پانامہ فیصلہ، کہانی تو اب شروع ہوئی ہے
فیصلہ جمعرات 20 اپریل کو ٹھیک2 بجے سنایا گیا، جس کے اہم نکات یہی تھے کہ نواز شریف کو نااہل نہیں قرار دیا جارہا، وہ بدستور سربراہ حکومت کام کرتے رہیں گے
صلاح الدین حیدر
بالآخر وہی ہوا جس کی اُمید تھی۔ وزیراعظم نواز شریف جیت گئے، سپریم کورٹ کا فیصلہ اُن کے حق میں آیا، لیکن منقسم۔5 میں سے3 ججوں نے اُنہیں عہدے پر بحال رکھا، خوشی کی بات ہے۔ 2 جج، بشمول مقدمات سننے والے بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا۔ اُن کے ساتھ جسٹس گلزار نے بھی وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ دیا، لیکن جسٹس عظمت سعید اور دوسرے 2 ججز، اگر اُن سے متفق نہیں ہوئے تو ظاہر ہے، اکثریت کے مطابق نواز شریف باقاعدگی سے اپنے منصب پر کام کرتے رہیں گے۔ ہاں جو بات اہم ہے، وہ یہ کہ فیصلے کے مطابق ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم سات روز کے اندر قائم کی جائے گی، جس کے سامنے نواز شریف اور اُن کے دونوں بےٹے حسن اور حُسین نواز پیش ہوں گے، تاکہ اپنے اوپر عائد شدہ الزام کی نفی کرسکیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ تحقیقاتی ٹیم میں جو تین اداروں کے لوگ ہوں گے اُن میں قومی احتساب بیورو، فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) اور سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن کے افسران ہوں گے۔ سپریم کورٹ ملک کی سب سے بڑی عدالت ہے۔ اُس کے فیصلے کے آگے سرجھکانا ہی پڑتا ہے، لیکن فیصلہ ایک دفعہ سنا دیا جائے تو پھر پاکستانی نظام عدل کے مطابق اُس پر تنقید بھی کی جاسکتی ہے۔
پاناما فیصلہ جمعرات 20 اپریل کو ٹھیک2 بجے سنایا گیا، جس کے اہم نکات یہی تھے کہ نواز شریف کو نااہل نہیں قرار دیا جارہا، وہ بدستور سربراہ حکومت کام کرتے رہیں گے، چونکہ2 ججوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں یہ بات زور دے کر کہی کہ کئی چیزیں مبہم رہیں، جدہ میں نواز شریف کی قائم کی جانے والی اسٹیل مل کی رقم کا کیا بنا اور پھر قطری شہزادے کو پاکستان سے رقم کب ارسال کی گئی۔ انکوائری ٹیم دو مہینے میں اپنا کام مکمل کرکے سپریم کورٹ کو رپورٹ دے گی۔ فیصلے میں ابہام بہت واضح ہے، ایک طرف تو سپریم کورٹ کہتی ہے کہ قومی احتساب بیورو کے چیئرمین نے صحےح کام نہیں کیا اور دوسری طرف فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل کی ناکامی کا بھی اعتراف کیا گیا، تو پھر سوال یہ ہے کہ ان دونوں اداروں کے ارکان کی شمولیت کیا معنی رکھتی ہے؟ عام توقع تو یہ تھی کہ اگر وزیراعظم بچ گئے تو بھی اُنہیں تحقیقات مکمل ہونے تک عہدے سے علیحدہ ہونا پڑے گا۔ ایسا نہیں ہوا۔ تو پھر اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ حکومتی اداروں کے افسران تحقیقاتی ٹیم میں آزادانہ طور پر کام کرسکیں گے۔؟ وزیراعظم اُن پر اثرانداز ہوسکتے ہیں اور خود بھی اُن کی ہمت نہیں ہوگی کہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ دے سکیں۔ گویا دو سوا دو مہینے تک تو ویسے بھی معاملہ ٹل گیا۔ آگے دیکھیں کہ دو مہینے میں تحقیقات مکمل ہوتی ہے یا بات مزید آگے بڑھ جائے گی۔ دو مہینے کے بعد ملک کا نیا میزانیہ پاس ہوجائے گا، نواز شریف اور اُن کی حکومت کو مزید تقویت مل جائے گی کہ قومی اسمبلی نے بجٹ منظور کردیا ہے تو ترقیاتی کام بھرپور طریقے سے جاری رہیں گے۔
فوری طور پر تو تینوں درخواست گزار حضرات یعنی تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور سابق وزیر شیخ رشید (جو عوامی مسلم لیگ کے سربراہ بھی ہیں) اپنے قول کے مطابق تنقید سے باز رہے، لیکن اپنی اپنی جماعتوں کے سرکردہ رہنماﺅں کا اجلاس طلب کرلیا تاکہ فیصلے پر کوئی حتمی رائے قائم کی جاسکے اور آئندہ کا لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ فیصلے کے صرف دو گھنٹے بعد ہی پیپلز پارٹی نے اسے مسترد کردیا۔ آصف زرداری نے اپنی پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس کے بعد صاف کہہ دیا کہ دو سینئر ججوں نے صحےح فیصلہ دیا اور تین جونیئر ججوں نے نواز شریف کا ساتھ دے کر قوم کو مایوس کیا۔ ایک پریس کانفرنس میں اُن کے جملے طنز سے بھرے ہوئے تھے، ایک رپورٹر کے سوال کے جواب میں اُنہوں نے بلاجھجک کہہ دیا کہ آپ کسی پان والے، کسی رکشا والے، کسی لسی دودھ بیچنے والے کے پاس چلے جائیں وہ بھی یہی کہے گا کہ گلی گلی میں شور ہے، نواز شریف چور ہے۔ خیر یہ سیاسی تنقید بھی ہوسکتی ہے، لیکن عوامی سطح پر فیصلے سے لوگوں کو مایوسی ہوئی، یہ اور بات کہ وزرا کا جم غفیر جس میں خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، احسن اقبال سرفہرست تھے، ڈھول پیٹتے ہوئے نظر آیا، (ن) لیگ کے عہدے دار اور کارکنان جشن مناتے ہوئے دیکھے گئے، لیکن پہلے بھی ایسا ہی منظر دیکھا جاچکا ہے۔ 1993 ءمیں جب نواز شریف حکومت کو آرٹیکل 58 ٹو بی کے تحت اُس وقت کے صدر مملکت غلام اسحاق خان نے برطرف کردیا تھا، تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اُنہیں بحال کیا۔ نواز شریف پھر بھی تین ماہ سے زیادہ برسراقتدار نہ رہ سکے اور انتخابات کا اعلان کردیا گیا، جس میں نواز شریف کو شکست ہوئی، اب بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ عوام کی عدالت میں مانا جائے گا یا نہیں، اسی کا انتظار ہے۔ عمران خان نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ فیصلہ کچھ بھی ہو، اُن کی پارٹی کرپشن کے خلاف عوامی احتجاج جاری رکھے گی۔ آصف زرداری نے یہ شکوہ بھی کیا کہ اُنہوں نے کافی پہلے عمران خان سے درخواست کی تھی کہ دونوں جماعتیں مل کر بدعنوانی کے خلاف ایک نیا قانون بنائیں، لیکن عمران نے اُن کی بات سنی اَن سنی کردی۔ زرداری کے مطابق عمران خان نے ناتجربہ کاری کا ثبوت دے کر غلطی کی۔ اب چیئرمین تحریک انصاف اور جماعت اسلامی بھی پرتول رہے ہےں کہ کرپشن کے ناسور سے فوری چھٹکارا پایا جانا چاہیے۔
