سٹیٹ بینک آف پاکستان نے کرنسی مارکیٹ میں ڈالر ریٹ میں مبینہ ہیر پھیر کے ذریعے اربوں روپے کمانے والے آٹھ کمرشل بینکوں کی فہرست منگل کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں پیش کی۔
فہرست کے مطابق ایچ بی ایل، یو بی ایل، الائیڈ بینک، نیشنل بینک، میزان بینک، بینک الحبیب، سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک اور حبیب میٹرو بینک نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔
مزید پڑھیں
-
آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر عمل درآمد کے باوجود ڈالر مہنگا کیوں؟Node ID: 675411
-
ڈالر کو 200 روپے سے نیچے لائیں گے: وزیر خزانہ اسحاق ڈارNode ID: 706141
حکومت کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ سٹیٹ بینک قانون کے مطابق جائزہ لے کر ملوث بینکوں کے خلاف کارروائی کرے گا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بینک ڈالر ریٹ میں ہیر پھیر کیسے کرتے ہیں اور اس کا فائدہ کس کو ہوتا ہے؟
سابق سیکریٹری خزانہ اور معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر اشفاق حسن خان کے مطابق ’بینکوں کے پاس ڈالر ریٹ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور ہیر پھیر کے سینکڑوں طریقے ہیں۔‘
’یہ آپس میں مل جاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ کل ریٹ یہاں تک پہنچانا ہے جس سے مارکیٹ میں ڈالر کی مصنوعی قلت پیدا کی جاتی ہے۔ فاریکس ایسوسی ایشن کو اس میں شامل کیا جاتا ہے تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل کریں۔‘
ان کے مطابق ’پاکستان سالانہ 65 سے 70 ارب ڈالر کی درآمدات کرتا ہے جن کی ادائیگیاں ایل سی کے ذریعے کی جاتی ہیں۔ بینک جب یہ ایل سی کھولتے ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ بینک وہ رقم جسے سے درآمدی سامان خریدا گیا ہے اس کے اکاؤنٹ میں منتقل کرتے ہیں۔‘
’ہوتا یہ ہے کہ جب بینک اس ایل سی کے لیے پاکستانی امپورٹر سے رقم وصول کرتے ہیں تو اسے کہتے ہیں کہ ہم آپ کو 10 روپے زیادہ کا ڈالر ریٹ دیتے ہیں اور یہ کوئی بینک اکیلا نہیں کرتا بلکہ پانچ سات بینک مل کر یہ طے کرتے ہیں۔‘
اشفاق حسن کے مطابق ’جب وہ یہ کر لیتے ہیں تو پھر جان بوجھ کر مارکیٹ میں ڈالر کی قلت پیدا کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی گاہک بینک جاتا ہے ڈالر خریدنے تو اسے کہتے ہیں کہ ڈالر شارٹ ہے جس وجہ سے ڈالر کی قیمت اوپر چلی جاتی ہے۔

اس حوالے سے حکومت کے کردار پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ جب سٹیٹ بینک کہہ رہا ہے کہ آٹھ بینکوں نے ڈالر ریٹ میں ہیر پھیر کی اور ارکان قومی اسمبلی کے مطابق ان بینکوں نے ملکی معیشت کے ساتھ کھلواڑ کیا تو پھر وزارت خزانہ ان کے خلاف کارروائی سے کیوں گریزاں ہے؟
اس معاملے پر وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’کرنسی ریٹ پر سٹیٹ بینک بینکوں کے خلاف تحقیقات کر رہا ہے۔‘
’سٹیٹ بینک متعلقہ قانون کے مطابق ایکشن لے رہا ہے۔ ٹرانزیکشن میں ثابت ہوگا تو قوانین کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔‘
ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے مزید کہا کہ ’جو بھی ہوا ہے غلط ہوا ہے، اگر غلط ٹرانزیکشن ہوئی ہے تو سخت جرمانہ ہوگا۔‘
’سٹیٹ بینک ایک آزاد ادارہ ہے کسی کو جواب دہ نہیں ہے۔ اگر کسی ہیر پھیر کے شواہد ملتے ہیں تو قانون کے مطابق سٹیٹ بینک ایکشن لے سکتا ہے۔‘
