Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
منگل ، 29 جولائی ، 2025 | Tuesday , July   29, 2025
منگل ، 29 جولائی ، 2025 | Tuesday , July   29, 2025

سپریم کورٹ کا صائب مشورہ

ما ضیٔ قریب میں مقدما ت پر جو تبصرے اڑائے جا تے رہے ہیں وہ اخلا قیا ت کے دامن سے عاری رہے ہیں
- - - - - - - - - -
سید شکیل احمد
- - - - - --  - -
عدالت اعظمیٰ نے تحریک انصاف کے چیئر مین عمر ان خان اور سیکر یٹری جنرل جہا نگیر ترین کیخلا ف منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری سے متعلق کیس کی سماعت سے قبل حنیف عباسی اور دانیا ل عزیز کی میڈیا سے گفتگو کرنے پر اظہا ر بر ہمی کر دیا ۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے خفگی کا اظہا ر کر تے ہو ئے حنیف عباسی کے وکیل سے اپنے مکا لمے میں فرمایا کہ کیس سے متعلق گراؤنڈ طے کر لیں ۔انھو ں نے ریمارکس دئیے کہ جن عنا صر کا کیس سے تعلق نہیں وہ گفتگو کر رہے ہیں۔سماعت سے پہلے میڈیا پر بات چیت کر نا شروع ہو جا تے۔ ہیں تبصر ہ ضروری ہو تو وکیل کریں ، اصول واضح کرنا ہو گا کہ فریقین باہر جا کر کیس پرگفتگو نہ کر یں۔ چیف جسٹس نے عدالت کے احاطے میں ہر قسم کی گفتگو پر پابندی لگا دی ہے ۔
اگر جا ئزہ لیاجا ئے تو چیف جسٹس کا یہ فیصلہ ایک اصولی فیصلہ ہے کیو نکہ ما ضی قریب میں مقدما ت پر جو تبصرے اڑائے جا تے رہے ہیں وہ اخلا قیا ت کے دامن سے عاری رہے ہیں جبھی گزشتہ دنو ںچیف جسٹس نے تحریک انصاف کے سربراہ کو سبق یا د کر ایا تھا کہ عدالتی فیصلو ں پر اس انداز میںتنقید نہیں کی جا تی اور عمر ان خان نے آئندہ یہ سبق یا د رکھنے کی یقین دہانی بھی کر ائی تھی۔ اب مسلم لیگ کے رہنما ؤں کو جو سبق یا د کر ایا گیا ہے، اس پر مسلم لیگ کے رہنما سعد رفیق بولے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مخالفین نے سپریم کو رٹ کے فیصلے کی بار ہا توہین کی ، کسی نے روکا نہ پوچھا تنقید کر نے والے خود بھی نشانہ بنیں گے عمر ان خان کو رعایت دیں گے اور نہ لینے دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمر ان خان نا اہلی کیس میں میڈیا ٹاک پر پا بندی نا قابل فہم ہے۔ سپر یم کو رٹ میں دوران سما عت نو از شریف اور ان کی فیملی کا بد ترین ٹرائل ہوا ۔ عمر ان خان ، شیخ رشید ، سراج الحق اور بعض اینکر روزانہ عدالتی کا رروائی توڑمروڑ کرپیش کرتے تھے۔ عدالت کے باہر تحریک انصاف والو ں نے جو زہر اگلا ان پر کوئی پا بندی نہیںلگا ئی گئی ۔ اس مو قع پرسعد رفیق نے آئین کے آرٹیکل 25 کا حوالہ دیتے ہو ئے کہا کہ اسکے تحت سب برابر ہیں اور سب پر قانو ن کا مساوی تحفظ لا زم ہے۔ سعد رفیق کا یہ بھی موقف ہے کہ ان کامیڈیا ٹرائل سے جو نقصان ہو نا تھا ہو چکا ۔وفاقی وزیر ریلو ے کا گلہ بجا ہے ، جو پا بندی اب لگی ہے وہ اس وقت بھی ہو نا چاہیے تھی مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ایک برائی پہلے غفلت کی وجہ سے رنگ دکھا رہی تھی۔
اب بھی اپنے جلو ئے دکھا تی رہے ، مسلم لیگ ن کے اکا بر کو پر یشان ہو نے کی ضرورت نہیں۔ اگر ان کا کیس مضبوط ہے تو اس میں کو نسی پریشانی کی بات ہے البتہ ان کو خو ش ہو نا چاہیے کہ زبان درازی پر قینچی چل گئی ہے اور آئندہ ایسی حرکت کی کسی کو مجال نہیں ہو گی ۔وہ سنجید گی سے مقدمہ لڑیں اور اس کو سیاست کی نذر نہ کر یں جیسا کہ پی پی اور پی ٹی آئی مقدما ت کیساتھ سیا سی کھلواڑ کر تی رہی ہے ۔ مسئلہ کھلواڑ کا نہیں بلکہ سنجید گی کا ہے۔ یہ سب لانجھے اس لیے پالے جا تے ہیں کہ عوام کو گمر اہ کر کے اپنی سیا ست کی دکا ن کو چمکا یا جا تا رہے۔ ان میں وہ عنا صر بھی شامل ہیں کہ جن کے بارے میںیہ سوچا جا تا ہے کہ ان کی ہر بات دانشمندانہ ہو گی اور سنجید گی کا شاہکا ر ہو گی ،قوم کو رہنما ئی ملے گی مگر دیکھنے میں یہ آ یا ہے کہ یہ بعض سیاست دانو ں سے زیادہ سیا ست دانی کے وفادار ہیںاور اپنا اور عوام کا بھی دل شاد کر تے رہتے ہیں۔ ایک ایسے ہی صاحب ہیں۔ جب سے وہ ایک اعلیٰ عہدے سے ریٹائر ہو ئے ہیں انھو ں نے قلم کی نو ک پر دل شاد رکھنے کا گر سکھ لیا ہے۔ جس طر ح ساون کے اند ھے کو ہر اہی ہر ا نظر آتا ہے ان کو بھی ایسا لگتا ہے۔خیر سے ملا زمت سے سبکدو ش ہونے کے بعد خو دکو بیو روکر یٹ کی گتھی (تھیلی ) سے نکا ل کر کا لم نگا رو ں کی صف میں بطور دانش ور شامل کر رکھا ہے۔ ان کا ایک تا زہ کا لم نیوز لیکس کے پس منظر میں شائع ہو ا ہے جس میں انھو ں نے قلم کی طا قت کی بجائے تلو ار کی طاقت کی فوقیت بیان کچھ اس طرح کی ہے ، ملا حظہ فرمائیں:کہتے ہیں کہ 2012ء میں ہندوستانی فوج میں اضطراب پھیلا تھا کیو نکہ ہندوستانی آرمی چیف کی خواہش کے برعکس چندی گڑھ میں ایک کنا ل کا پلاٹ الا ٹ کیا گیا ، تو آرمی چیف نے وزارت دفاع سے استدعا کی۔ چونکہ ان کی اہلیہ دمہ کی مریضہ ہیں لہذا انھیں کا رنر پلا ٹ دیا جا ئے تاکہ ان کی اہلیہ کو تازہ ہو ا کے جھو نکے ملتے رہیں۔ ہندوستانی وزارت دفاع نے ان کی درخواست مستر د کر دی اور پا رلیمنٹ میں آرمی چیف کا مذاق اڑا گیا ۔ ہندوستانی آرمی چیف نے سپریم کورٹ آف انڈیا سے رجو ع کیا تو وہا ں بھی شنو ائی نہیں ہوئی ۔ دل شاد وآباد کر نے والے کا لم نگا ر نے یہ بھی لکھاکہ ہند کے زرخرید میڈیا نے اپنے آرمی چیف کا مذاق بھی اڑیا۔ ہندوستانی آرمی چیف کو کسی ادارے کی جانب سے رعایت یا ان کی خواہش پوری کر نے سے انکا ری میں جو اب مل گیا تو 14 لا کھ ہندوستانی آرمی میں غم وغصے کی لہر دو ڑ گئی اوریہ با ت بین الا قوامی میڈیا کے ریکا رڈ میں ہے کہ ہندوستانی آرمی اپنی حرمت کو بچانے کے میں حرکت میںآ گئی اور روہتک ، جھا نسی ، گڑگاؤں کی چھا ونیو ں سے کئی بٹالین فوج نئی دہلی کی طرف روانہ ہو گئی۔ یہ ساری صورتحال دیکھ کرہندوستانی پا رلیمنٹ کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔
چند گھنٹوں میں ہندوستانی جمہو ریت کا جنا زہ نکلتے دیکھ کر اسی رات ہنگا می بنیا دو ں پر ڈیفنس منسٹری نے آرمی چیف کی درخواست منظو رکرلی اوران کی خواہش کے مطابق پلاٹ الا ٹ کردیا اور پا رلیمنٹ نے افواجِ ہند کے حق میں قرار داد بھی منظور کی۔ کا لم نگا ر کا ادعا ہے کہ وہ اس واقعہ کے بارے میں متعدد بار کا لم نگا ر کا شرف حاصل کر چکے ہیں ۔ اب یہ سمجھ سے باہر بات ہے کہ کا لم نگا رکے بار بار اس واقعہ کو دہر ا نے کا مد عا کیا ہے اور وہ اس میں کس کی بر تری یا کونسی اصول پسند ی کا ذکر کر رہے ہیں یا کس کو خوف واندیشہ میں مبتلا کر رہے ہیں، کس کا دل شاد کر نے کے درپے ہیں جبکہ اس واقعہ سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ کوئی اصول پسندی یا قانو ن و آئین کی فوقیت نہیں، نہ اس میں کوئی اخلا قیا ت کا سبق ہے بلکہ اردو ضرب مثل کا عملی نمو نہ ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ۔ کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ ہندوستانی آرمی چیف جو وہ قانو نی یا اصولی طو پر حاصل نہ کر پائے وہ انھو ں نے جس راستے سے حاصل کیا وہ درست پا تا ہے۔ یہ باتیں لکھ کر تو مو صوف پر ویز مشرف کے اکتوبر 1999ء کے سنگین ترین جر م کو جائز قرار دے رہیں۔ گویا جمہوریت جو عوام کا مینڈیٹ ہو تا ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں بس سب کچھ طاقت کے ہی گر د گھو منا ہی درست ہے یا پھر سب کچھ مفاد ہی ہے۔اصول وقانو ن آئین واخلا قیات بے معنی ہیں ۔ان باتو ں سے وہ کس کی کر دار کشی کر رہے ہیں۔دانشمندی پر کیا پر دہ پڑ گیا ہے کہ عوام کو بد گما ن کیا جا رہا ہے طاقت کا ظہور دیکھ کر تاکہ عوام کا خود پر سے اعتما د اٹھ جا ئے ۔

شیئر: