پاکستان کے شہر لاہور میں 20 ستمبر کی رات ماڈل ٹاون کے علاقے میں واقع ایک دفتر میں رات ٹھیک 12 بجے چھ افراد گھس آئے۔ ان کے پاس اسلحہ بھی تھا اور ہتھکڑیاں بھی۔
انہوں نے دفتر میں گھستے ساتھ ہی سٹاف پر اسلحہ تان لیا اور انہیں کام کرنے سے روک دیا۔ انہوں نے تعارف کروایا کہ وہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ سے ہیں۔ اس دفتر کے مالک کامران طاہر کو بھی ہتھکڑیاں لگا دی گئیں۔
مزید پڑھیں
-
لاہور میں ایک اور پولیس مقابلہ، کیا مرنے والے واقعی ڈکیت تھے؟Node ID: 704271
دفتر میں اس وقت 12 کے قریب افراد کام کر رہے تھے جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔
کامران طاہر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ لوگ اتنی تیزی سے اندر آئے اور ہر چیز کو قابو کیا کہ ہمیں کچھ سوچنے سمجھنے کا موقعہ ہی نہیں ملا، وہ تشدد کر رہے تھے۔ جو کوئی ان سے کچھ پوچھتا تو وہ اس کا جواب مکے یا تھپڑ سے دیتے۔‘
لگ بھگ آدھا گھنٹہ خوف و ہراس پھیلانے کے بعد ایف آئی اے سائبر کرائم کی ٹیم نے مذاکرات کا آغاز کیا۔ کامران طاہر کے مطابق ’جب میں نے اُن سے پوچھا کہ وہ اپنا کارڈ دکھائیں یا سرچ وارنٹ یا کوئی درخواست جو میرے خلاف دی گئی ہو۔ میرے ان سوالوں پر وہ مشتعل ہوئے اور ہمیں زدوکوب کرنا شروع کر دیا۔‘
مار دھاڑ کے دوران ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی ٹیم نے دفتر میں موجود کمپیوٹرز، لیپ ٹاپس اور موبائل فونز بھی قبضے میں لینے کے ساتھ ساتھ ان کے پاس ورڈز بھی ایک کاغذ پر لکھے۔

دفتر کے مالک نے بتایا کہ ’جب انہیں یقین ہو گیا کہ اب ہم نے سوال کرنا بند کر دیے ہیں، تو انہوں نے آہستہ آہستہ دہشت پھیلانی بند کر دی لیکن ہتھکڑیاں ابھی بھی نہیں کھولیں۔ اس کے بعد ایک شخص جس نے اپنا نام نوید گل بتایا، نے کہا کہ وہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کا انسپکٹر ہے۔ اگر تم بات یہیں ختم کرنا چاہتے ہو تو 50 لاکھ روپے دو۔ میرے لیے یہ رقم بہت بڑی تھی۔ مذاکرات میں وہ چھ لاکھ روپے لینے پر راضی ہو گئے۔‘
کامران طاہر گزشتہ کئی سالوں سے ماڈل ٹاون لنک روڑ پر ایک کال سینٹر چلا رہے ہیں، اور کئی برطانوی کمپنیوں کو سروسز فراہم کرتے ہیں۔
ان کے دفتری اوقات بھی برطانوی وقت کے مطابق ہیں۔ ان کی کمپنی سکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) میں رجسٹرڈ کاروباری ادارہ ہے۔ یہ تمام تفصیلات اس ایف آئی اے کی ٹیم کو بتائی گئیں تاہم انہوں نے اپنا کام جاری رکھا۔
’انسپکٹر نوید گل‘ نے کامران طاہر کے موبائل فون پر ان کی بینکنگ ایپ کھلوائی اور ان کے اکاؤنٹ میں موجود دو لاکھ 72 ہزار روپے اپنے کسی اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروائے۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’میرے تین بینک اکاؤنٹس ہیں، صرف ایک کی میں ایپ استعمال کرتا ہوں، باقیوں کے میرے پاس اے ٹیم ایم کارڈز تھے۔ انہوں نے میرے سے اے ٹی ایم کارڈز کے پن کوڈز لیے اور ایک شخص نیچے چلا گیا۔ دونوں اکاؤنٹس سے مجموعی طور پر ایک لاکھ روپے نکلوا لیے۔‘
ایف آئی اے کے اہلکاروں نے باقی رقم دینے کے وعدے پر وہاں سے کمپیٹور، لیپ ٹاپ اور موبائل فون اپنے قبضے میں لے لیے اور کوئی دو گھنٹے کی اس ’واردات‘ کے بعد وہاں سے نکل گئے، اور اگلے دن باقی کی رقم دے کر اپنا سامان واپس لینے کی شرط طے کر گئے۔
یہیں سے کہانی نیا رخ لیتی ہے۔ اگلے دن کامران طاہر اپنے کسی دوست کے ذریعے ایف آئی اے سے رابطہ کرتے ہیں لیکن وہاں صورت حال ہی مخلتف ہوتی ہے۔
