Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
جمعرات ، 19 جون ، 2025 | Thursday , June   19, 2025
جمعرات ، 19 جون ، 2025 | Thursday , June   19, 2025

امتحان ابھی باقی ہے!بول کہ لب آزاد۰۰۰

کیا تریاق کے آتے آتے سانپ کے کاٹے کا مریض اپنی سانسیں بچا پائے گا؟ مرنے کے لئے اور کتنا زہر مریض کی رگوں کو درکار ہے؟

- - - - - -

محمد مبشر انوار
- - - - -  - - -  
قانون کے ہاتھ لمبے،قانون اندھا ہوتا ہے لیکن اگر قانون مصلحت کوش ہو جائے تو انصاف کا دوردور تک کو ئی نام و نشان نظر نہیں آتا اور انصاف کے متعلق مشہور ہے کہ انصاف ہوتا نظر بھی آنا چاہئے۔ پاکستان میں عدالتی تاریخ اتنی تابناک نہیں کہ اس پر فخر کیا جا سکے لیکن سیاسی اثرورسوخ سے آزاد عدلیہ سے ایک امیدضرور تھی کہ اب بڑے اور اہم مواقع پر عدلیہ جرأتمندانہ فیصلے کرتے ہوئے پاکستان اور پاکستانیوں کی بھنور میں پھنسی کشتی کو کنارے لگانے میں ممد و معاون ہو گی۔ عدلیہ کے سامنے تاریخ کا اہم ترین مقدمہ پیش ہوا کہ نہ صرف حکمران بلکہ پاکستان کے دیگر مراعات یافتہ طبقے نے اپنی جائیدادیں ناجائز کمائی سے بیرون ملک بنا رکھی ہیں،مقدمے کی سماعت روزانہ کی بنیادوں پر ہوئی۔حکمران جماعت کے کئی قابل ذکر وکلاء اس مقدمے میں پیش ہوئے مگر وکلاء کی اکثریت ان جائیدادوں کی خرید و فروخت ، بلا شک و شبہ ثابت کرنے سے قاصر رہی کہ ملکیت کا اعتراف تو ہو چکا تھا ،تقاضہ تو صرف اتنا تھا کہ اس کے ذرائع مہیا کئے جائیں۔ عدلیہ نے ثبوت مانگے تو ایک قطری خط پیش کر دیا گیا اور ہر وکیل نے بار ثبوت کی ذمہ داری خاندان کے دوسرے فرد پر منتقل کرتے ہوئے اپنی گلو خلاصی کروا لی۔اس دوران عدلیہ کی جانب سے کئے گئے تیکھے سوالات نے بھی وکلاء یا موکلان کو کوئی خاص زحمت سے دوچار نہ کیا بلکہ فریقین ،تجزیہ نگار اپنے طور پر ہی ان سوالات کے مطابق فیصلہ اخذ کرتے رہے کہ ممکنہ فیصلے کے خدوخال اس طرح کے ہوں گے لیکن شو مئی قسمت،فیصلہ آیا تو شروع میں سب فریقین نے ہی بھنگڑے ڈالے اور مٹھائیاں تقسیم کی، بعینہ 2013ء کے انتخابی نتائج کے عین مطابق جب ساری سیاسی جماعتوں نے دھاندلی کا شور بھی مچایا لیکن تمام سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی طرح شریک اقتدار بھی ہوئیں۔ بعد ازاںفیصلے کی تفصیل جان کر سب ہی اس فیصلے کی مخالفت پر اتر آئے،سب سے زیادہ حیرت پی ٹی آئی پر ہوئی(جو براہ راست اس مقدمے کی فریق تھی)جنہوں نے ایک دن قبل فیصلے پر مٹھائیاں تقسیم کیں تو اگلے دن پھر احتجاجاً کالی پٹیاں اور فیصلے کی مخالفت شروع کر دی۔
