پاکستان میں لمپی سکن بیماری سے لاکھوں مویشیوں کی ہلاکت کے بعد اب سیلاب سے بھی سات لاکھ 20 ہزار سے زائد مویشی ہلاک ہو چکے ہیں اور اس تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
ڈیری اینڈ کیٹلز فارمرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ لمپی سکن بیماری کے بعد سیلاب سے لاکھوں جانوروں کی ہلاکت سے آنے والے دنوں میں دودھ اور گوشت کی شدید قلت پیدا ہو سکتی ہے۔
مزید پڑھیں
-
چولستان کے لائیو سٹاک ذخیرے کا دودھ کہاں جا رہا ہے؟Node ID: 536161
این ڈی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق ہلاک ہونے والے مویشیوں میں بلوچستان میں سب سے زیادہ پانچ لاکھ، پنجاب میں دو لاکھ سے زائد، سندھ میں 15 ہزار اور خیبر پختونخوا میں 1200 سے زائد مویشی ہلاک ہو چکے ہیں۔
یہ اعداد وشمار مقامی انتظامیہ کی جانب سے این ڈی ایم کو بھجوائے جا رہے ہیں جبکہ جن علاقوں میں سیلابی صورت حال خطرناک ہے وہاں کے اعداد وشمار ابھی پہنچ بھی نہیں پا رہے جس کے باعث یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ہلاک ہونے والے مویشیوں کی تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

مالی سال 2021-22 کے اقتصادی سروے کے مطابق لائیو سٹاک کا شعبہ پاکستان کی زرعی ویلیو ایڈڈ مصنوعات کا 61 فیصد حصہ ہیں جبکہ پاکستان کے مجموعی جی ڈی پی میں لائی سٹاک کا حصہ 14 فیصد ہے۔ پاکستانی کی دیہی آبادی کے 80 لاکھ خاندان مویشی پالتے ہیں۔ ان کی آمدن کا 35 سے 40 فیصد حصہ مال مویشی سے حاصل ہونے والی آمدن سے حاصل ہوتا ہے۔
گزشتہ مالی سال کے دوران اگرچہ لائیو سٹاک کے شعبہ میں تین فیصد تک بہتری آئی تھی اور مختلف صوبائی حکومتوں کی جانب سے اس شعبہ کے فروغ کے لیے اقدامات بھی کیے جا رہے تھے۔
حکام کے مطابق ’سیلاب سے اتنی بڑی تعداد میں مویشیوں کی ہلاکت کے بعد دور دراز کے دیہی علاقوں کے مویشی پال کر گزارہ کرنے والے خاندانوں کی معاشی حالت مزید ابتر ہو جائے گی اور ملکی سطح پر اس شعبہ میں آنے والی بہتری کو بھی دھکچکا پہنچا ہے۔‘
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ریلیف سرگرمیوں کے دوران بھی حکومتی اور نجی شعبہ پر انسانوں کو ریسکیو کرنے کے اقدامات تو کیے جاتے ہیں لیکن مویشیوں کے حوالے سے اقدامات بھی متاثرین کو خود ہی کرنا پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر طرف پانی ہونے کی وجہ سے جانوروں کے چارہ اور خوراک بھی ضائع ہو جاتا ہے اس وجہ سے وہ بھوک سے نڈھال ہو جاتے ہیں۔
کچھ اداروں اور امدادی تنظیموں کی جانب سے اگرچہ اقدامات کیے جا رہے ہیں لیکن اس حوالے سے اقدامات ابھی تک ناکافی ہیں۔

بلوچستان میں امدادی کاموں میں مصروف ایک رضا کار نصیر کاکڑ نے بتایا کہ سیلاب کی وجہ سے مویشی مر جانے سے بہت سے لوگوں کو بنیادی روزگار کا ذریعہ ہی ختم ہو گیا ہے۔
پانی کے ریلوں میں بہتے جانور دیکھ کر لوگ دھاڑیں مار کر روتے رہے لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا، جو جانور بارشوں کے باعث بیمار ہو کر یا چھتوں تل دب کر مر گئے ان کے تعفن نے مزید مشکلات پیدا کر دی ہیں۔
ڈیری اینڈ کیٹلز فارمنگ ایسوسی ایشی کے مطابق ’اس وقت پاکستان میں آٹھ کڑور سے زائد گائیں بھینسیں جن کی مالیت 16000 ارب سے زائد بنتی ہے اور یہ ملک کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں۔ان سے روزانہ پاکستان کو 13 کڑور لیٹر دودھ فراہم ہوتا ہے جس کی مالیت 13 ارب یومیہ جبکہ 4745 ارب سالانہ بنتی ہے۔‘ ایسوسی ایشن کے چیف آرگنائزر شہباز رسول وڑائچ نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’پاکستان میں اگرچہ مویشیوں کی درست تعداد کسی کو بھی معلوم نہیں ہے کیونکہ 2006 کے بعد جانوروں کی گنتی نہیں کی گئی لیکن حکومتی تخمینوں کے مطابق ملک کے کل لائیو سٹاک کا 70 فیصد حصہ پنجاب سے ہے اور جانور پالنے والوں کا 85 فیصد چھوٹے فارمرز جن کے پاس دو سے 10 جانور ہیں پر مشتمل ہے۔‘
