عورت ذات عبادت کے معاملہ میں کبھی مردوں سے پیچھے نہیں رہی ،ان کا ذوقِ عبادت اور اللہ تعالیٰ سے خصوصی تعلق و محبت مثالی رہا ہے
* * * * مولانا محمد غیاث الدین حسامی ۔ حیدرآباد دکن* * *
قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کے مقصد زندگی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے انسانوں اور جنات کو محض اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے (الذاریات56)۔ یہی بات ایک حدیث قدسی میں کچھ تفصیل کے ساتھ ہے کہ اے میرے بندو ! میں نے تمہیں اس لئے پیدا نہیں کیا کہ تم تنہائی میں میرے انیس بنو ، اور نہ اس لئے کہ قلت میں تمہارے ذریعے میں کثرت حاصل کرو ، اور نہ اس لئے کہ تنہاہونے کے باعث کسی کام کے کر نے سے عاجز ہو کر میں تمہاری مدد کا طلب گار بنوں اورنہ اس لئے کہ تمہارے ذریعہ کوئی نفع حاصل کروں یا کسی مضرت کو دفع کروں ، میں نے تو تمہیں اس لئے پیدا کیا کہ تم زندگی بھر میری بندگی اختیار کرو ، کثرت سے میرا ذکر کرو اور صبح و شام میری تسبیح پڑھتے رہو(عبادت کا حقیقی مفہوم،مصنف :ڈاکٹر یوسف القرضاوی )۔ عبادت کے تعلق سے اللہ تعالیٰ نے بنی نوعِ انسان کے ہر فرد بشر سے ایک مضبوط عہد لیا ہے، جسے قرآن مجید نے واضح الفاظ میں ذکر کیا ہے کہ اے آدم ؑ کی اولاد! کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا ، اس لئے کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ، اور میری ہی عبادت کرنا یہی سیدھا راستہ ہے ( یٰسین61,60) لیکن انسان گردشِ زمانہ کے ساتھ ساتھ اس وعدئہ خداوندی کو بھول گیا ، اور ایک معبود کی عبادت کی بجائے کئی خداؤں کی عبادت کرنے لگا ، اور ہر ذی اثر چیزوں کو اللہ کا درجہ دے دیا ، اس کی اسی غفلت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نبیوں اور رسولوں اور نزولِ کتب کا سلسلہ شروع کیا ، جس کے ذریعہ پوری انسانیت کو ایک اللہ سے کیے ہوئے اس وعدے کو یاد دلایا اور انھیں بندوں کی عبادت سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف پھیر دیا۔
ان نیک فطرت نبیوں اور رسولو ں کا اپنی قوم کیلئے ایک ہی نعرہ تھا کہ اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے علاوہ تمہارے لئے کوئی معبود نہیں۔قرآن کریم کی بہت سی آیتوں اور رسول اللہکی بہت سی احادیث میں عبادت کی بہت تاکید کی گئی ہے اور یہ بھی بتلادیا گیا ہے کہ جو شخص اپنے مقصدِ زندگی (عبادت) میں کامیاب ہوگا وہی ربّ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرے گا اور جو ناکام و نامراد ہوگا وہ ربّ کی ناراضگی کی وجہ سے عذاب وعقاب کا مستحق ہوگااس لئے بندے کی اصل کامیابی حکمِ الٰہی اور طریقۂ بنوی کے مطابق عبادت کرنے میں مضمر ہے اور جو بندہ عبادت و بندگی کے علاوہ دوسرے طریقہ میں کامیابی کا طلبگار ہوگا، اْس کیلئے ناکامی لکھ دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں مردوں کے اوصافِ بندگی کے ساتھ ساتھ عورتوں کے اوصافِ عبادت کو بھی ذکر کیا اور اس پر ملنے والے اجر و ثواب کا انھیں بھی مستحق قرار دیا ، جس کی طرف قرآن کریم کی یہ آیت اشارہ کررہی ہے: ’’یقینا مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ، مومن مرد اور مومن عورتیں ، فرمانبردار مرد اور فرنبردار عورتیں ، سچے مرد اور سچی عورتیں ، صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں ، اللہ سے ڈر نے والے مرد اور اللہ سے ڈر نے والی عورتیں ، صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں، رو زہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں ، اپنے ستر کی حفاظت کرنے والے مرد اور اپنے ستر کی حفاظت کرنے والی عورتیں ، اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور اللہ کا ذکر کرنے والی عورتیں ، ان سب کیلئے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم تیار کیا ہے۔‘‘(الاحزاب35)۔
تاریخِ اسلام اس بات پرگواہ ہے کہ ابتدائے اسلام سے آج تک عبادت و بندگی کے اس حکم پر جہاں مردوں نے عمل کیا ہے وہیں عورتیں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہیں۔خالق کائنات کی رضا جوئی کیلئے جہاں مرد اپنی راتوں کو عبادت سے مزین کیے وہیں عورتیں بھی اطاعت و بندگی کے ذریعہ اپنی راتوں کو سجائیںاور اپنے مولیٰ سے ہم کلامی کیلئے شب بیداری اور آہِ سحر گاہی کا معمول بنائیں۔جہاں رسول اللہ پورے جذبہ کے ساتھ عبادت میں مصروف ہوا کرتے وہیں آپ کی صحبت میں رہنے والی ازواجِ مطہرات بھی پورے شوق و جذبہ کے ساتھ فریضۂ بندگی بجالاتیں۔جہاں صحابہ کرامؓ طریقۂ نبی کے مطابق عبادت کیا کرتے وہیں، صحابیاتؓ بھی آپ کی تعلیمات کی مطابق عمل کرتیں اور جس طرح عبادت کے میدان میں حسن بصریؒ جیسے باکمال ولی پیدا ہوئے اسی طرح رابعہ بصریہؒ جیسی ولیہ بھی پیدا ہوئیں۔عبادت گزاروں کی فہرست اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک ان برگزیدہ خواتین کا تذکرہ نہ کیا جائے ، جن کے جذبۂ عبادت و بندگی اور رضائے الٰہی کے حصول کی کوششوں کودیکھ کر موجودہ دور کی خواتین بھی اپنے مقصدِ زندگی کو یا د کرسکتی ہیں اور اپنے مولائے حقیقی کی عبادت میں ہمہ تن مصروف ہوسکتی ہیں۔ خیر القرون اوردورِ سلف ِ صالحین کی خواتین کو عبادت کا اتنا زیادہ شوق تھا کہ اپنے دن و رات کا اکثر حصہ عبادت ِ الٰہی میں گزارتیں اور اپنے آپ کو ان اعمال میں لگاتیں جو اللہ اور اس کے رسول کو راضی کرنے والے ہوتے۔عبادت کے ذریعہ اس مقام و مرتبہ پر پہنچ گئی تھیں جس تک آج کے بڑے بڑے ولی صفت انسان کا بھی پہنچنا مشکل ہے۔
٭ آپ کی سب سے چہیتی بیوی حضرت عائشہ صدیقہؓ بڑی عبادت گزار تھیں، اللہ تعالیٰ سے نہایت ڈر نے والی تھیں ، چاشت کی نماز پابندی کے ساتھ ادا کرتی تھیں، رمضان المبارک میں تراویح کا خاص اہتمام کرتیں۔ ان کا غلام نمازِ تراویح میں امامت کرتا اور وہ مقتدی ہوتیں۔ اکثر روزے رکھا کرتیں، پورے جذبہ کے ساتھ ہر سال برابر حج ادا کرتیں، غلاموں پر شفقت کرتیں اور ان کو خرید کر آزاد کرتیں (شرح بلوغ المرام)۔ ٭ امّ المو منین حضرت امّ سلمہؓ کی زندگی نہایت زاہدانہ تھی۔ انھیں عبادت الٰہی سے بہت زیادہ لگاؤ تھا۔رمضان شریف کے علاوہ ہر مہینہ میں 3 روزے پابندی کے ساتھ رکھا کرتیں ، اطاعتِ الٰہی ہر عمل میں صاف نظر آتا تھا۔ جہاں اوامر کی بے حد پابند تھیں وہیں نواہی سے بھی بچنے کا التزام کرتی تھیں(ابن سعد)۔