علاوہ ازیں امید یہ بھی تھی کہ فیصلے میں اگر مگر،چونکہ چنانچہ جیسے الفاظ کم ہوں گے اور فیصلہ ’’دھاڑتا‘‘ ہوا سنائی دے گا مگر فیصلے کی نقاب کشائی نے ہر خاص و عام کو ششدر کر دیاکیونکہ عوام یہ سمجھ رہی تھی کہ پاکستان کی کرپٹ اشرافیہ اپنے اثاثہ جات کا کوئی بھی ثبوت فراہم نہیں کر پائے گی کہ ناجائز ذرائع آمدن کا کوئی ٹھوس ثبوت فراہم کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہو تا ہے لیکن فیصلہ اس کے برعکس سامنے آیا کہ3 ججز نے اثاثہ جات کے حوالے سے شکوک کا اظہار تو کیا مگر اس پر کوئی واضح فیصلہ کرنے سے گریز کیا۔ عدالت عظمیٰ بے شک تفتیشی ادارہ نہیں اور یہاں پر قوانین کی تشریح کی جاتی ہے،کسی اہم مسئلے پر ،کسی اہم قانونی نقطے پردلائل دئیے جاتے ہیں،نئے قوانین کی اختراع ہوتی ہے اور اسی چیز کو بنیاد بناتے ہوئے معزز جج صاحبان نے واضح فیصلہ لکھنے سے احتراز برتا اور معاملے کی مزید چھان بین کی خاطرتحقیقاتی ٹیم بنانے کی سفارش کی ہے۔ بات یہاں تک تو ٹھیک اور عین قوانین کے مطابق ہی لگتی ہے لیکن کیا اس لائحہ عمل سے انصاف بھی ممکن ہو سکے گا؟اس درماندہ قوم کو لوٹنے والے اپنے انجام کو پہنچ سکیں گے؟اس تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کے بعد کیا طریقہ کار طے ہو گا،کن کن مراحل سے گزرنا ہو گا؟کیا تریاق کے آتے آتے سانپ کے کاٹے کا مریض اپنی سانسیں بچا پائے گا؟ مرنے کے لئے اور کتنا زہر مریض کی رگوں کو درکار ہے؟کیا پاکستانی معیشت اتنا بوجھ اٹھانے کے قابل ہے؟کون کون سے عالمی اداروں کی رپورٹیں درکار ہیں صرف یہ ثابت کرنے کے لئے کہ پاکستان سے سالانہ 10 ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ ہو رہی ہے؟کیا خانانی اینڈ کالیا کے خلاف امریکہ میں کریک ڈاؤن نہیں ہوا؟کیا اس کے کرتا دھرتا امریکہ میں گرفتار نہیں ہوئے؟ کیا امریکہ میں ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر کسی پر ہاتھ ڈالا جا سکتا ہے؟حدیبیہ پیپر ملز کا تعلق اس مقدمے سے کیوں ختم کیا گیا؟اکانومی ریفارمز ایکٹ کو بذات خود اختیارات سے تجاوزکرتے ہوئے ایک مخصوص گروہ کی خاطر قانون سازی تسلیم کرتے ہوئے منسوخ کیوں نہیں کیا گیا،اس کے تحت بھیجی گئی رقوم کو ناجائز قرار کیوں نہیں دیا گیا؟سابق وزیر داخلہ رحمن ملک کی ،کی گئی تفتیش اور اسحاق ڈار کے بیان حلفی کو بنیاد کیوں نہیں بنایا گیا؟علاوہ ازیں موجودہ فیصلے میں حیران کن طور پر بار ثبوت مدعیان پر بھی رکھا گیا کہ مدعیان کے پیش کردہ ثبوت ناکافی اور کمزور ہیں لہذا عدالت عظمیٰ اس بنیاد پر وزیر اعظم کو نااہل قرار نہیں دے سکتی جبکہ اس حوالے سے سب سے اہم درخواست عوامی لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کی تھی کہ چونکہ مختلف عدالتیں پہلے ہی 21ارکان پارلیمنٹ کو غلط بیانی پر نا اہل قرار دے چکی ہیں لہذا وزیر اعظم کو بھی نا اہل قرار دیاجائے یا پھر نا اہل ممبران کی رکنیت بحال کی جائے،اس نکتے کو درخور اعتنا نہ سمجھا گیا۔
میرے نزدیک سب سے اہم نقطہ اکانومی ریفارمز ایکٹ کی تشکیل کے حوالے سے نہ صرف اختیارات سے تجاوز کا بنتا تھا بلکہ اس کے تحت ڈالرز کی بیرون ملک منتقلی غیر قانونی تھی،بظاہر یہی لگتا ہے کہ یہ نقطہ اٹھایاہی نہیں گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب فیصلہ آ چکا ہے اور اس فیصلے کی روح سے عوام کو ایک با ر پھر طویل انتظار کرنا ہو گا کیونکہ اس فیصلے کے مطابق تحقیقاتی ٹیم کی تفتیش کے بعد معاملات از سر نو دیکھے جائیں گے۔ تحقیقاتی ٹیم کو اپنی تفتیش مکمل کرنے میں کیا مسائل در پیش آتے ہیں،مجوزہ افراد کب کب اس ٹیم کو دستیاب ہوں گے اور کس طرح یہ ٹیم اس اشرافیہ کے خلاف اپنی تحقیقات مکمل کرے گی،یقینی طور پر یہ انتہائی کٹھن مراحل سے گزرے گی اور اس تفتیش کے بعد،متعلقہ ادارے اس تفتیش کی روشنی میں کیا لائحہ عمل اختیار کریں گے؟در حقیقت سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور آپریشن ضرب عضب کے پس منظر میں ہم دیوانوں کی طرح امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ اب چونکہ پاکستان بدل رہا ہے لہذا ادارے بھی اپنا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہو چکے ہیں،اس لئے عوام ضرورت سے زیادہ پر امید تھے کہ اب انصاف نہ صرف ہو گا بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آئے گا۔ اس تحقیقاتی ٹیم کا فرض منصبی یقینی طور پر یہی ہو گا کہ اس تمام لین دین کی تفصیل ان لوگوں سے دریافت کریں جن کے متعلق عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے لیکن کیا اس سے متعلقہ زیر تفتیش افراد ایک دوسرے کے خلاف کوئی ثبوت فراہم کر کے باقیماندہ اشرافیہ کے لئے مصائب کی پٹاری کھولنے کے لئے تیار ہوں گے؟ نہ جانے کیوں اس فیصلے سے ذہن ایک بار پھر ماضی میں چلا جاتا ہے جب ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے ’’مذاق جمہوریت‘‘ پر دستخط کئے تھے اور یقین دہانی کروائی تھی کہ اب ماضی کی غلطیوں سے اجتناب کرتے ہوئے ’’مفاہمت‘‘ کی سیاست ہو گی،فی الوقت واقعتاً ’’مفاہمت‘‘ کی سیاست ہی ہو رہی ہے کہ پچھلے تقریباً 10 سالوں میں دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف فقط زبانی کلامی کرپشن کے الزامات ہی لگائے ہیں لیکن کسی نے بھی نہ تو باقاعدہ تفتیش کی اور نہ ہی نئے مقدمات درج کروائے ۔
ایسے میں یہ کس طرح ممکن ہے کہ یہ ایک دوسرے کے خلاف ثبوت مہیا کریں؟؟ بقول منو بھائی’’احتساب کمیشن دے چیف کمشنر صاحب بہادر۔۔۔ چوراں ،ڈاکوؤاں،قاتلاں کولوں ،چوراں ،ڈاکوؤاں قاتلاں بارے کیہہ پچھدے او‘‘چوراں ،ڈاکوؤاں ،قاتلاں کولوں کدی منگیاں ثبوت نہیں لبھدے۔۔فائلاں وچ گواچے ہوئے وڈے وڈے کرتوت نہیں لبھدے‘‘۔ اس سارے پس منظر میں پاکستان سے محبت کرنے والوں اور پاکستان کی ترقی کے خواہشمندوں کے لئے امتحان ابھی باقی ہیں کہ اشرافیہ ہزارپا کی طرح اس ملک کے وسائل پر قابض ہے۔

شیئر: