چق ایسی شے ہے جو صرف دن میں قابل استعمال ہوتی ہے۔اس کا ’’جادوئی اثر‘‘ ایسا ہے کہ گھر کے دروازے اور کھڑکیوں پر اگر چق موجود ہو تو گھر کی خواتین اس سے بلا خوف و خطر باہر دیکھ سکتی ہیں
* * * * شہزاد اعظم۔جدہ* * * *
حال میں بہت سی ایسی اشیاء یا روایات ہیںجن کا ماضی میں ذکر ہی نہیں تھا کیونکہ اُس وقت وہ موجود ہی نہیں تھیں ۔ ان کی ایک مثال انٹرنیٹ اور موبائل فون ہیں۔ آج سے25سال قبل اگر کوئی شخص کہتا کہ میں نے ایسا ٹیلی فون دیکھا ہے جسے تار کے بغیر استعمال کیا جا سکتا ہے اور استعمال کے بعد اسے قمیص کی جیب میں رکھا جا سکتا ہے تو لوگ اسے پاگل خانے میں داخل کرا دیتے اور وہاں کے معالجین اسے دیگر پاگلوں کے ساتھ رکھنے سے گریز کرتے ہوئے’’ انتہائی نگہداشت وارڈ‘‘میں داخل کرتے تاکہ اِس کی ’’غیر زمینی ‘‘ ذہنی کیفیات سے اچھے خاصے پاگل متاثر نہ ہوجائیں۔اس کے مقابلے میں آج کا دور دیکھئے کہ جس شخص کے پاس موبائل فون نہ ہو اُسے ’’نامکمل شخصیت‘‘ تصور کیاجاتا ہے۔
لوگ اُسے ’’فقیروں سے بھی گیا گزرا، لا پروا، غیر مہذب، دنیا و مافیہا سے بے خبر،جاہل، گنوار، کم ظرف، پھوہڑ، بدنظم اور انسانوں سے بیزار قسم کا وجود قرار دینے لگتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ بعض فارمز میں نام ، شہریت، پیشہ، پتہ اور موبائل فون کا خانہ موجود ہے جسے پُر کئے بغیر فارم نامکمل قرار دیا جاتا ہے۔ موبائل فون ایک ایسی شے کی مثال ہے جس سے والدین واقف ہوں نہ ہوں، نومولودضرور واقف ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک شے ایسی ہے جس سے آج کی نئی نسل بالکل واقف نہیں البتہ ہم جیسے ’’بزرگ‘‘ لوگ اس کا حسب نسب سب کچھ جانتے، مانتے اور پہچانتے ہیں۔ یہ شے ہے ’’چلمن‘‘یا ’’چق‘‘ جو سرکنڈوںیا بانس کی تیلیوں کو سوت کے ذریعے باہم مربوط کر کے بنائی جاتی ہے اور اسے گھر گرہستن خواتین خود کو نامحرم نگاہوں سے بچانے کے لئے ’’پردے ‘‘کے زیرِ عنوان استعمال کیا کرتی تھیں۔چلمن یا چق وہ شے تھی جو پردہ داروں کی ضرورت تھی۔ جس سے ہرلڑکی واقف ہوا کرتی تھی خواہ وہ نومولود ہی کیوں نہ ہوکیونکہ اُس دور میں ہر خاتون پردہ کرتی تھی اور ہر پردہ دارکو ہی لوگ خاتون قرار دیتے تھے۔ ہمیں ایسی کئی آنٹیاں آج بھی یاد ہیں جو شادی کے تیسرے دن روتی چلاتی، آنسو بہاتی میکے آگئیں اور گھر والوں سے شکایت کی کہ میرے دولہا نے کہا ہے کہ تمہیں میرے ساتھ رہنا ہے تو برقعے کا استعمال ترک کرنا ہوگا ۔ میں اُن کی بات نہیں مان سکتی، مجھے اُن کے ساتھ نہیں رہنا، بس خلع دلوا دیجئے۔
ایک آدھ آنٹی ایسی بھی تھیں جنہوں نے میاں کا کہنا مان لیا اور برقعے کو خیرباد کہہ دیا۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ گھر کی خواتین نے یہ کہہ کر اُس آنٹی سے ملنا جُلنا ترک کر دیاکہ ہم نے اپنی بہو بیٹیوں کو بے حیا تھوڑا ہی بنانا ہے۔ وہ ’’بے پرد عورت‘‘ گھر آئے گی تو ہماری معصوم، پردہ دار’’کلیوں‘‘کی معصومیت کو گہن لگ جائے گا، اُن کا رنگ پھیکا پڑ جائے گا اور ان کی خوشبو ، ناگواری کا شکار ہوجائے گی کیونکہ اس بے پردپر نجانے کتنے غیر مردوں کی نظریںپڑ چکی ہوں گی، وہ جب ہماری ان پھول سی بچیوں کو دیکھے گی توایسا نہ ہو کہ اُس ’’بے حیائی‘‘ کے اثرات انہیں متاثر کر دیں۔ناں بابا ناں، ہمارے لئے وہ مر گئی اور اُس کے لئے ہم۔ چق ایسی شے ہے جو صرف دن میں قابل استعمال ہوتی ہے۔اس کا ’’جادوئی اثر‘‘ ایسا ہے کہ گھر کے دروازے اور کھڑکیوں پر اگر چق موجود ہو تو گھر کی خواتین اس سے بلا خوف و خطر باہر دیکھ سکتی ہیں جبکہ باہر والوں کو چق کے آر پار کچھ نظر نہیں آتا۔ اس کے برخلاف رات کے وقت گھر میں چونکہ روشنی ہوتی ہے اور باہر اندھیرا، اس لئے اس کا ’’جادو‘‘بالکل اُلٹ جاتا ہے۔ اب باہر سے گھر کے اندر کا نظارہ ممکن ہوجاتا ہے جبکہ گھر کے اندر سے باہر دیکھنا ممکن نہیں رہتا۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہماری ایک آدھ آنٹی تو ایسی بھی تھیں جو فقط اس لئے پچھاڑ کھا کر گر کے مرگئی تھیں کیونکہ وہ دوپہر کو عین ٹٹار کے وقت گھر کے بیرونی دروازے پرلٹکی چلمن سے لگی بیٹھی تھیں کہ اچانک وہ کیل سمیت نیچے آ گری اور گلی سے گزرنے والوں نے انہیں دیکھ لیا۔ نامحرموں کی نظر پڑنے کا انہیں اتنا شدید احساس ہوا کہ وہ بے ہوش ہو کر بیٹھے بیٹھے گرگئیں ، بعدازاں پتا چلا کہ وہ ’’بے پردگی کے خوف‘‘ سے ہی موت کی آغوش میں چلی گئیں۔اُس پیارے ، معصوم اور پاکیزہ دور کی خواتین کو اگر آج کی نوجوان نسل کی چھب دکھا دی جاتی کہ جو پردے کے معانی سے نابلد ہے اور چق یا چلمن ان کے لئے باعثِ حیرت ہے توبلا شبہ وہ حرکتِ قلب بند ہوجانے سے انتقال کر جاتیں۔آج کی بہت سی خواتین ایسی ہیں کہ جن کا شوق لباس کا اختصار ہے، جنہوں نے آستینوں سے ہمیشہ کے لئے ’’خلع‘‘ لے لیا ہے، جو اغیار کی نظروں ہی کا شکار نہیں ہوتیں بلکہ ’’نیٹ چاٹنگ، ویب کیم، ایس ایم ایس‘‘ کے ذریعے وہ ’’بے پرد سنتی اور سناتی‘‘ ہیں۔حد تو یہ ہے کہ موبائل فون کمپنیوں نے انہیں پہلے تو آسان اور مفت پیکج دیئے اور پھر کہا کہ ’’سب کہہ دو‘‘، ان نوجوانوں نے دل و جان سے موبائل فون کمپنی کا کہا مانا۔ آج سے 4دہائیوں قبل تک چلمن کا اپنا مقام واحترام عام تھا۔اُس وقت بننے والی بالی وڈ کی فلموں میں بھی چق یعنی چلمن کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک فلم میں شادی کے بعد ہیرو جب اپنی نوبیاہتا بیوی سے ملاقات کے لئے گھر میں داخل ہوتا ہے جو پسِ چلمن سجی دھجی براجمان ہوتی ہے تو وہ شعری بندش میں اپنی’’ اہلیہ‘‘ سے یوں مخاطب ہوتا ہے کہ: ’’یہ جو چلمن ہے، دشمن ہے ہماری کتنی شرمیلی، دلہن ہے ہماری‘‘ ہمارے اردو ادب کی طرح پاکستان میں چلمن یا چق کی روایت بہر حال باقی ہے۔ ذرا تصویر پر غور کیجئے۔ یہ ملتان شہر کی ہے جہاں سڑک کے کنارے ایک کمسن، چق تیار کرنے میں مصروف ہے۔ شاید وہ سرِ راہ اس لئے بیٹھا ہے تاکہ وہ ’’چلمنیت‘‘ کو خیر باد کہہ دینے والیوں کو احساس دلا سکے کہ اُن کا اصل مقام کیا ہے؟