راقم الحروف جب یہ سطور لکھ رہا تھا، اُس وقت تک عمران خان اور جماعت اسلامی کے ردعمل کا انتظار تھا، لیکن دونوں جماعتیں اب اپنی جدوجہد مزید تیز کردیں گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نواز شریف کے خلاف ایک بھرپور سیاسی محاذ کھل جائے گا۔ ویسے بھی وزیراعظم نے انتخابی مہم تو شروع کر ہی ڈالی ہے۔ سندھ، پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے دورے کررہے ہیں، جگہ جگہ پیسے بانٹے جارہے ہیں۔ پنجاب میں اُن کی پارٹی بہت مضبوط ہے، پیپلز پارٹی کا تو نام و نشان تک وہاں سے مٹ چکا ہے، ہاں سندھ میں اُن کی پارٹی مضبوط ہے اور دوبارہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے۔ حلقہ 108 کے انتخابات میں نواز شریف کے وزیراعظم منتخب ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں اور پیپلز پارٹی پھر سے سندھ میں برسراقتدار ہوتی نظر آتی ہے۔ ہم عمران خان کے بارے میں کچھ وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ پنجاب میں کوئی کارنامہ دِکھا پائیں گے یا نہیں۔ اُنہوں نے فاش سیاسی غلطیاں کی ہیں اور 2013 کے مقابلے میں اُن کی پوزیشن بہت کمزور ہوچکی ہے، لیکن وقت کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے، تاریخ اپنا ہی کھیل کھیلتی ہے، اگر عمران سنجیدگی سے کوشش کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ پنجاب میں نواز لیگ کے لیے ایک نیا اور بھرپور محاذ پھر سے کھول لیں، لیکن ہنوز دلّی دُور است۔
مختصراً یہ کہ ملک سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ایک نئی اور عجیب و غریب صورت حال سے دوچار ہوگیا ہے۔ نئی سیاسی تحریکیں جنم لے سکتی ہیں۔ ایم کیو ایم جو تقسیم در تقسیم ہے، اگر ایک ہوجائے (جس کا امکان کم ہے) تو کراچی، حیدرآباد اور میرپورخاص میں وہ دوبارہ اپنا سکّہ جماسکتی ہے، شرط یہ ہے کہ مصطفیٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی اور ڈاکٹر فاروق ستار کے تحت چلنے والی ایم کیو ایم پاکستان مشترکہ جدوجہد کریں، ورنہ کراچی کی 20 قومی اسمبلی کی نشستوں اور 40 صوبائی اسمبلی کی سیٹوں (جن کی تعداد موجودہ مردم شماری کے بعد بڑھ بھی سکتی ہے) پر نواز شریف، عمران خان، پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کی نظریں گڑی ہوئی ہیں۔ مرا ہوا ہاتھی بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے، یہی کچھ ایم کیو ایم کے بارے میں بھی کہا جاسکتا ہے، لیکن کیا مصطفیٰ کمال اور ڈاکٹر فاروق ستار مل پائیں گے، کیا دونوں ایک ہوجائیں گے؟ سوال بہت اہم ہے۔ اُنہیں ایک ہونا پڑے گا، اپنے اختلافات بھلانے پڑیں گے، جب ہی وہ کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں پر دوبارہ تسلط قائم رکھ سکیں گے، ورنہ چڑیاں کھیت چُگ چکی ہوں گی اور یہ منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔
نواز شریف کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اُنہیں نئے سرے سے اپنی انتخابی مہم چلانی پڑے گی۔ اس لیے کہ سپریم کورٹ کا منقسم فیصلہ، اُن کے لیے مشکلات بھی پیدا کرسکتا ہے۔ آج پھر ہمیں بے نظیر بھٹو کا یہ قول دہرانا پڑ رہا ہے کہ سپریم کورٹ نے ہمیشہ ہی نواز شریف کے حق میں فیصلہ دیا اور ایک بھی فیصلہ پیپلز پارٹی کے حق میں نہیں آیا۔ اس سوال کا جواب آنے والے دن ہی دے سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