ہیلی کاپٹر ہیرو جیری گرے سن اپنے اڑائے ہوئے ہیلی کاپٹروں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا
جیری گرے سن برسوں تک درجنوں طیارے اور ہیلی کاپٹر اڑا چکا ہے۔ شاہی بحریہ کے متعدد ریسکیو آپریشنز کا حصہ رہا ہے۔ 1979 میں بادبانی کشتیوں کی ایک دوڑ میں پیش آنے والے حادثہ کے بعد ریسکیو آپریشنز میں وہ 15 افراد کی جانیں بھی بچا چکا ہے۔ برسوں ہیلی کاپٹر اڑانے کے بعد جیری کو شوق ہوا کہ وہ ان تمام ہیلی کاپٹروں کو تلاش کرے جنہیں وہ اپنے طویل کیریئر کے دوران اڑا چکا ہے۔ ان ہیلی کاپٹروں کاپتہ لگانے کیلئے اسے 23 سال کا سفر کرنا پڑا تو اسے معلوم ہوا کہ اسکے زیر استعمال رہنے والے بیشتر ہیلی کاپٹر اب مختلف عجائب گھروں کی زینت بن گئے جبکہ اسکا استعمال شدہ صرف ایک ہیلی کاپٹر اب بھی سسکس کے ڈچلنگ علاقے میں متعین ایک یونٹ سے وابستہ ہے اور خدمات انجام دے رہا ہے۔ اس ہیلی کاپٹر کو ویسکس مارک ون کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
بعض ایسے ہیلی کاپٹروں کو کمرے کی شکل دے کر ان میں بستر لگا دیئے اور پردے لٹکا دیئے گئے ہیں۔ یہ اس ہیلی کاپٹر کی حالت ہے جسے وہ 1977 ءسے 1979 ءکے دوران کارنوال کے علاقے میں واقع بیس سے شروع کئے جانے والے 6 ریسکیو آپریشنز میں استعمال کرچکا تھا۔ یہ امدادی مشن پہاڑی اوردشوار گزار مقامات اور دور دراز ساحلی علاقوں میں پھنسے لوگوں کو نکالنے کے لئے کیاگیا تھا۔ ساحلی علاقوں میں سرفنگ کرنے والے افراد اور نسبتاً ناتجربہ کار بچے، جب سمندری لہروں کے ساتھ دور چلے جاتے ہیں تو انہیں وہاں سے نکالنا بڑا کام ہوتا تھا۔ ساحلی پہاڑی سے تنگ جگہ پر گر جانے والی ایک خاتون کو بھی ایک مرتبہ بچایا گیا جو حادثہ کی وجہ سے سخت زخمی ہوچکی تھی۔ امدادی کارروائیوں کے دوران دوسرے لوگ بڑی حیرت اور تجسس کے ساتھ امدادی پروازوں کو دیکھتے رہتے تھے۔ یہ حادثہ اس وقت ہوا تھا جب پہاڑی پر بنے اسٹیج پر ایک ڈرامہ بھی ہورہا تھا اور یہ خاتون اسی ڈرامہ کو دیکھنے کے دوران ذرا سی غفلت سے پہاڑی سے نیچے جاگری تھی۔ ڈرامہ کا نام مڈسمر نائٹس ڈریم ، تھا۔
کہا جاتا ہے کہ ہوا باز گرے سن کو اپنے زیر استعمال رہنے والے ہیلی کاپٹروں کو ڈھونڈنے کا شوق اس کے دل میں ایک ایسی ویب سائٹس کو دیکھ کر پیدا ہوا تھا جو خود بھی سابق پائلٹ تھا جس میں اس نے اپنے تجربات بھی بڑی تفصیل اور صراحت سے درج کردیئے تھے۔ اسکے بعد گرے سن نے اس ہو ا باز سے قریبی تعلق پیدا کرلیا۔ دونوں جب اس معاملے میں بڑی حد تک ایک دوسرے کے ہم خیال محسوس ہوئے تو انہوں نے مزید ایسی ہی اطلاعات کو جمع کرنا شروع کردیا۔ دونوں ہیلی کاپٹروں کی تاریخ کے حوالے سے بہت ساری معلومات اکٹھی کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اسکے بعد انہوں نے براہ راست ملاقات اور تبادلہ خیال کو ضروری سمجھا۔ اس ہوا باز سے ملاقات اور بات چیت کے بعد گرے سن میلبورن سے برطانیہ پہنچا اور وہاں لندن، سسکس ڈون کاسٹر، کیمبرج اور اپسوچ ، پوولٹن اور نیوپورٹ کے علاقے میں واقعہ ہوائی اڈوں ، ہیلی کاپٹر سینٹرز اور اسی قسم کی دوسری جگہوں کو دیکھا۔ اسکا کہنا ہے کہ ہیلی کاپٹر اور انسانی زندگی میں ایک طرح کی مماثلث بھی پائی جاتی ہے۔ ہیلی کاپٹر بھی پہلے اگلے محاذ پر ہوتے ہیں اور پھر انہیں ذرا پیچھے ثانوی کردار دیدیا جاتا ہے۔ جیسے عمر کے ساتھ انسان بھی غیر محسوس طور پر زندگی کے مختلف مرحلوں کی طرف مراجعت کرنے لگتا ہے ۔ گیرے سن کا کہنا ہے کہ اسکے زیر استعمال رہنے والے ہیلی کاپٹر 1960 ءکے عشرے کے ابتدائی برسوں میں نئے تھے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ اسکے زیر استعمال رہنے والے 31 ویسکس ہیلی کاپٹروں میں سے 12 اب بھی موجود ہیں۔
گرے سن نے 1972 میں محض 17 سال کی عمر میں فلیٹ ایئر آرم میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس وقت یہ شاہی بحریہ کا سب سے کمسن ہیلی کاپٹر پائلٹ ہونے کا اعزاز بھی حاصل کرچکاتھا۔ صرف 8 سال بعد یعنی 25 سال کی عمر میں وہ برطانیہ میں زمانہ امن کے دوران خدمات انجام دینے کے صلے میں سب سے زیادہ اعزازات حاصل کرنے والا ہیلی کاپٹر پائلٹ بن چکا تھا۔ ملکہ ایلزبتھ نے بھی اسے ایئر فورس کراس کے اعلیٰ اعزاز سے نوازا تھا۔ وہ 19 سال کی عمر میں وہ ایک مرتبہ ایٹمی اسلحہ بھی ایک جگہ سے دوسرے جگہ کامیابی سے منتقل کرنے کا اعزاز رکھتا ہے۔
اب گیرے سن فضائی فوٹوگرافی کے کاموں سے منسلک ہوگیا ہے۔ اسٹنٹ فلمو ں کیلئے بھی کام کرتا ہے جبکہ وہ سمندر کو دھوکہ دینے والا مددگار ہوا باز کے عنوان سے ایک کتاب بھی تحریر کررہا ہے جو اسکے تجربات او رمشاہدات پر مشتمل ہوگی۔
******