں کہ اس سینٹر پر جتنے بھی آٹے کے تھیلے بھیجے گئے ان کا سسٹم میں ریکارڈ موجود ہے۔‘
’اگر اسی تناسب سے ان افراد کو آٹے کے تھیلے نہ دیے گئے جنہوں نے موبائل فون سے اپنی رجسٹریشن کروائی ہے تو آڈٹ میں وہ ہمارے کھاتے میں چلے جائیں گے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اس لیے کوئی بھی سرکاری ملازم یہ رسک لینے کو تیار نہیں کہ اپنی مرضی سے کسی کو آٹے کا تھیلا دے دے۔‘
لوگوں میں مفت آٹا دو طرح سے تقسیم کیا جا رہا ہے، ایک تو ایسے افراد ہیں جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں پہلے ہی سے رجسٹرڈ ہیں۔ دوسرے ایسے افراد ہیں جنہوں نے اپنی رجسٹریشن کروائی ہے۔

پنجاب میں رجسٹریشن کروانے کے لیے 8070 پر اپنا شناختی کارڈ نمبر لکھ کر بھیجیں تو سسٹم آپ کو بتا دے گا کہ آپ مفت آٹا لینے کے لیے اہل ہیں یا نہیں۔
تاہم ایسے افراد بڑی تعداد میں موجود ہیں جو اپنے آپ کو آٹا لینے کا مستحق سمجھتے ہیں لیکن دیا گیا سرکاری نمبر ان کو نااہل افراد کے کھاتے میں ڈال دیتا ہے جس وجہ سے ان کی رجسٹریشن نہیں ہو پا رہی۔
تمام مفت آٹا سینٹرز پر آپ کو بڑی تعداد ایسے افراد کی نظر آئے گی جو سسٹم کی طرف سے مفت آٹا لینے کے لیے خود کار طریقے سے نااہل قرار دیے گئے ہیں۔
ایسے افراد پھر بھی اس امید پر ان سینٹرز کا رخ کر رہے ہیں کہ شاید تقسیم کرنے والے اہلکاروں کو وہ اپنی بات سمجھا سکیں۔
تاہم ابھی تک ان کی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوئیں، کیونکہ تقسیم کار عملہ ان کو یہی بتاتا ہے کہ اگر سسٹم میں نام نہیں ہے تو ان کے پاس اس بات کا کوئی حل نہیں ہے۔
ڈپٹی کمشنر لاہور رافیعہ حیدر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہمیں دو طرح کے چیلنجز کا سامنا تھا، ایک تو پہلے دنوں میں رش بہت زیادہ تھا دوسرا وہ لوگ جن کا سسٹم میں نام نہیں تھا۔‘
