پاکستان کی سیاست میں لندن ہمیشہ سے ہی اہم رہا ہے۔ سنہ 2007 کا میثاق جمہوریت ہو یا 2014 کا عمران خان اور طاہر القادری کا مبینہ لندن پلان، لندن میں ہوئی سیاسی ملاقاتوں اور بیٹھکوں نے ہمیشہ ملکی سیاست پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی آج کل یہ بات بار بار کر رہے ہیں کہ ان کے خلاف ’سازش‘ لندن میں تیار ہوئی۔ بظاہر ان کا اشارہ نواز شریف کی طرف ہے کیونکہ وہ گزشتہ تین برس سے لندن میں قیام پذیر ہیں۔
پاکستان پر ’لندن‘ میں ہونے والی سیاست کا اثر اس بات سے بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ اسحاق ڈار جن کا گھر نیلامی کے قریب تھا، لندن سے آئے اور پاکستان میں وزیر خزانہ کی کرسی پر بیٹھ گئے۔
مزید پڑھیں
-
چوہدری پرویز الٰہی نے پنجاب کی بیوروکریسی کو کیسے قابو کیا؟Node ID: 703421
-
اپنا معاملہ اللہ تعالٰی پر چھوڑ دیا تھا: نواز شریفNode ID: 705161
-
مریم نواز کی چار برس بعد لندن روانگی، ایک ماہ قیام کا امکانNode ID: 706526
پنجاب کے ’چوہدری‘ وزیراعلی پرویز الٰہی بھی اچانک لندن پہنچے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر چہ مگوئیاں عروج پر ہیں کہ ان کا دورہ لندن ایسے وقت میں ہی کیوں ہو رہا ہے جب مریم نواز بھی لندن پہنچی ہیں اور نواز شریف کی بھی وطن واپسی کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔
سوال یہ بھی ہو رہا ہے کہ کیا شریف فیملی اور چوہدری خاندان کے درمیان کچھ نیا پک رہا ہے؟ بظاہر اس بات کی تردید چوہدری پرویز الہٰی نے خود لندن میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کی ہے۔
لندن میں مقیم پاکستانی صحافی مبین چوہدری نے اردو نیوز سے گفتگو میں چوہدری پرویز الٰہی کی لندن میں موجودگی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کے دیگر سیاست دانوں کی طرح گجرات کے چوہدریوں کا بھی دوسرا مسکن یورپ ہے۔ تاہم وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کا ایسے حالات میں دورہ لندن جب پاکستان کے سیاسی حالات انتہائی اہم موڑ پر ہیں، کسی اچنبھے سے کم نہیں لگتا۔‘
مبین چوہدری کا کہنا تھا کہ ’سوشل میڈیا کے طوفان میں بہہ جانے والوں نے تو مان لیا کہ چوہدری صاحب نواز شریف سے ملنے آئے ہیں جس کی انہیں تردید بھی کرنا پڑی اور عوام کو بتایا کہ وہ پانچ سال بعد اپنے بیٹے مونس الٰہی کی فیملی سے ملنے آئے ہیں۔‘
چوہدری پرویز الٰہی کے ترجمان نے بھی ان خبروں کی تردید کی ہے کہ ’یہ کوئی سیاسی دورہ ہے۔‘ انہوں نے بتایا کہ ’وزیراعلیٰ پرویز الٰہی نجی دورے پر ہیں اس بارے میں کسی بھی قسم کی باتیں محض ہوائی باتیں ہیں۔‘
لندن کی میں مقیم ایک اور پاکستانی صحافی اظہر جاوید اس بات کی تو تصدیق کرتے ہیں کہ یہ ایک ’لو پروفائل‘ دورہ ہے۔ تاہم وہ بھی اس کو مکمل طور پر غیرسیاسی ماننے کو تیار نہیں۔