٭ امّ المومنین حضرت زینب بنت جحش ؓ بڑی دیندار ، پرہیز گار ، حق گو اوررونے والی تھیں ۔ ان کی عبادت و زہد کا اعتراف خود رسول اللہ نے کیا ہے۔حافظ ابن حجرؒ نے اپنی کتا ب ’’الاصابۃ‘‘ میں ایک واقعہ تحریر کیا ہے: ایک مرتبہ حضور مہاجرین کی ایک جماعت میں مالِ غنیمت تقسیم فرمارہے تھے ۔حضرت زینب ؓ بھی اس موقع پر موجود تھیں۔ انھوں نے کوئی ایسی بات کہی جو حضرت عمر ؓ کو پسند نہیں آئی۔ انھوں نے ذرا تلخ انداز میں حضرت زینب ؓ کو دخل دینے سے منع کیا ۔ رسول کریم نے فرمایا: اے عمر ؓ انھیں کچھ نہ کہو یہ اوّاہ ( اللہ سے ڈرنے والی) ہیں۔
٭ امّ المومنین حضرت جویریہ ؓ بھی بڑی عبادت گزار اور زاہدانہ زندگی گزار نے والی خاتون تھیں۔رسول اللہ انھیں اکثر عبادت و بندگی میں مشغول پاتے تھے۔ آپ جب کبھی گھر سے باہر جاتے یا گھر تشریف لاتے تو انھیں اپنے ربّ سے راز و نیاز کر تے ہوئے پاتے ۔ایک دن حضورانور نے انھیں صبح کے وقت اپنے گھر کی مسجد (نماز کی جگہ) میں عبادت کرتے ہوئے دیکھا پھرضروریات سے فارغ ہو کر آئے تو بھی اسی حالت میں ان کو پایا ۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ کیا تم ہمیشہ اسی طرح عبادت کرتی رہتی ہو۔ انھوں نے کہا: جی ہاں یا رسول اللہ ! تو آپ نے فرمایا: یہ کلمات پڑھاکرو ،ان کو تمہاری نفل عبادت پر ترجیح حاصل ہے: سُبحَانَ اللّٰہ،سُبحَانَ اللّٰہِ عَدَدَ خَلْقِہ سُبحَانَ اللّٰہ عَدَدَ خَلْقِہ سُبحَانَ اللّٰہ رِضَی نَفْسِہ سُبحَانَ اللّٰہ رِضَی نَفْسَہ،سُبحَانَ اللّٰہ زِنَۃَ عَرْشِہِ سُبحَانَ اللّٰہ زِنَۃَ عَرْشِہِ، سُبحَانَ اللّٰہِ مِدَادَ کَلِماَتِہِ، سُبحَانَ اللّٰہِ مِدَادَ کَلِمَاتِہِ (مسند احمد،حدیث جویریہ بنت الحارث )۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ نے فرمایا: جو شخص12 رکعات نفل روزانہ پڑھے گا اس کیلئے جنت میں گھر بنایا جائیگا۔آپ کا یہ ارشاد حضرت امّ حبیبہ ؓ بھی سن رہی تھیں، اس کے بعد پوری زندگی یہ12رکعات ان کے معمول میں رہیں، کبھی ان کو ترک نہیں کیا (مسند احمد ،حدیث ابی موسیٰ الاشعری )۔
٭ حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا ؓکو عبادتِ الٰہی سے بے انتہا شغف تھا ۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ تہجد گزار اور کثرت سے روزے رکھنے والی تھیں۔ خوف ِ الٰہی سے ہر وقت لرزاں اور ترساں رہتی تھیں ۔ زبان پر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا ذکر جاری رہتا تھا۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ میں فاطمہ ؓ کو دیکھتا تھا کہ کھانا پکاتی تھیں، اور ساتھ ساتھ اللہ کا ذکر کرتی جاتی تھیں۔حضرت سلمان فارسی ؓ کا بیا ن ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ گھر کے کام کاج میں لگی رہتی تھیں اور قرآن مجید کی تلاوت کرتی رہتی تھیں، وہ چکّی پیستے وقت بھی قرآن پاک کی تلاوت کرتی تھیں۔علّامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں اُن کی اِسی عادت کی طرف اشارہ کیا ہے: آں ادب پروردئہ صبر و رضا آسیا گردان و لب قرآں سرا حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ(سیدہ) فاطمہ ؓ اللہ تعالیٰ کی بے انتہا عبادت کرتی تھیں لیکن گھر کے کام میں کوئی فرق نہیں آنے دیتی تھیں۔سیدنا حسن ؓ فرماتے ہیں کہ میں اپنی والدہ ماجدہ کو صبح سے شام تک محرابِ عبادت میں اللہ تعالیٰ کے آگے گریہ و زاری کرتے ، نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ اس کی حمد و ثنا کرتے اور دعائیں مانگتے دیکھاکرتا تھا اور یہ دعائیں وہ اپنے لئے نہیں بلکہ تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کیلئے مانگتی تھیں۔عبادت کرتے وقت آپ کا نورانی چہرہ زرد ہوجاتا تھا، جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا،آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی تھی یہاں تک کہ اکثر مصلیّٰ آنسوؤں سے بھیگ جاتا تھا۔ حضرت حسن بصریؒفرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہ ؓ کی عبادت کا یہ حال تھا کہ اکثر ساری رات نمازمیں گزاردیتیں، بیماری اور تکلیف کی حالت میں بھی عبادتِ الٰہی کو ترک نہیں کرتی تھیں۔
اللہ تعالیٰ کی عبادت ، اس کے احکام کی تعمیل اور اس کی رضاجوئی اور سنت ِ نبوی کی پیروی ان کے رگ و ریشے میں سماگئی تھیں(سیرت فاطمۃ الزہراؓ)۔ ٭ حضرت اسماء بنت ابو بکر ؓ عبادت وبندگی میں شہرہ رکھتی تھیں۔نہایت درجہ کی عابدہ اور زاہدہ تھیں ۔کثرتِ عبادت ان کا خصوصی وصف تھا ۔ ایک مرتبہ رسول اللہ کسوف کی نماز پرھا رہے تھے ، بہت سے صحابیات بھی شریک ِ نماز تھیں، ان میں حضرت اسماء ؓ بھی شامل تھیں۔آپ نے نماز کو کئی گھنٹے طویل کیا ۔ حضرت اسماء ؓ کی طبیعت کچھ کمزور تھی ،تھک کر چور چور ہوگئیں لیکن بڑے استقلال سے کھڑی رہیں۔ جب نماز ختم ہوئی تو غش کھا کر گر پڑیں ۔چہرے اور سر پر پانی چھڑ کا گیا تو ہوش میں آئیں (بخاری شریف، باب صلٰوۃ النساء مع الرجال فی الکسوف )۔
٭ رسول اللہ کی چچی حضرت امّ الفضلؓ نہایت پرہیز گار اور عبادت گزار تھیں۔ بعض روایتوں میں ہے کہ وہ ہر پیر اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتی تھیں۔ ٭ حضرت خولاء ؓ بھی عبادت الٰہی سے کافی شغف رکھتی تھیں اور ساری رات عبادت اور نماز پڑھنے میں گزار تی تھیں۔ ان کا تذکرہ مسند احمد بن حنبل میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں حضرت خولاء ؓ کا ادھر سے گزر ہوا تو حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ سے کہا کہ یا رسول اللہ ! یہ خولاء ہے، جو پوری رات عبادت میں گزارتی ہے اور رات بھر سوتی نہیں ، اس پر آپ نے تعجب سے فرمایا کہ رات بھر نہیں سوتیں ؟ پھر فرمایا کہ انسان کو اتنا ہی کام کرنا چاہیے جسے وہ ہمیشہ نباہ سکے (مسند احمد ، مسند عائشہ)۔
٭ حضرت صفوان بن معطل ؓ کی اہلیہ ایک مرتبہ آپ کے پاس آکر شکایت کرنے لگیں کہ ان کے شوہر انھیں نماز پڑھنے کی بنا پر سختی کرتے ہیں ۔جب میں روزہ رکھتی ہوں تو میرا روزہ بھی تڑوادیتے ہیں ۔ حضور انور نے صفوان بن معطل ؓ سے وجہ دریافت کی تو انھوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ !یہ نماز میں2لمبی لمبی سورتیں پڑ ھتی ہیں اور میں انھیں اس سے منع کرتا ہوں ، اور روزہ تڑوانے کی حقیقت یہ ہے کہ جب یہ نفلی روزے رکھنے پر آتی ہیں تو رکھتی ہی چلی جاتی ہیں جو میرے لئے تکلیف دہ ہے(مسند احمد ، مسند ابی سعید خدریؓ )۔ ٭ حضرت عائشہ بنت طلحہ ؓ مشہور تابعیہ ہیں۔بڑی ذاکرہ تھیں ۔ان کی زبان صبح و شام ذکر الٰہی سے تر رہا کرتی تھی ، ان کا نفس پاکیزہ ہوچکا تھا جس نے انھیں تمام عورتوں میں ممتاز کردیا تھا۔ انھیں بہت ساری باتیں خواب کے ذریعہ معلوم ہوجاتی تھیں۔ ٭ خوابوں کی تعبیر بتانے والے مشہور امام محمد ابن سیرینؒ کی بیٹی حفصہ بنت سیرینؒاپنے زمانے کی معروف تابعیہ ہیں، جن کے بلند مرتبہ کی گواہی اہلِ معرفت حضرات نے دی ہے ۔ حفصہ بنت سیرین ؒپاکیزگی ، عزت و عفت اور دین و عبادت کے اعتبار سے عورتوں کی سردار تھیں۔ ان کی الگ کو ٹھری تھی جس میں وہ اکثر عبادت کرتی تھیں اسی لئے عبادت کے معاملے میں بہت ممتازمقام رکھتی تھیں اور وہ اس صفت میں حیرت انگیز مقام پر پہنچ گئی تھیں جہاں پر صرف بڑے زاہدین کی ہی رسائی ہوتی ہے۔مہدی بن میمون فرماتے ہیں کہ حفصہ بنت سیرین 30 سال تک اپنے مصلّٰی سے سوائے کسی کی بات کا جواب دینے یا قضائے حاجت کے نہیں نکلیں(سیر اعلام النبلاء ،باب عمرۃ بنت عبدالرحمن )۔ ًً
٭ حضرت معاذۃبنت عبداللہؒ تابعیہ ہیں اور حضرت عائشہؓ و حضرت علی ؓ کی شاگردہ ہیں۔اپنے وقت کی بڑی عابدہ خاتون تھیں۔ اپنے نفس کو مخاطب کرتے ہوئے کہتیں کہ اے نفس! نیند تیرے سامنے ہے، اگر تو چاہے تو تیری قبر میں نیند حسرت یا خوشی میں لمبی ہوسکتی ہے۔ جب انھیں نیند نہیں آرہی ہوتی تو فوراً اللہ تعالیٰ کی عبادت اوراس کی مناجات میں مستغرق ہوجاتی تھیں (سیر اعلام النبلاء باب معاذۃ بنت عبداللہ)۔ حضرت معاذۃؒ کو صبح کی تلاوت بہت محبوب تھی ۔ان کا دل اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا میں مصرو ف رہتا تھا ، عبادت و بندگی کو اپنی عادت بنالی تھی، یہاں تک کہ شبِ زفاف بھی عبادت میں گزرگئی ۔پوری رات عبادت اور ذکر و اذکار کرتی رہیں یہاں تک کہ فجر کی اذان ہو نے لگی ۔ ان کا معمول تھا کہ روزانہ600 رکعات نماز پڑھتیں اور ہر رات وہ قرآن کریم کی تلاوت بھی کرتیں۔جب سردی کا موسم ہوتا تو حضرت معاذہ پتلے کپڑے پہنتیں تا کہ سردی کی وجہ سے نیند نہ آئے اور عبادت میں سستی پیدا نہ ہو (نساء من عصر التابعین، مصنف احمد خلیل جمعہ)۔
٭ حضرت عبد اللہ بن مسلم عجلی ؒ بیان کرتے ہیں کہ مکہ میں ایک نہایت حسین و جمیل خاتون رہتی تھی اور اسے اپنے حسن و جمال پر بڑا ناز تھا ۔ ایک مرتبہ وہ عبید بن عمیرؒ کے پاس ایک مسئلہ پوچھنے لگیں اور دورانِ گفتگو اپنے چہرے سے کپڑا ہٹاکر انھیں اپنی طرف مائل کرنے لگی تو عبید بن عمیرؒ نے اس عورت کو (موت ، قبر ، اللہ کے سامنے حاضری کے ذریعہ )نصیحت فرمائی اور اسے اعمالِ خیر پر اْبھارا ۔ اتنی سی گفتگو پر وہ اس قدر متا ثر ہوئی کہ گھر جاکر شوہر سے کہنے لگی کہ ہم دونوں نے آج تک آوارگی اور غفلت میں زندگی گزار ی ہے ، اس کے بعد سے وہ نماز ، روزہ اور عبادت میں مصروف ہوگئی۔ اس عورت کا شوہر کہاکرتا تھا کہ عبید بن عمیرؒ نے میری بیوی کو کیا کردیا ہے جو ہر وقت عبادت الٰہی میں مشغول رہتی ہے اور رہبانیت کی زندگی گزارتی ہے (تنبیہ الغافلین)۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ عورت ذات عبادت کے معاملہ میں کبھی مردوں سے پیچھے نہیں رہی بلکہ ان کا ذوقِ عبادت اور اللہ تعالیٰ سے خصوصی تعلق و محبت مثالی رہا ہے ۔ آج کل کی خواتین بھی ان کے نقش قدم پر چل کر دنیا و آخرت میں سرخ رو ہوسکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی تو فیق عطا فرمائے، آمین۔